Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 33
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ١ۙ۬ۦ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠   ۧ
صِرَاطَ : راستہ الَّذِينَ : ان لوگوں کا أَنْعَمْتَ : تونے انعام کیا عَلَيْهِمْ : ان پر غَيْرِ : نہ الْمَغْضُوبِ : غضب کیا گیا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ الضَّالِّينَ : جو گمراہ ہوئے
ان لوگوں کے راستے جن پر تو اپنا فضل و کرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا، اور نہ گمراہوں کے
(1:6) صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۔ یہ جملہ بدل کل ہے الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ سے۔ ترکیب یوں ہوگی۔ صِرَاطَ ۔ مضاف مضاف ، مضاف الیہ مل کر الَّذِيْنَ ۔ موصول موصول و صلہ بدل کل الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ سے اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۔ فعل بافاعل وضمیر مفعول مل کر مضاف الیہ عامد الی الذین مل کر جملہ صلہ فعلیہ ہوکر یعنی الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ سے مقصود وہ سیدھا راستہ ہے جس کی طرف رہنمائی کی دعا کی گئی ہے جو انعام یافتہ لوگوں کا ہے۔ یہ انعام یافتہ کون لوگ ہیں ؟ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا 69؀ۭ (4:69) اور جو لوگ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ (قیامت کے روز) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے انعام کیا یعنی انبیاء صدیقین ، شہدا، اور نیک لوگ۔ انعام کے معنی ہیں وہ کیفیت جسے انسان لذیذ پاتا ہے پھر اس کا ستعمال ان اشیاء پر ہونے لگا جو اس لذت کا سبب بنتی ہیں۔ 7 ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ یہ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے بدل ہے (یعنی تیرے انعام یاقتہ بندے وہ ہیں) جو (تیرے) غضب اور گمراہی سے سالم اور محفوظ ہیں یعنی جن پر نہ تیرا غضب نازل ہوا اور وہ گمراہ ہوئے۔ فائدہ : نعمتوں کی قسمیں، دنیاوی، اخروی۔ وہبی۔ کسبی۔ جسمانی۔ روحانی۔ وہبی ، بمعنی خداداد۔ جیسے روح۔ عقل، بینائی، قوت شنوائی، قوت گویائی وغیرہ۔ کسبی۔ جو اپنی محنت سے حاصل ہو۔ جیسے نفس کو رذائل سے پاک کرنا، اور عمدہ اخلاق سے آراستہ کرنا اور بدن کو خوبصورت کپڑوں اور زیورات سے زینت دینا۔ اور مال و جائداد و عہدہ حاصل کرنا۔ اخروی۔ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی کوتاہیوں کو معاف کر دے اور راضی ہو کر اعلیٰ علیین میں ملائکہ مقربین کے ساتھ ٹھکانہ دے۔ فائدہ : اگر مضمون کی خاطر غیر کی تکرار مطلوب ہو تو دوسری دفعہ غیر کی بجائے دلاتے ہیں جس کا مابعد مجرور ہوگا ۔ مثلاً من غیر اب ولا ام۔ بغیر باپ کے اور بغیر ماں کے۔ یا وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا هُدًى وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ ۝ ۙ (31:20) اور بعض لوگ ایسے ہیں کہ خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کے، یا آیت زیر غور صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ 9 غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا انعام و فضل ہوا۔ جن پر تیرا غضب نہ ہوا اور جو نہ گمراہ ہوئے، بعض کے نزدیک وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ میں لا زائد تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ بمعنی غير صراط الذین غضب علیہم وغیر الضالین عن الھدی بھی ہوسکتا ہے : نہ راستہ ان لوگوں کا جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ راستہ ان لوگوں کا جو ہدایت کے راستہ سے گمراہ ہوگئے۔ فائدہ : بعض کے نزدیک مَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ سے مراد اہل یہود ہیں اور الضَّاۗلِّيْنَ سے نصاری۔ ترمذی نے عدی بن حاتم سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا الیھود مغضوب علیہم و النصاری ضلال۔ لیکن علامہ پانی پتی رقمطراز ہیں : میں کہتا ہوں کہ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ ۔ ایسے دو عام لفظ ہیں جس کے تحت تمام کفار اور خدا کے نافرمان اور بدعتی سب لوگ داخل ہوسکتے ہیں ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے حق میں جو کسی ممنوع القتل کو عمداً قتل کردے غضب اللہ علیہ : 4:93) فرمایا ہے اور کفار اور بدعتیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ (10:32) اور حق بات کے ظاہر ہونے کے بعد گمراہی کے سوا ہے ہی کیا) اور اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۔ (18:104) (وہ لوگ جن کی سعی دنیا کی زندگی میں برباد ہوگئی) ۔ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ ۔ غضب یغضب (باب سمع) فعل لازم ہے بمعنی غضبناک ہونا۔ علی کا صلہ لگا کر مغضوب علی اسم مفعول بنایا گیا ہے وہ جس پر غضب نازل ہوا۔ الغضب کے اصل معنی ہیں انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا ۔ لیکن غضب الٰہی سے مراد سزا اور عذاب ہوتا ہے غضب اللہ علیہ (4ـ93) اور خدا اس پر غضبناک ہوگا ، غیر المغضوب علیہم میں غیر نفی کے لئے ہے جملہ کا مطلب ہے جن پر غضب نازل نہیں ہوا۔ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ وعاطفہ ہے لا۔ غیر کی جگہ تکرار کی خاطر لایا گیا ہے ولا الضالین کا عطف جملہ سابقہ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ پر ہے۔ الضالین اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر ہے ضال واحد بحالت رفع، بہکے ہوئے، گمراہ، راہ بھولے ہوئے۔ الضلال کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانے کے ہیں اور یہ ھدایۃ بالمقابل استعمال ہوتا ہے۔ فائدہ : سورة فاتحہ کے ختم پر قدرے فصل کے ساتھ آمین کہنا مسنون ہے، صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : (لوگو ! ) جب امام وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ تک پہنچ جائے تو آمین کہا کرو ۔ کیونکہ اس وقت فرشتے بھی آمین کہتے ہیں۔ اور جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق پڑجائے گی اس کے تمام گذشتہ گناہوں پر قلم عفو کھینچ دیا جائیگا۔ امین کے معنی ہیں : اسمع واستجب : (یعنی خداوندا ہماری دعا سن اور قبول فرم۔ (حضرت ابن عباس ؓ یا افعل : (یا اللہ ایسا ہی کر) ۔ یاد رہے کہ آمین قرآن مجید کا حصہ نہیں، اور اسی لئے اسے لکھا نہیں جاتا، بعض کے نزدیک من قال ان امین من القران کفر : جس نے کہا کہ آمین قرآن کا حصہ ہے اس نے کفر کیا۔ (روح المعانی) ۔
Top