Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتٰبِ١ۙ اُولٰٓئِكَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْتُمُوْنَ : چھپاتے ہیں مَآ : جو اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کیا مِنَ : سے الْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیاں وَالْهُدٰى : اور ہدایت مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا بَيَّنّٰهُ : ہم نے واضح کردا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں واُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ يَلْعَنُهُمُ : لعنت کرتا ہے ان پر اللّٰهُ : اللہ وَيَلْعَنُهُمُ : اور لعنت کرتے ہیں ان پر اللّٰعِنُوْنَ : لعنت کرنے والے
جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، درآں حالیکہ ہم انہیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی اُن پر لعنت بھیجتے ہیں
[ اِنَّ : بیشک ] [ الَّذِیْنَ : جو لوگ ] [ یَکْتُمُوْنَ : چھپاتے ہیں ] [ مَا : اس کو جس کو ] [ اَنْزَلْـنَا : ہم نے نازل کیا ] [ مِنَ الْبَـیِّنٰتِ وَالْھُدٰی : ہدایت اور کھلی کھلی (نشانیوں) میں سے ] [ مِنْ بَعْدِ مَا : اس کے بعد جو ] [ بَـیَّـنّٰـہُ : ہم نے واضح کیا اس کو ] [ لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے ] [ فِی الْـکِتٰبِ : کتاب میں ] [ اُولٰٓـئِکَ : وہ لوگ ہیں ] [ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ : لعنت کرتا ہے جن پر اللہ ] [ وَیَلْعَنُھُمُ : اور لعنت کرتے ہیں جن پر ] [ اللّٰعِنُوْنَ : لعنت کرنے والے [ مَا : ” مَا “ اسمی بھی ہوتا ہے اور حرفی بھی ۔ ہر ایک کی تین قسمیں ہیں : (1) ” مَا “ اسمی معرفہ : ا) ناقصہ یعنی موصولہ (بمعنی وہ جو) ۔ { مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ بَاقٍط } (النحل :96) ب) معرفہ تامہ۔ { اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّاھِیَ } (البقرۃ :270) ” مَا “ کی یہ قسم ابن خروف نے بیان کی ہے اور اس کا انتساب سیبویہ کی طرف کیا ہے۔ (2) اسمی نکرہ مجردہ ‘ یعنی حرفی معنی سے خالی : ا) ناقصہ یعنی موصوفہ ۔ اس ” مَا “ کا معنی شیئٌ ہوتا ہے۔ ایک شاعر کا قول ہے : لما نَافِعٍ یَسْعٰی اللَّبِیْبُ فَلَا تَــکُنْ لِشَیْئٍ بَعِیْدٍ نفعہ الدھر سَاعِیًا ترجمہ :” سود مند چیز کے لیے عقل مند کوشش کرتا ہے ‘ اس لیے تم کبھی اس چیز کے لیے کوشاں نہ ہو جس کا فائدہ بعید ہو “۔ { ھٰذَا مَا لَدَیَّ عَتِیْدٌ} میں بھی ” مَا “ موصوفہ ہے اور عَتِیْدٌ صفت (بقول زمخشری و سیبویہ ) ب) نکرہ تامہ ۔ اس کی تین قسمیں ہیں : (1) فعل تعجب : مَا اَحْسَنَ زَیْدًا۔ اس میں ” مَا “ کا نکرہ تامہ ہونا تمام علماء ِبصرہ کے نزدیک مسلم ہے ‘ لیکن اخنش کا قول ہے کہ اس ” مَا “ کو ہم نکرہ تامہ بھی کہہ سکتے ہیں اور نکرہ موصوفہ اور معرفہ موصولہ بھی۔ (2) ” نِعْمَ “ اور ” بِئْسَ “ کے بعد جو ” مَا “ آتا ہے وہ بھی زمخشری کے نزدیک نکرہ تامہ ہی ہے ‘ لیکن سیبویہ کے نزدیک معرفہ تامہ ہے۔ (3) وہ ” مَا “ جو مبالغہ کے لیے آتا ہے اور ” مَا “ سے پہلے عامل مذکور ہوتا ہے اور ” مَا “ کے بعد اس عامل کا معمول ہوتا ہے ‘ مثلاً : زَیْدٌ مِمَّا اَنْ یَّـکْتُبَ ۔ ” مِنْ “ حرفِ جر عامل ہے اور اَنْ یَکْتُبَ ب تاویل مصدر مجرور ہے اور ” مَا “ صرف مبالغہ کے لیے عامل اور معمول کے درمیان ذکر کیا گیا ہے ‘ یعنی زید کی تخلیق ہی کتابت سے ہوئی ہے ‘ زید کتابت کا بنا ہوا ہے۔ سیبویہ ‘ ابن خروف اور ابن مالک نے اس ” مَا “ کو معرفہ تامہ کہا ہے۔ ” مَا “ کی یہ صنف قرآن مجید میں مذکور نہیں ہے۔ (3) ” مَا “ اسمی نکرہ غیر مجردہ یعنی حرفی معنی کو متضمن : ا) استفہامیہ ۔ مَا ھِیَ ‘ مَا لَوْنُھَا ‘ مَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ ۔ ما استفہامیہ اگر مجرور ہو تو ” الف “ کو حذف کرنا واجب ہے تاکہ استفہام اور خبر میں فرق ہوجائے۔ فَبِمَ ‘ لِمَ ‘ اِلٰمَ ‘ عَلٰمَ ۔ { فِیْمَ اَنْتَ مِنْ ذِکْرٰٹھَا }(النّٰزعٰت :43) ‘{ فَنٰـظِرَۃٌ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ } (النمل) ۔ ان سب مثالوں میں ” مَا “ استفہامیہ ہے۔{ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ۔ }(الانفال) ‘ { یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ }(البقرۃ :4) ‘ { مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ } (صٓ:75) ۔ تینوں مثالوں میں خبری ہونے کی وجہ سے ” مَا “ کا الف حذف نہیں کیا گیا باوجودیکہ مجرور ہے۔ باوجود مجرور ہونے کے ” مَا “ استفہامیہ کا الف باقی رہنا (حذف نہ ہونا) شاذ ہے (صرف شعر میں آیا ہے) اور شاذ قراءت ِ متواترہ میں نہیں آسکتا ‘ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں ” مَا “ استفہامیہ مجرورہ کا الف کسی جگہ باقی نہیں ہے۔ ہاں بعض مفسرین نے { بِمَا غَفَرَلِیْ رَبِّیْ } (یٰسٓ:27) میں ” مَا “ کو استفہامیہ قرار دیا ہے۔ زمخشری نے اس ” مَا “ کو استفہامیہ قرار دینے کا جواز نقل کیا ہے لیکن کسائی نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس آیت میں ” مَا “ استفہامیہ کیسے ہوسکتا ہے ‘ کیونکہ الف باقی ہے جبکہ ” مَا “ مجرور ہی ہے۔ علاوہ ازیں امام رازی نے تفسیر کبیر میں آیت { فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ } (آل عمران :159) میں ” مَا “ کو استفہامِ تعجبی کے لیے قرار دیا ہے ‘ لیکن مذکورہ بالا اصول کی رو سے یہ بھی غلط معلوم ہوتا ہے ‘ کیونکہ جب مَا استفہامیہ مجرور ہے تو الف کیوں حذف نہیں کیا گیا۔ ب) مَا شرطیہ غیر زمانیہ (بمعنی جو بھی) ۔ مثلاً : { مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ } (البقرۃ :197) اور { مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ } (البقرۃ :106) ج) مَا شرطیہ زمانیہ بمعنی ما دام (جب تک بھی) ۔ مثلاً : { فَمَا اسْتَقَامُوْا لَــکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَھُمْ }(التوبۃ :7) قسم دوم : مَا حرفی ۔ اس کی بھی تین قسمیں ہیں : (1) مَا نافیہ۔ یہ اگر جملہ اسمیہ پر داخل ہو تو نجدی ‘ تہامی اور حجازی استعمال میں ” لَیْسَ “ کی طرح اسم کو رفع اور نصب کو خبر دیتا ہے۔ مثلاً : { مَا ھٰذَا بَشَرًا }(یوسف :31) اور :{ مَا ھُنَّ اُمَّھَاتِھِمْ }(المجادلۃ :2 ) اگر جملہ فعلیہ پر داخل ہو تو لفظوں میں کوئی عمل نہیں کرتا۔ مثلاً : { وَمَا تُنْفِقُُوْنَ اِلاَّ ابْتِغَائَ وَجْہِ اللّٰہِ }(البقرۃ :272) جمہور کے نزدیک مضارع کا صیغہ صرف حال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ‘ لیکن ابن مالک کا قول ہے کہ کبھی استقبالی معنی کے لیے بھی مستعمل ہوتا ہے۔ مثلاً : { قُلْ مَا یَـکُوْنُ لِیْ اَنْ اُبَدِّلَــہٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْ }(یونس :15) (2) مصدریہ۔ یہ دو قسم کا ہوتا ہے : ا) غیر زمانیہ۔ مثلاً : { عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ } (التوبۃ :28) ” تمہارا مشقت میں پڑنا اس پر شاق ہے “۔ { وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ } (آل عمران :118) ” تمہارا مشقت میں پڑنا وہ دل سے پسند کرتے ہیں “۔ { ضَاقَتْ عَلَیْھِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ }(التوبۃ :25) ” باوجود فراخ ہونے کے زمین ان پر تنگ ہوگئی “۔ { فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِیْتُمْ لِقَآئَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا }(السجدۃ :14) ” اس دن کی پیشی کو بھولے رہنے کی وجہ سے اب (دوزخ کے عذاب کا) مزہ چکھو “۔ ب) زمانیہ۔ مثلاً : { مَا دُمْتُ حَیًّا ۔ }(مریم) ” میں اپنی زندگی کی مدت تک “۔ { فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ }(التغابن :16) ” جب تک استطاعت ہو اللہ سے ڈرتے رہو “۔ (نوٹ ) ابن خروف کا کہنا ہے کہ ما مصدریہ بالاتفاق حرف ہے ‘ لیکن اتفاق کا قول غلط ہے ‘ کیونکہ ابوبکر اور اخفش اس کو اسمیہ کہتے ہیں۔ (3) مَا زائدہ : ا) کافّہ ۔ (یعنی سابق عامل کو عمل سے روک دینے والا) عمل رفع سے روکنے والا ” مَا “ صرف تین افعال کے بعد آتا ہے۔ قَلَّ مَا ۔ طَالَ مَا ۔ کَثُرَ مَا ۔ عملِ نصب و رفع سے روکنے والا ” مَا “ حرفِ مشبہ بالفعل کے بعد آتا ہے۔ مثلاً : { اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰــہٌ وَّاحِدٌ}(النسائ :171) { کَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَی الْمَوْتِ وَھُمْ یَنْظُرُوْنَ ۔ }(الانفال) { اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰؤُ }(فاطر :28) عمل جر سے روکنے والا ‘ یعنی کسی حرف جر یا اسم مضاف کے عمل کو باطل کردینے والا۔ اوّل : مثلاً { رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ ۔ } (الحجر) ۔ یہ اکثر ماضی پر آتا ہے ‘ لیکن آیت { رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ …} میں تو مضارع پر آیا ہے ‘ تو کیا یہ استعمال غلط ہے ؟ رُمّانی نے کہا ہے کہ اللہ کو مستقبل کا علم بھی ماضی کی طرح ہی ہے اس لیے اس کے کلام میں وَدَّ کی جگہ یَوَدُّ بھی صحیح ہے۔ یا ” کاف “ کے بعد ۔{ اجْعَلْ لَّنَا اِلٰــھَا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَۃً } (الاعراف :138) یا ” بائ “ کے بعد تقلیل کے لیے۔ فَلئِنْ صِرْتَ لا تحیر جوابًا بِمَا قَدْ تُرٰی وَاَنْتَ خَطِیْبٌ (ترجمہ) ” اب اگر تو لوٹا کر جواب نہیں دے سکتا تو کیا عجب ہے ‘ کیونکہ بلاشبہ تیرا خطیب دکھائی دینا بہت کم ہے “۔ دوم : کسی طرف مضاف کے بعد۔ مثلاً بَعْدَ مَا ‘ بَیْنَمَا ‘ حَیْثُمَا ‘ اِذْ مَا۔ ب) مَا زائدہ غیر کافہ۔ مثلاً : { وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ} (فُصّلت :36) { اَیَّامًا تَدْعُوا }(الاسرائ :110) { اَیْنَ مَا تَــکُوْنُوْا }(البقرہ :148) { فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا } (البقرۃ :115) { فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ } (آل عمران :159) { عَمَّا قَلِیْلٍ }(المؤمنون :40) { مِمَّا خَطِیْئَاتِھِمْ } (نوح :25) { اَیـَّمَا الْاَجَلَیْنِ }(القصص 28) ان تمام آیات میں علمائِ بصرہ کے نزدیک مَا تاکید کے لیے زائدہ ہے۔ آیات ذیل میں ” مَا “ اسمیہ موصولہ ہے حرفیہ نہیں ہے : { اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الْبَاطِلُ } (لقمٰن :30) ” بیشک وہ چیز جو یہ مانگتے ہیں ضرور آنے والی ہے “۔ { اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّھُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ ۔ نُسَارِعُ لَھُمْ فِی الْخَیْرٰتِ } (المؤمنون :56) { وَاعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْ ئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ }(الانفال :41) ترکیب : { اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْـنَا مِنَ الْبَـیِّنٰتِ وَالْھُدٰی } میں ” اِنَّ “ حرفِ مشبہ بالفعل۔ ” الَّذِیْنَ ‘ ‘ اسم موصول۔” یَکْتُمُوْنَ ‘ ‘ فعل۔ ” واؤ‘ ‘ ضمیر فاعل۔ ” مَا ‘ ‘ اسم موصول۔” اَنْزَلْنَا ‘ ‘ فعل+فاعل۔ ضمیر عائد ” ہ “ محذوف مفعول ۔ ” مِنْ ‘ ‘ حرف جار ” اَلْبَیِّنَاتِ ‘ ‘ معطوف علیہ ” واو ‘ ‘ حرف عطف ” الْھُدٰی ‘ ‘ معطوف۔ معطوف +معطوف علیہ مجرور۔ جار+مجرور مل کر متعلق کائناً محذوف۔ کائناً اپنے متعلق سے مل کر حال ہے ” ہٗ ‘ ‘ ضمیر محذوف مفعول سے۔ { مِنْ بَعْدِ مَا بَـیَّـنّٰـہُ لِلنَّاسِ فِی الْـکِتٰبِ } میں ” مِنْ ‘ ‘ حرفِ جار۔ ” بَعْدِ “ مضاف ” مَا “ مصدریہ ۔” بَیَّنَّاہ ‘ ‘۔ فعل+فاعل+مفعول۔ ” لِلنَّاسِ “ جار+مجرورمتعلق ” بَیَّنَّا “۔” فِیْ الْکِتٰبِ “ جار+مجرورمتعلق ” بَیَّنَّا “-” بَیَّنَّاہٗ “ فعل+ فاعل+ مفعول۔ دونوں متعلق مل کر ب تاویل مصدر ہو کر ” بَعْدِ “ کا مضاف الیہ۔ مضاف +مضاف الیہ مل کر مجرور ” مِنْ “ حرف جار کا۔ جار+مجرور متعلق ” یَکْتُمُوْنَ “ کا۔ ” یَکْتُمُوْنَ “ فعل+فاعل+ مفعول +متعلق مل کر جملہ فعلیہ ہو کر صلہ موصول ” الَّذِیْنَ “ کا۔ موصول+صلہ مل کر ” اِنَّ “ کا اسم۔ { اُولٰٓـئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ وَیَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَ } میں ” اُولٰٓئِکَ “ اسم اشارہ مبتدا۔ ” یَلْعَنُ “ فعل ” ھُمْ “ ضمیر مفعول بہ مقدم ۔ لفظ ” اللّٰہُ “ فاعل مؤخر ۔ فعل+فاعل+مفعول بہ مل کر جملہ فعلیہ ہو کر معطوف علیہ۔ { وَیَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَ } میں ” واؤ“ حرفِ عطف ” یَلْعَن “ فعل ” ھُمْ “ ضمیر مفعول بہ مقدم۔ ” اللّٰعِنُوْنَ “ فاعل مؤخر۔ فعل+فاعل+مفعول بہ جملہ فعلیہ ہو کر معطوف ۔ معطوف اور معطوف علیہ مل کر خبر ہے ” اُولٰٓئِکَ “ کی۔ ” اُولٰٓئِکَ “ مبتدا اپنی خبر سے مل کر جملہ اسمیہ ہو کر ” اِنَّ “ کی خب رہے۔ نوٹ (1) : حضرت ابوہریرہ ؓ اور چند دیگر صحابہ ؓ کے قول منقول ہیں کہ اگر قرآن میں یہ آیت نہ ہوتی تو وہ لوگ حدیث بیان نہ کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک حدیث رسول ﷺ ‘ بھی قرآن کے حکم میں ہے ۔ (معارف القرآن) ۔ اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے احکام کو واضح کیا ہے۔ ” مِنَ الْبَیِّنٰتِ “ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کے جو واضح احکام ہیں انہیں پھیلانا اور عام کرنا لازم ہے اور ان کو چھپانا ایک جرمِ عظیم ہے۔
Top