Kashf-ur-Rahman - Al-Faatiha : 7
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ١ۙ۬ۦ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠   ۧ
صِرَاطَ : راستہ الَّذِينَ : ان لوگوں کا أَنْعَمْتَ : تونے انعام کیا عَلَيْهِمْ : ان پر غَيْرِ : نہ الْمَغْضُوبِ : غضب کیا گیا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ الضَّالِّينَ : جو گمراہ ہوئے
ان لوگوں کی جن پر تو نے اپنا فضل کیا ہے4 وہ لوگ وہ ہیں جن پر نہ غضب نازل کیا گیا اور نہ وہ راہ سے بےراہ ہوئے5
4۔ ہم کو سیدھی راہ پر قائم رکھ ، راہ ان لوگوں کی جن پر تو نے اپنا انعام و اکرام فرمایا ہے (تیسیر) سیدھی راہ سے مراد اسلام اور دین حق ہے۔ یہی وہ راہ ہے جس پر چلنے سے انسان مطلوب حقیقی تک پہنچ جاتا ہے۔ ہدایت کے معنی مفسرین نے راہ دکھایا ۔ سیدھی راہ پر ثابت رکھتا اور سیدھی راہ کی توفیق دنیا کئے ہیں ۔ یہاں ان تمام معنی کی گنجائش ہے ۔ آگے اس سیدھی راہ کو بتاتے ہیں کہ وہ کن لوگوں کی راہ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ، وہ ان لوگوں کی راہ ہے جن پر انعام و اکرام ہوا ہے۔ وہ چار قسم کے حضرات ہیں ۔ انبیائ، صدیقین ، شہداء اور صالحین جیسا کہ پانچویں پارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ فائولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین والصدیقین و الشھداء والصالحین اور ظاہر ہے کہ ان حضرات سے بڑھ کر اور کس راہ سیدھی ہوسکتی ہے۔ (تسہیل) 5۔ وہ منعم علیہم وہ حضرات ہیں جن پر یہ کبھی غضب نازل کیا گیا اور نہ وہ راہ سے بےراہ ہو کر گمراہ ہوئے۔ ( تیسر) آیت میں مغضوب علیہم سے مراد یہود ہیں اور ضالین سے مراد نصاریٰ ہیں ۔ جیسا کہ چھٹے پارے میں ہے۔ من لعنہ اللہ وغضب علیہ اور پہلے پارے میں فرمایا وباء وابغضب من اللہ اور نصاریٰ کے متعلق چھٹے پارے میں ارشاد ہے۔ قد ضلوا من قبل واضلوا کثیرا سیدھی راہ کو ترک کرنی کی دو وجہ ہوسکتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ سیدھی راہ کی تحقیقات ہی نہ کرے اور دوسری یہ کہ خوب تحقیقات کرے اور پھر اس کو اختیار نہ کرے سو تحقیقات نہ کرنے والے تو نصاریٰ ہیں اور باوجود تحقیقات کے عمل نہ کرنیوالے اور جان بوجھ کر مخالفت کرنے والے یہود ہیں ۔ جس طرح منعم علیہم علم و عمل سے متصف تھے اسی طرح یہ لوگ علم سے اور عمل سے محروم رہے اور غضب الٰہی اور گمراہی کے مستحق ہوئے۔ غیر المغضوب علیہم الذین سے بدل یا اس کی صفت ہے۔ اس لئے ہم نے اسی رعایت سے ترجمہ کیا ہے تا کہ یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے کہ وہی حضرات حقیقی منعم علیہم ہیں جو ہر طرح کے غضب اور گمراہی سے محفوظ ہیں اور انہی کی راہ حقیقت میں سیدھی راہ ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یوں ترجمہ کیا جائے ۔ راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے اپنا فضل و انعام کیا نہ راستہ ان کا جن پر غضب نازل کیا گیا ۔ اور نہ ان کا راستہ جو راہ سے بےراہ ہوجائے اور گمراہ ہوئے جیسا کہ بعض نے کیا ہے اگرچہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ مطلب اور مآل دونوں کا ایک ہی ہے لیکن ہم نے صاحب مدارک کا قول اختیار کیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) موضح القرآن میں فرماتے ہیں ۔ یہ سورت اللہ تعالیٰ نے بندوں کی زبان سے فرمائی کہ اس طرح کہا کریں ۔ موضح القرآن ۔ جب شاہ صاحب (رح) نے اس میں اس شبہ کا جواب دیا ہے جو عام طور سے لوگ کیا کرتے ہیں کہ خدا کا کلام کیسے ہوسکتا ہے ۔ کیا خدا خود اپنے نام سے شروع کرتا اور خود ہی اپنے لئے صراط مستقیم طلب کرتا ہے۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کی زبان سے کہلوایا ہے کہ جب ہمارے دربار میں آیا کرو تو اس طرح ہم سے دعا کیا کرو ۔ جاننا چاہئے کہ یہ سورت ام القرآن ہے۔ تمام قرآن کو اس سورت کی تفسیر سمجھنا چاہئے۔ اس سورت کے بہت سے نام ہیں ۔ مثلاً فاتحہ الکتاب ، الحمد ، ام القرآن ، السبع المثانی ، وافیہ کافیہ ، کنز ، شفاء ، اساس صلوٰۃ ، توحید ، تعلیم ، مسئلہ وغیرہ اور ناموں کی کثرت ۔ اس سورت کی اہمیت اور عظمت شان پر دلالت کرتی ہے ۔ ایک حدیث قدسی میں نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ سورة صلوٰۃ میرے اور میرے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم شدہ سورت ہے۔ نصف سورت کا تعلق مجھ سے ہے اور نصف سورت کا تعلق میرے بندے سے ہے۔ جب بندہ کہتا ہے الحمد اللہ رب العالمین ۔ تو حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب بندہ کہتا ہے۔ الرحمن الرحیم تو خدا فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثنا بیان کی اور جب بندہ کہتا ہے ۔ مالک یوم الدین تو ارشاد ہوتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور جب بندہ ایاک نعبد وایاک نستعین کہتا ہے تو حق تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرا بندہ جو مانگے وہ اس کو ملے گا ۔ پھر جب بندہ سورت ختم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ سورت کا یہ حصہ خالص میرے بندے کے لئے ہے اور بندہ جو سوال کرے وہ پورا ہوگا ۔ یہ روایت امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے نقل کی ہے۔ سورة فاتحہ کو ختم کرنے کے بعد آمین کہنا سنت ہے۔ اگرچہ یہ لفظ آمین قرآن کا لفظ نہیں ہے لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے۔ سورة فاتحہ کو ختم کرنے کے بعد آمین کہا کرو ۔ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں ۔ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی تو اللہ تعالیٰ اس شخص کے پہلے تمام گناہ معاف کردیتا ہے۔ آمین کے معنی ہیں یا اللہ میری دعا قبول فرما۔ ( تسہیل) 5 محرم الحرام 0631؁ھ
Top