صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین
یعنی ان لوگوں کے راستہ پر چلا جن پر تو نے اپنا ایسا خاص انعام فرمایا کہ اسی خاص انعام اور خاص فضل کی بناء پر وہ نہ تیرے مغضوب اور معتوب ہیں بلکہ تیرے مقرب اور محبوب ہیں۔ تیری رضا اور خوشنودی کا تمغہ اور پروانہ حاصل کیے ہوئے ہیں اور نہ وہ گمراہ ہیں۔ صحیح راستہ ان کو معلوم ہے منزل مقصود سامنے ہے بصد ذوق وشوق خط مستقیم کی طرف دوڑے چلے جارہے ہیں۔ یمین ویسار کی طرف التفات بھی نہیں کرتے۔ مطلب یہ ہے کہ اے پروردگار عالم ہم نابکاروں کو انعام اور اہل انعام کی راہ پر چلا اور دار انعام میں پہنچا اور غضب اور ضلال کی راہ سے محفوظ اور دور رکھ اور اپنی توفیق اور اعانت کو ہمارا ہادی اور معین اور دستگیر بنا اور انبیاء و صدیقین و شہداء وصالحین کو رفیق طریق بنا تاکہ ان کی معیت اور رفاقیت میں افتاں وخیزاں تیری بارگاہ میں پہنچ سکیں۔
پس قول اللہ تعالی۔ الذین انعمت علیھم الرحمن الرحیم۔ کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے اور قولہ غیر المغضوب علیھم ولاالضالین۔ مالک یوم الدین کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے۔
ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ الذین انعمت علیھم سے ملائکہ اور انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین مراد ہیں۔ جن کو حق تعالیٰ نے اپنی اطاعت اور عبادت کی نعمت سے سرفارز فرمایا (ابن کثیر) اور انعام کی خاص نوع اور کسی خاص قسم کو نہ ذکر کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اے اللہ ہم پر ہر قسم کا انعام فرما اور وہ تمام الطاف وکرم اور وہ تمام آلاء ونعم جو تو نے اپنے تمام انعام والے بندوں پر متفرقاً نازل فرمائے وہ ہم پر مجتمعاً نازل فرما۔ آمین
(1 ۔ غیر المغضوب علیھم چونکہ الذین انعمت کی صفت ہے اس لیے ہم نے ترجمہ میں اس کا لحاظ رکھا ہے کہ ترجمہ ہی سے اس کی سفۃ موضحہ ہونا معلوم ہوجائے اور بعض نے اس طرح ترجمہ کیا ہے نہ رستہ ان لوگوں کا جن پر آپ کا غضب کیا گی اور نہ ان لوگوں کا جو رستہ سے گم ہوئے۔ انتہی یہ ترجمہ بتقدیر المضاف ہے۔ کما قال ابو حیان وقدر بعضھم فی غیر المعضوب محذوفا قال التقدیر غیر صراط المغضوب علیھم واطلق ھذ التقدیر فلم یقیدہ بحر غیر ولا نصبہ وھذا لا یتاتی الا بنصب غیر فیکون صفۃ لقلوہ الصراط وھو ضعیف الخ کذا فی البحر المحیط جلد 1 ص 30)
نیز لفظ صراط کو الذین انعمت علیھم۔ کی طرف مضاف کرنے میں سالکین راہ حق اور راہروان منزل آخرت کے لیے ایک عظیم الشان تسلیہ ہے کہ وہ سفر اور راستہ کی تنہائی سے ہرگز نہ ڈریں نبیین اور صدیقین اور شہداء اور صالحین ان کے رفیق سفر ہیں۔ وحسن اولئک رفیقا۔
نیز مقام سوال میں منعم کے انعامات و احسانات کا تذکرہ۔ اجابت اور قبول میں خاص اثر رکھتا ہے اسی طرح سوال ہدایت کے وقت حق جل وعلا کے انعام عام کا ذکر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اے رب العالمین اور اے ارحم الراحمین تو نے اپنی رحمت واسعہ سے بہت بندوں پر ہدایت کا انعام فرمایا ہم کو بھی اس نعمت عظمیٰ سے سرفراز اور اس پر استقامت نصیب فرما۔ اور ہم گنہگاروں کو بھی اپنے لطف عمیم سے اہل انعام کے زمرہ میں داخل فرما۔ آمین۔
