Baseerat-e-Quran - Al-Faatiha : 7
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ١ۙ۬ۦ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠   ۧ
صِرَاطَ : راستہ الَّذِينَ : ان لوگوں کا أَنْعَمْتَ : تونے انعام کیا عَلَيْهِمْ : ان پر غَيْرِ : نہ الْمَغْضُوبِ : غضب کیا گیا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ الضَّالِّينَ : جو گمراہ ہوئے
ان لوگوں کا راستہ جو اس پر چلے تو آپ کے انعام وکرم کے مستحق بن گئے۔ (اور اے اللہ) وہ لوگ جن پر آپ کا غضب نازل کیا گیا یا جو لوگ راستے سے بھٹک جانے والے ہیں۔ ان لوگوں کے راستے پر نہ چلائیے گا۔ (آمین ۔ اے اللہ ایسا ہی ہو)
(انعمت علیھم ): جن لوگوں پر آپ نے انعام کیا۔ کرم کیا۔ ایک بندہ اللہ سے درخواست کرتا ہے کہ ہمیں اس راستے پر چلائیے جو آپ کا پسندیدہ راستہ ہے وہ راستہ نہیں ہے جسے ہم سیدھا راستہ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ کہ دنیا میں ایسا کون آدمی یا جماعت ہے جو اپنے آپ کو صحیح نہ سمجھتا ہو۔ ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ میں نے جس راستے کو اختیار کیا ہوا ہے وہی سیدھا اور سچا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کہو الٰہی ! ان لوگوں کے راستے کی طرف ہماری رہنمائی فرما دیجئے جو آپ کے حکم کے مطابق چلے تو وہ کامیاب ہوگئے اور آپ کے کرم کے مستحق بن گئے۔ وہ کون لوگ ہیں سورة نساء میں فرمایا گیا ہے وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ قیامت میں ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام وکرم کیا یعنی انبیاء کرام (علیہ السلام) ، صدیقین، شھدا اور صالحین جن کی رفاقت بھی سب سے بہترین رفاقت اور ساتھ ہے (سورۂ نساء آیت 69) (غیر المغضوب علیھم): نہ (ان لوگوں کا راستہ) جن پر غضب کیا گیا۔ یعنی اے اللہ ہمیں ان لوگوں کے راستے پر تو چلائیے گا جو آپ کے برگزیدہ ، نیک اور عظیم بندے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کے راستے پر نہ چلائیے گا جو چلتے چلتے آپ کے غصہ اور غضب کا شکار ہوگئے۔ (ولا الضالین ): نہ (ان لوگوں کا راستہ دکھائیے گا) جو راستے سے بھٹک جانے والے تھے۔ جنہوں نے آپ کی اطاعت اور فرماں برداری سے منہ موڑ لیا تھا۔ جو راستے پر چلتے چلتے بھٹک گئے تھے۔ مغضوب اور ضالین کون لوگ ہیں۔ اس کی وضاحت کے لئے حضرت عدی ؓ ابن حاتم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جن لوگوں پر اللہ کا غضب نازل ہوا اس سے مراد یہودی ہیں اور جو لوگ راستے سے بھٹکنے والے لوگ ہیں وہ نصاریٰ (عیسائی) ہیں (مسند احمد۔ تفسیر مظہری) علماء مفسرین نے مغضوب اور ضالین میں تمام کفار، مشرکین، اللہ کے نافرمانوں اور بد نیتوں کو بھی شامل فرمایا ہے۔ یہودیوں کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ انہوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو جو اللہ کے پیغمبر تھے ان کو اللہ کا بیٹا بنا ڈالا تھا۔ اسی طرح ہر نعمت پر شکر ادا کرنے کے بجائے نا شکری کی روش اختیار کی۔ اس لیے اللہ کا غصہ اور غضب اس قوم پر نازل ہوا۔ نصاریٰ (عیسائیوں) کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے اللہ کے پیغمبر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی اور پھر بدعتوں ، گمراہیوں اور رسموں میں اس طرح پھنس گئے کہ انہوں نے اپنے بزرگوں اور راھبوں کو معبود کا درجہ دے دیا ان راہبوں نے جس چیز کو حرام یا حلال کردیا نصاریٰ نے آنکھ بند کر کے اس کو حرام و حلال سمجھ لیا۔ ان جہالتوں اور بدعتوں کی وجہ سے وہ اپنے راستے سے بھٹک کر اللہ کی رحمتوں سے دور ہوگئے۔ سورة فاتحہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کی حمد و ثنا کر کے جب ایک بندے نے اس بات کا اقرار کرلیا کہ الٰہی میں عبادت بھی آپ ہی کی کروں گا اور آپ ہی سے ہر طرح کی مدد مانگوں گا۔ پھر اس بندے نے اللہ کی بارگاہ میں یہ درخواست بھی پیش کردی کہ الٰہی ! ہمیں وہ سیدھا سچا راستہ دکھا دیجئے جس پر آپ کے نیک اور برگزیدہ بندے چلے تو آپ کے انعام وکرم کے مستحق بن گئے لیکن اے اللہ ہمیں ان لوگوں کے راستے سے بچا لیجئے گا جو یا تو آپ کے غضب کا شکار ہوگئے یا وہ گمراہی کے راستے پر چل پڑے اور بھٹک کر اپنی منزل سے بہت دور نکل گئے۔ جب بندے نے اللہ سے یہ درخواست پیش کردی تو اللہ تعالیٰ نے پورا قرآن کریم سامنے رکھ کر فرما دیا کہ اے بندے تو جس سیدھے سچے راستے کی طلب کر رہا ہے وہ میرا کلام یعنی قرآن مجید ہے راستہ ہم نے تمہیں دکھا دیا ہے اس راستے کو پوری طرح سمجھانے کے لئے ہم نے اپنے محبوب نبی ﷺ کو بھیج دیا جو اس کلام کی ایک ایک بات کی وضاحت فرمائیں گے۔ وہ جس طرف تمہارا ہاتھ پکڑ کرلے چلیں اسی طرح چلو اس طرح تم اپنی منزل مراد کو پالو گے حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں تم ان کے دامن اطاعت و محبت سے وابستہ ہوجاؤ کبھی راستے سے نہ بھٹکو دے اور تم اللہ کی رحمتوں کے مستحق بن جاؤ گے۔ (آمین ) سورة فاتحہ جب ختم ہوجائے تو سنت طریقہ یہ ہے کہ ” آمین “ کہی جائے۔ جس کا ترجمہ ہے ” اے اللہ ایسا ہی ہو “ ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب امام والا الضالین کہے تو تم آمین کہو کیوں کہ اس وقت فرشتے بھی آمین کہتے ہیں۔ اور جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی تو اس کے گذشتہ گناہ معاف ہوجائیں گے (بخاری ومسلم) اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم عطا فرمائے۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) صدیقین ، شہداء اور صالحین جیسے مقبول بندوں کا ساتھ عطا فرمائے اور ہمیں مقبول بندوں کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
Top