Tafseer-e-Madani - Al-Waaqia : 25
لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا وَّ لَا تَاْثِیْمًاۙ
لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا : نہ وہ سنیں گے اس میں لَغْوًا : کوئی لغو بات وَّلَا تَاْثِيْمًا : اور نہ کوئی گناہ کی بات
وہ نہ تو وہاں کوئی بےکار بات سنیں گے اور نہ ہی کوئی گناہ کی بات
[ 22] لغو اور بےکار باتوں سے حفاظت و پناہ کا ذکر وبیان : سو اس سے جنتیوں کے عیش بےغل و غش کے ایک اور نمونے اور مظہر کا ذکر فرمایا گیا ہے چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ وہاں پر وہ کوئی لغو اور بےکار بات نہیں سنیں گے، اور نہ ہی کوئی گناہ میں ڈالنے والی بات، معلوم ہوا کہ بےکار باتیں کرنا معیوب شئی اور برائی ہے، اسی لئے اہل جنت کے اس سے محفوظ ہونے کا بطور خاص ذکر فرمایا گیا، سو لغو اور و تاثیم دونوں چیزیں انسان کیلئے اذیت اور عذاب کا باعث بنتی ہیں اور پھر اس سے متاع وقت کا جو ضیاع ہوتا ہے وہ اور بھی خسارہ و نقصان ہے، مگر افسوس کہ آج کتنی ہی دنیا ہے جو اس مرض میں مبتلا ہے، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ سو اہل جنت دنیا میں دشمنوں کی جو دلآزار باتیں سنا کرتے تھے، وہ انہوں نے ان لیں، اب وہاں کے اس بےغل و غس عبش اور بےمثال پرسکون ماحول میں ان کو کامل امن وامان اور سکون و اطمینان نصیب ہوگا، اللہ نصیب فرمائے آمین، بہرکیف اس سے ان خوش نصیبوں کے عیش بےغل و غش کا ایک نمونہ و مظہر پیش فرمایا گیا ہے۔ پس وہ وہاں پر نہ کوئی بےہودہ اور دل آزار بات سنیں گے اور نہ کسی بکواسی کی کوئی بکواس، بلکہ وہاں پر دلنواز باتیں اور خوشنوا صدائیں ہی ان کو سننے کو ملیں گے۔ اللہ نصیب فرمائے آمین اور محض اپنے فضل و کرم اور رحمت و عنایت سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین، یاذالجلال والاکرام جل وعلا، [ 23] " تاثیمًا " سے حفاظت کا ذکر وبیان : اس سے تصریح فرمادی گئی اور وہاں پر کوئی گناہ کی بات بھی نہیں سنیں گے چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اور نہ ہی وہ وہاں پر کوئی گناہ میں ملوث کرنے والی بات سنیں گے۔ یعنی کوئی ایسی بات جو گناہ میں ڈالنے والی ہو، جیسے جھوٹ، غیبت اور اتہام وغیرہ، سو نہ وہاں پر کسی بکواس کرنے والے کی کوئی بکواس ان کو سننا پڑے گی، اور نہ ہی کوئی گناہ کی بات انکے کان میں پڑے گی، سو یہ بات جنت کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ جس کو قرآن حکیم کے مختلف مقامات پر ذکر فرمایا گیا ہے مثلاً سورة غاشیہ میں ارشاد ہوتا ہے۔ { فی جنۃٍ عالیۃٍ لا تسمع فیہا لاغیۃً ۔ [ الغاشیۃ : 10-11 پ 30] یعنی وہ خوش نصیب ایسی عظیم الشان جنت میں ہوں گے جس میں ان کو کوئی لغو اور بےہودہ بات انہیں نہیں سننا پڑے گی۔ سو ان کے کان وہاں پر بےہودگی، یا وہ گوئی، جھوٹ، چغلی، گالی گلوچ، طنز و تمسخر، اور طعن وتشنیع وغیرہ کی بات سننے سے محفوظ ہوں گے۔ وہاں کا وہ پاکیزہ معاشرہ ایسی تمام لغویات سے پاک اور محفوظ ہوگا۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جنت کا وہ معاشرہ ماحول کتنا پاکیزہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین
Top