مغضوب علیھم سے وہ فریق مراد ہے جو دیدہ و دانستہ راہ راست کو چھوڑ دے اور علم سحیح کے باوجود ہوائے نفس کی پیروی میں غلط راستہ اختیار کرے۔ اس نوع کے کامل ترین افراد یہود بےبہبود ہیں کہ باوجود تورات کے عالم ہونے کے کتمان حق اور استکبار اور اتباع ہوا جیسے امراض میں مبتلا رہے۔
انبیاء کرام علیہم الصلوہ والسلام سے ہمیشہ معاندانہ رویہ رکھا، جان بوجھ کر قتل ِ انبیاء اللہ کے مرتکب ہوئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر اب تک ذلت ومسکنت کی مہر لگا دی گئی۔ غضب اور لعنت کا طوق ان کی گردنوں میں ڈال دیا گیا۔ من لعنہ اللہ وغضب علیہ۔
اور ضالین سے وہ گروہ مراد ہے جو سواء السبیل سے بھٹک کر غلط راستہ پر جا پڑا۔ اس نوع کے کامل ترین افراد نصاری ہیں۔ کما قال تعالی۔
واضلوا کثیر را وضلوا عن سواء السبیل : بہتوں کو گمراہ کیا اور خود سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔
یہود اور نصاریٰ کے کامل ترین افراد ہونے کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے مغضوب علیہم کی تفسیر یہود سے اور ضالین کی تفسیر نصاری سے فرمائی۔ اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ مغضوب علیہم اور ضالین کے مصداق صرف یہود اور نصاریٰ ہیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان دو قسموں کے تحت میں ہر قسم کے گمراہ اور کافر اور فاسق وفاجر عاصی اور مبتدع علی اختلاف المراتب داخل ہیں مگر یہود مغضوب علیہم کے کامل ترین فرد اور نصاری ضالین کے اولین مصداق ہیں۔ سلف صالحین یہ فرمایا کرتے تھے کہ اس امت کے علماء میں سے جو بگڑا وہ یہود کے مشابہ ہوا اس لیے کہ وہ اپنی اغراض کی وجہ سے کلمات الٰہیہ کی تحریف اور کتمان ماانزل اللہ اور تلبیس الحق بالباطل اور اہل علم وفضل کے حسد میں گرفتار ہوا کہ یہود کے اخلاق ہیں اس امت کے عباد اور زہاد سے جو بگڑا وہ نصاریٰ کے مشابہ ہوا۔ اس لیے کہ اس نے اپنی عبادت میں بجائے شریعت غراء اور سنت بیضاء کے ہوائے نفس کا اتباع کیا اور نصاریٰ کی طرح تعظیم مشائخ میں اس درجہ کا غلو کیا کہ اعتقاداً نہ سہی عملاً تو ضرور ان کو رب اور ان کی قبور کو مساجد بنا لیا۔ بعض مرتبہ چونکہ نعمت ہی علم وعمل کے فساد کا باعث ہوتی ہے اکثر عیش اور تننعم ہی میں پڑ کر انسان خدا کو بھول جاتا ہے، احکام الٰہی کو پس پشت ڈال دیتا ہے اس لیے الذین انعمت علیھم کے بعد غیر المغضوب علیھم والا الضالین۔ کا اضافہ مناسب ہوا کہ اے رب العالمین انی نعمتوں پر حمد وشکر کی توفیق عطا فرما خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ تیرے انعام کے بعد غرور اور تکبر میں مبتلا ہو کر سیدھے راستہ سے بہک جائیں اور تیری لعنت وغضب کے مستحق بنیں۔ اپنی نعمت کو اطاعت کا ذریعہ بنا معصومیت کا سبب نہ بنا۔
