Mutaliya-e-Quran - Al-Waaqia : 25
لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا وَّ لَا تَاْثِیْمًاۙ
لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا : نہ وہ سنیں گے اس میں لَغْوًا : کوئی لغو بات وَّلَا تَاْثِيْمًا : اور نہ کوئی گناہ کی بات
وہاں وہ کوئی بیہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے
[لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا : وہ نہیں سنیں گے اس میں ] [لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا : کوئی واہی تباہی اور نہ الزام تراشی کرنا ] (آیت ۔ 25 ۔ 26) یہ جملہ منفی ہے اس لیے اس میں الا کوئی اعرابی عمل نہیں کرے گا ۔ لا یسمعون کا مفعول ہونے کی وجہ سے لغوا ، تاثیما حالت نصب میں ہیں ۔ پھر الا نے لا یسمعون کے لا کو قطع کیا تو اب یسمعون کا مثبت مفعول قیلا آیا ہے جبکہ قیلا کا بدل ہونے کی وجہ سے سلما ، سلما حالت نصب میں ہیں ۔ نوٹ ۔ 1: گزشتہ سورتوں میں سورة ق سے لے کر سورة رحمن تک جزاء وسزا سے متعلق ہونے والی بحث کا خلاصہ اس سورة واقعہ میں رکھ دیا گیا ہے پچھلی سورتوں میں آفاق وانفس اور عقل و فطرت کی روشنی میں اس موضوع کے تمام پہلو زیر بحث آئے ہیں اب اس سورة میں دلائل کی وضاحت کے بجائے اصل نتیجہ سے آگاہ کیا گیا ہے کہ قیامت ایک ہونی شدنی بات ہے انسانوں کو لازما ایک ایسے جہاں سے سابقہ پیش آنے والا ہے جس میں عزت وذلت کے پیمانے ان پیمانوں سے بالکل مختلف ہوں گے جو اس جہاں میں معروف ہیں ۔ وہاں عزت و سرفرازی ان کے لیے ہوگی جنھوں نے اس دنیا میں ایمان اور عمل صالح کی کمائی کی ہوگئی وہ مقربین اور اصحاب الیمین کے درجے پائیں گے اور جنت کی تمام کامرانیاں انہی کے حصہ ہوں گی رہے وہ جو اس دنیا کو ہی سب سمجھ بیٹھے اور اسی میں مگن ہوگئے وہ اصحاب الشمال میں ہوں گے اور ان کو دوزخ کے ابدی عذاب سے سابقہ پیش آئے گا ۔ (تدبر قرآن ) نوٹ۔ 2: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے مرض وفات میں حضرت عثمان ؓ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے حضرت عثمان ؓ پوچھا آپ کو کیا تکلیف ہے ، تو فرمایا مجھے اپنے گناہوں کی تکلیف ہے ۔ پھر پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں ۔ تو فرمایا اپنے رب کی رحمت چاہتا ہوں ۔ پھر حضرت عثمان ؓ نے کہا میں آپ کے لیے کسی طبیب کو بلاتا ہوں ، تو فرمایا مجھے طبیب ہی نے تو بیمار کرڈالا ہے پھر پوچھا آپ کے لیے بیت المال سے کوئی عطیہ بھیج دوں تو فرمایا مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں ہے ۔ حضرت عثمان ؓ نے کہا عطیہ لے لیجے وہ آپ کے بعد آپ کی لڑکیوں کے کام آئے گا تو فرمایا کہ کیا آپ کو میری لڑکیوں کے بارے میں یہ فکر ہے کہ وہ فقروفاقہ میں مبتلا ہوجائیں گی ؟ مگر مجھے یہ فکر اس لیے نہیں کہ میں نے اپنی لڑکیوں کو تاکید کررکھی ہے کہ ہر رات سورة واقعہ پڑھا کریں ۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جو شخص ہر رات سورة واقعہ پڑھا کرے وہ کبھی فاقہ میں مبتلا نہیں ہوگا ۔ (معارف القرآن ) نوٹ ۔ 3: مفسرین کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ اولین اور آخرین سے مراد کون ہیں ایک گروہ کا خیال یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے وقت سے نبی کریم ﷺ کی بعثت تک جتنی امتیں گزری ہیں وہ اولین ہیں اور آپ ﷺ کی بعثت کے بعد قیامت تک کے لوگ آخرین میں ہیں اس لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ بعثت محمدی سے پہلے کے لوگوں میں سابقین کی تعداد زیادہ ہوگئی اور آپ ﷺ کی بعثت کے بعد کے لوگوں میں سابقین کم ہوں گے ۔ دوسرا گروہ وہ کہتا ہے کہ یہاں اولین و آخرین سے مراد امت محمدی کے اولین و آخرین ہیں ۔ یعنی اس امت کے ابتدائی دور کے اولین ہیں جن میں سابقین زیادہ ہوں گے اور بعد کے لوگ آخرین ہیں جن میں سابقین کم ہوں گے ۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد ہر نبی کی امت کے اولین و آخرین ہیں ۔ آیت کے الفاظ ان تینوں مفہوموں کے حامل ہیں ۔ اور بعید نہیں کہ یہ تینوں ہی صحیح ہوں ، کیونکہ درحقیقت ان میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ (تفہیم القرآن )
Top