آیت موصوفہ میں صرف انعام کو اپنی جانب منسوب فرمایا۔ غضب اور ضلال کو اپنی جانب منسوب نہیں فرمایا۔ اس میں ایک لطیف اشارہ ہے وہ یہ کہ انعام محض اس کا فضل ہے بلا کسی استحقاق کے بندوں پر مبذول فرماتا ہے۔ مگر غضب ابتداء ً نازل نہیں فرماتا۔ بلکہ ان کی نافرمانی اور دیدہ و دانستہ عدول حکمی کے بعد اور علی ہذا گمراہ جب ہوتے کہ جب صراط مستقیم کو چھوڑ کر غلط راہ اختیار کرلیتے ہیں۔
نیز ادب الٰہی کا اقتضاء یہ ہے کہ افعال احسان و رحمت کا ذکر ہو تو صراحۃً اللہ جل جلالہ کی طرف اس کی اسناد ہونی چاہئے اور جب افعال جزاء اور عقوبت کا ذکر ہو تو پھر فاعل کا حذف اور فعل کا مبنی للمفعول لانا مناسب ہے مثلا ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا۔
الذی خلقنی فھو یہدین والذی ھو یطعمنی ویسقین واذا مرضت فھو یشفین
جس نے مجھ کو پیدا کیا وہی مجھ کو راہ دکھاتا ہے اور وہی مجھ کو کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھ کو شفا دیتا ہے۔
خلق اور ہدایت اور اطعام اور اسقاء اور شفاء ان تمام افعال کو حق تعالیٰ کی طرف منسوب فرمایا۔ مگر مرض کو شیئ مکروہ ہونے کی وجہ سے ادباً اپنی جانب منسوب کیا اور یہ کہا۔
واذا مرضت فھو یشفین۔ جب میں بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھ کو شفاء دیتا ہے
اور یہ نہیں کہا :
واذا امرضنی فھو یشفینی : کہ جب وہ مجھ کو بیماری میں مبتلا کرتا ہے تو وہی مجھ کو شفاء دیتا ہے۔
اور مومنین جن نے کہا
وانا لا ندری اشر ارید بمن فی الارض : اور ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا گیا یا ان کے رب نے ان کے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ کیا ہے۔
میں ارادۂ شر کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا اور صیغۂ مجہول کے ساتھ اس کو ذکر کیا۔ یعنی شر ارید کہا اور ام اراد بھم ربھم رشدا۔ میں ارادۂ رشد کو رب العزت کی جانب منسوب کیا۔
اور علی ہذا خضر (علیہ السلام) نے فاردت ان اعیبھا (میں نے ارادہ کیا اس کشتی کو عیب دار بنا دوں) عیب اور ارادۂ عیب دونوں کو اپنی جانب منسوب کیا اور۔ فاراد ربک ان یبلغا اشدھما ویستخرجا کنزھما رحمۃ من ربک۔ : تریرے رب نے ارادہ کیا وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچیں۔ اور خدا کی مہربانی سے اپنا خزانہ نکالیں۔
اس آیت میں ارادۂ رحمت کو رب العالمین کی جانب منسوب کیا اور وما فعلتہ عن امری (میں نے اپنی رائے سے نہیں کیا) کہہ کر اس کو اور مؤکد کردیا۔
اور اسی طرح : احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نسائکم اور احل لکم ماوراء ذالکم۔ روزہ کی راتوں میں اپنی عورتوں سے مخالطت تمہارے لیے حلال کردی گئی۔ ان محرمات کے سوا اور عورتیں تمہارے لیے حلال کردی گئیں۔ میں اس خاص احلال کو چونکہ اللہ جل جلالہ کی طرف منسوب کرنا خلاف ادب تھا اس لیے دونوں جگہ احل کو مبنی للمفعول ذکر کیا گیا۔
اور احل اللہ البیع وحرم الربوا میں یہ مانع نہ تھا۔ اس لیے اس احلال اور تحریم کی اسناد صراحۃً اللہ کی طرف کی گئی۔
نیز منعم حقیقی صرف وہی تبارک وتعالیٰ ہے کما قال تعالیٰ ۔ ومابکم من نعمۃ فمن اللہ۔ اس لیے انعام کو اللہ کی طرف منسوب کیا گیا۔ اور غضب خدا کے ساتھ مخصوص نہیں۔ ملائکہ اور انبیاء اور عباد صالحین کی طرف سے بھی خدا کے نافرمان اور سرکش بندوں پر ہوسکتا ہے۔
نیز مغضوب علیھم کے فاعل کا حذف اہل غضب کی تحقیر اور تذلیل کی طرف مشیر ہے اور انعام کے فاعل کی تصریح اہل انعام کے تشریف و تکریم کی طرف مشیر ہے۔ مثلاً کسی شخص کی نسبت یہ کہنا ھذا الذی اکرمہ السلطان وخلع علیہ (بادشاہ نے اس شخص کا اکرام کیا اور اس کو خلعت عطاء کیا) یہ نسبت ھذا الذی اکرم وخلع علیہ (اس شخص کا اکرام کیا گیا اور اس کو خلعت دیا گیا) کے بدرجہا بلیغ ہے اور ذکر فاعل کی وجہ سے یہ پہلا کلام جس قدر ممدوح کی مدح وثناء اور تشریف و تکریم پر دلالت کرتا ہے دوسرا کلام اس دلالت میں اس کے پاسنگ بھی نہیں۔ نیز حذف فاعل کچھ اعراض اور ترک التفات پر دلالت کرتا ہے جو اہل غضب کے مناسب ہے اہل انعام کے مناسب نہیں اس لیے انعام کا فاعل ذکر کیا گیا اور غضب کا فاعل حذف کیا گیا اور چونکہ انعام کی ضد غضب ہے۔ ضلال انعام کا مقابل نہیں بلکہ رشد اور ہدایت کا مقابل ہے اس لیے اہل انعام یعنی الذین انعمت علیھم کے بعد متصلاً ہی اہل غضب یعنی غیر المغضوب علیھم کا ذکر فرمایا اور اہل ضلال کو بعد میں ذکر کیا کیونکہ ایک ضد کے بعد دوسری کا ذکر کلام میں ایک خاص شان اور خاص تناسب پیدا کردیتا ہے۔
اور اہل غضب کی تقدیم کی ایک یہ بھی وجہ ہے کہ یہود بہ نسبت نصاری کے اسلام سے زیادہ دور ہیں اس لیے کہ نصاریٰ نے صرف ایک نبی یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کی تکذیب کی اور یہود نے دو پیغمبروں کی یعنی مسیح بن مریم اور محمد مصطفیٰ ﷺ کی تکذیب کی حق تعالیٰ شانہ نے غیر المغضوب علیہم کو لفظ غیر کے ساتھ ذکر فرمای اور حرف لا کے ساتھ یعنی لا المغضوب علیھم نہیں فرمایا۔ اس لیے کہ حرف لا فقط ماقبل کی نفی کے لیے آتا ہے اس صورت میں کلام کے یہ معنی ہوئے کہ اے اللہ ہم کو اہل انعام کا راستہ بتلا نہ اہل غضب کا اور لفظ غیر ماقبل کی نفی اور مغایرت دونوں پر دلالت کرتا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ مغایرت پر صراحۃ اور نفی ماقبل پر ضمناً ۔ اس صورت میں یہ معنی ہونگے کہ اے اللہ ہم کو اہل انعام کا راستہ بتلا جن کا راستہ اہل غضب اور اہل ضلال کے راستہ سے بالکل مغایر اور مباین ہے خود اہل انعام اور ان کا راستہ غضب اور ضلال کے راستہ سے بالکل مغایر اور مباین ہے جو خود اہل انعام اور ان کا راستہ غضب اور ضلال کے شائبہ سے بالکلیہ پاک ہے۔ اہل فہم غور کریں کہ یہ معنی بہ نسبت پہلے معنی کے کس قدر لطیف ہیں اور کیا یہ لطافت بجائے لفظ غیر کے حرف لا، لانے سے حاصل ہوسکتی ہے۔ کلا۔ ہرگز نہیں۔
نیز لفظ غیر کے لانے میں ایک یہ ببھی اشارہ ہے کہ یہود اور نصاری کا یہ زعم کہ ہم ہی اہل انعام ہیں جیسا کہ وہ کہتے تھے۔ نحن ابنؤا اللہ واحباء ہ۔ غلط ہے بلکہ اہل انعام ان کے سوا اور غیر ہیں۔ کما قال تعالیٰ ۔
الیوم اکملت لکم دینکم واتمت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا۔
آج میں تمہارے لیے دین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔
اور ولا الضالین میں حرف عاطف یعنی واؤ کے ہوتے ہوئے حرف لا کا اس لیے اضافہ فرمایا تاکہ اہل انعام کے راستہ کا اہل غضب اور اہل ضلال کے راستہ سے فردا فردا اور علیحدہ علیحدہ مغائر ہونا معلوم ہوجائے ولا الضالین سے اگر حرف لا کو حذف کر کے غیر المغضوب علیھم والا الضالین۔ کہا جائے تو مجموعۂ فریقین کے راستہ سے اہل انعام کے راستہ کا مغایر ہونا مفہوم ہوگا۔ اہل انعام کے راستہ کا ہر واحد کی مغایرت کو مستلزم نہیں۔ ہا ہر واحد کی مغایرت مجموع من حیث المجموع کی مغایرت کو بالاولویت مستلزم ہے۔ فافھم ذلک واستفہم۔
اسرار مجموعہۂ سورت
1 ۔ اس سورت میں دس چیزیں مذکور ہیں۔ پانچ چیزیں خدا تعالیٰ کے متعلق ہیں اور پانچ بندوں کے متعلق ہیں۔ خدا تعالیٰ کے متعلق جو چیزیں ہیں وہ یہ ہیں۔ الوہیت، ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت، مالکیت بندہ کے متعلق جو چیزیں ہیں وہ یہ ہیں۔ عبادت، استعانت، طلب، ہدایت، طلب، استقامت، طلب نعمت۔
بندہ کی پانچ صفتیں اسی ترتیب سے خدا تعالیٰ کی پانچ صفتوں سے متعلق ہیں اور معنی کلام یہ ہیں کہ اے خدا تعالیٰ ہم خاص تیری عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ تو ہمارا اللہ یعنی معبود ہے اور خاص تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اس لیے کہ تو ہی تمام جہانوں کا مربی اور پرورش کرنے والا ہے اور تجھ ہی سے ہدایت کی درخواست کرتے ہیں۔ اس لیے کہ تو رحمن ہے تیری رحمت اور مہربانی عام ہے اور تجھ ہی سے استقامات کی التجا کرتے ہیں اس لیے کہ تو رحمن ہے تیری رحمت اور مہربانی عام ہے اور تجھ ہی سے استقامت کی التجا کرتے ہیں اس لیے کہ تو رحیم ہے۔ تیری خاص رحمت خاص اہل ایمان اور اہل ہدایت ہی پر مبذول ہے اور تجھ ہی سے انعام کے امیدوار ہیں۔ اس لیے کہ تو ہی جزاء اور سزا کا مالک ہے ایسی کامل نعمت ہم کو عطاء فرما کہ جو غضب اور ضلال کے شائبہ سے بالکل پاک ہو (تفسیر کبیرص 151 ج 1)
2 ۔ نیز جب مقام مناجات میں کھڑا ہوا اور خدا کی صفات کمال بیان کرتا ہوا مالک یوم الدین تک پہنچا تو بےاختیار سیرالی اللہ کا شوق دامنگیر ہوا۔ ارادہ سفر کا مصمم کیا تو سفر کے لیے عبادت کا توشہ لیا۔ اور استعانت اور امداد خداوندی کی سواری پر سوار ہوا۔ زاد اور راحلہ کے مکمل ہوجانے کے بعد راستہ معلوم کیا جب سیدھا راستہ معلوم ہوگیا تو رفقاء طریق کی فکر ہوئی کہ ان کی رفاقت اور معصیت سے راستہ سہولت سے قطع ہوا اور راہزنوں یعنی اہل غضب اور اہل ضلال کا کوئی خدشہ اور دغدغہ باقی نہ رہے (تفسیر عزیزی ص 48)
3 ۔ جن علوم کی حضرات انبیاء (علیہ الصلوۃ والسلام) نے دعوت دی۔ وہ تین علم ہیں، علم ِ شریعت، علم ِ طریقت۔ علم حقیقت اور پھر علم شریعت کی دو قسمیں ہیں۔ اول علم عقائد۔ دوم علم احکام۔ سوم الحمد للہ رب العلمین۔ الرحمن الرحیم مالک یوم الدین میں الہیات یعنی خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کا بیان ہے۔ اور اھدنا الصراط المستقیم الخ۔ میں ہدایت اور ضلالت سعادت اور شقاوت کا بیان ہے اور چونکہ الذین انعمت علیھم سے انبیاء وصدیقین، شہداء اور صالحین مراد ہیں اس لیے اس آیت میں مباحث نبوت و امامت کی طرف اشارہ ہے اور ایاک نعبد میں علم احکام کی طرف اشارہ ہے علم طریقت جس میں نفس اور قلب کے امراض اور معالجات سے بحث کی جاتی ہے۔ اس کے تین مرتبے ہیں۔ پہلا مرتبہ توحید فی العبادۃ ہے کہ سوائے خدا تعالیٰ کے کسی کی عبادت نہ کرے دوسرا مرتبہ توحید فی الاستعانت ہے یعنی سوائے خدا کے کسی سے مدد نہ مانگے۔ تیسرا مرتبہ استقامت ہے۔ یہ سلوک کا اعلی مرتبہ ہے کہ طریق عبودیت اور جادۂ اخلاص و محبت پر قدم ایسا ٹھیک جم جائے کہ ذرہ برابر ادھر ادھر ہٹنے نہ پائے ان مراحل اور مقامات کے طے ہوجانے کے بعد درجہ ہے مکاشفات اور تجلیات کا کہ قلب پر سحائب الہام کی بارش ہونے لگے اور علوم اور معارف اسرار اور لطائف منکشف ہونے لگیں۔ یہ علم حقیقت ہے اللہ تعالیٰ جس پر چاہے اپنا انعام فرمائے۔ صرط الذین انعمت علیہم میں اسی علم کی طرف اشارہ ہے۔
فائدہ : اس سورت کے ختم پر امین کہنا مسنون ہے اور لفظ آمین اسم فعل ہے یعنی یہ کلمہ در اصل تو اسم ہے مگر معنی میں فعل کے ہے یعنی افعل (ایسا ہی کر) کے معنی میں ہے جیسے روید اور حیھل اور ھلم۔ اسماء افعال ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اے اللہ جو ہم نے تجھ سے مانگا ہے وہی کر دے یعنی اہل انعام کے راستہ پر چلا اور اہل غضب اور اہل ضلال سے ہم کو الگ رکھ اور لفظ آمین بالاتفاق سورة فاتحہ کا جزء نہیں بلکہ جس طرح عام دعاؤں کے بعد آمین کہنا سنت ہے اسی طرح الحمد کے بعد بھی آمین کہنا باتفاق سنت ہے۔ اختلاف صرف اس میں ہے کہ آمین اہستہ کہنا بہتر ہے یا آواز سے جمہور صحابہ وتابعین کا یہی مذہب ہے کہ آہستہ کہنا بہتر ہے اور یہی امام ابوحنیفہ اور امام مالک اور سفیان ثوری کا قول ہے کیونکہ آمین دعا ہے اور دعا کے آہستہ مانگنے کا حکم قرآن کریم میں صراحۃً موجود ہے۔ ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ انہ لا یحب المتعدین۔۔ اور صحیح حدیثوں میں قولوا آمین یعنی آمین کہنے کا حکم آرہا ہے جس سے جبر ثابت نہیں ہوتا ورنہ قولوا التحیات للہ الخ اور قولوا ربنا لک الحمد (متفق علیہ) میں بھی جہر کا قائل ہونا پڑے گا حالانکہ امت کا کوئی عالم اس کا قائل نہیں دلائل کی تفصیل شرح بخاری اور شروح ہدایہ میں دیکھیں۔
صلوۃ مسلمین اور صلوۃ نصاری کا تقابل
کلامِ الٰہی کے دقائق و اسرار کا تو کون احاطہ کرسکتا ہے۔ بڑے سے بڑے فہیم اور ذکی اور صاحب فہم ثاقب کی بھی وہاں تک رسائی نہیں۔ یہ مختصر سورت یعنی سورة فاتحہ جس کے معارف ولطائف کا ایک نمونہ ہدایہ ناظرین کیا گیا ہے اس کے وہ اسرار ومعارف جو اللہ رب العزت کے علم میں ہیں وہ تو درکنار، علماء اسلام اور حضرات مفسرین نے جو اس مختصر سورت کے حقائق ومعارف بیان فرمائے ہیں۔ ہم انہیں کے استیعاب اور استقصاء سے عاجز اور درماندہ ہیں۔ جس کی تصدیق علماء اسلام کے تفاسیر سے بخوبی ہوسکتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، سوہ فاتحہ جیسی سورت نہ توریت میں اتاری گئی اور نہ زبور میں اور نہ انجیل میں (اخرجہ الترمذی وصححہ)
اسی وجہ سے ہر نماز میں اس سورت کا پڑھنا لازم قرار دیا گیا۔ اس وقت ہم انجیل کی وہ عبادت ہدیہ ناظرین کرتے ہیں جس کو نصاریٰ اپنی نمازوں میں پڑھتے ہیں۔ تاکہ دونوں کے موازنہ اور مقابلہ سے اہل اسلام کے ایمان اور ایقان میں اضافہ ہو اور نصاری کے لیے اگر وہ خدا سے ڈریں اور غور وفکر سے کام لیں تو ان کے لیے موجب ہدایت ہو۔
انجیل متی بات ششم آیت نہم میں ہے کہ اس طرح نماز پڑھا کرو۔
" ابونا الذی فی السموات لیتقدس اسمک لتات ملکوتک لتکن مشیتک کما فی السماء علی الرض خبزنا کفافنا اعطنا الیوم واغفرلنا خطایانا کما نغفر نحن لمن اخطا الینا۔ ولا تدخلنا فی التجابر لکن نجنا من الشریر امین "
(ترجمہ) " اے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے۔ تیرا نام پاک ہو۔ تیری بادشاہ آنی چاہئے تیری مشیت جیسے آسمان پر پوری ہوتی ہے ایسے زمین پر بھی ہماری روز کی روٹی آج ہمی دے اور ہماری خطاؤ کو معاف کر جیسا کہ ہم اپنے خطاکاروں کی خطائیں معاف کرتے ہیں اور ہم کو آزمائش میں نہ لا بلکہ برے لوگوں سے بچا آمین۔ یعنی قبول فرما۔
ارباب فہم وبصیرت اگر سورة فاتحہ کے بعد اس عبارت پر ایک نظر ڈالیں تو ان کو بخوبی منکشف ہوجائیگا کہ اس عبارت کو سورة فاتحہ کیساتھ وہ نسبت بھی نہیں جو ثری (خاک) کو ثریا سے ہے۔ صیغۂ امر سے تقدیس اسم اور اتیان ملکوت کو طلب کرنا محض لا طائل اور تحصیل حاصل ہے وہ ہمیشہ سے قدوس اور سلام اور ملیک مقتدر اور عزیز و حکیم ہے اس ملک الملکوت اور قدوس و حکیم کی شان میں یہ لفظ کہنا چاہئے کہ تیرا نام پاک ہو اور تیری بادشاہت آئے سراسر خلاف ادب ہے۔
اور علی ہذا یہ کہنا (لتکن مشیتک کما فی السماء علی الارض) چاہئے کہ تیری مشیت جیسے آسمان میں ہے ویسے ہی زمین میں بھی ہو۔ یہ بھی سراسر خلاف ادب ہے کیا اس کی مشیت سبع سموات اور سبع ارضین میں جاری اور ساری نہیں ؟ اور کیا کوئی ذرہ اس کی قدرت اور مشیت سے مستثنی ہے ؟ حاشا وکلا۔ بلی انہ علی کل شیئ قدیر۔ وما تشاءون الا ان یشاء اللہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ اور علی ہذا آج کی روٹی کے سوال کو ہدایت اور صراط مستقیم کے سوال (جو دنیا اور آخرت کی صلاح اور فلاح اور سعادت دارین) علی وجہ الاتم شامل ہے۔ اس سے کیا نسبت ؟ اور پھر اس غفور رحیم اور لیس کمثلہ شیئ سے یہ سوال کرنا کہ ایسی مغفرت عطاء فرما جیسا کہ ہم اپنے گنہگاروں اور خطاکاروں کی مغفرت کرتے ہیں۔ کھلی سفاہت اور صریح گستاخی ہے اس کی کامل وعظیم اور وسیع وعمیم مغفرت کو اپنی ناقص اور محدود اور برائے نام مغفرت کے ساتھ تشبیہ دینا اور در پردہ اپنے خطاکاروں کو خدا کے خطاکاروں کے ساتھ مماثل بتلانا اور ضمناً اپنی نافرمانی کو خدا کی نافرمانی کے ہم پلہ قرار دینا کیا یہ کھلی ہوئی گستاخی نہیں ؟
اس رب العالمین اور اس حنان ومنان کے تمام آلاء ونعم میں سے صرف آج کی روتی کا سوال کرنا رب غفور اور ارحم الراحمین سے اپنی ناقص اور محدود مغفرت کے مماثل مغفرت طلب کرنا۔ نصاری کے فہم و فراست کو خوب واضح کرتا ہے۔ اخیر میں لفظ آمین مذکور ہے۔ جو اہل اسلام سے سرقہ ہے سوائے اہل اسلام کے دنیا میں کوئی بھی آمین کو نہیں جانتا۔
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