Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتٰبِ١ۙ اُولٰٓئِكَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْتُمُوْنَ : چھپاتے ہیں مَآ : جو اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کیا مِنَ : سے الْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیاں وَالْهُدٰى : اور ہدایت مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا بَيَّنّٰهُ : ہم نے واضح کردا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں واُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ يَلْعَنُهُمُ : لعنت کرتا ہے ان پر اللّٰهُ : اللہ وَيَلْعَنُهُمُ : اور لعنت کرتے ہیں ان پر اللّٰعِنُوْنَ : لعنت کرنے والے
تحقیق وہ لوگ جو اس چیز کو چھپاتے ہیں جس کو ہم نے واضح باتوں اور ہدایت کے ساتھ اتارا ہے۔ بعد اس کے کہ ہم نے اسے لوگوں کے لئے کتاب میں بیان کردیا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں۔ جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور دوسرے لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں
کتمان حق گزشتہ آیات میں تہذیب الاخلاق کے پانچ اصول بیان ہوچکے ہیں۔ سابقہ درس میں منجملہ ان کے تعظیم شعائر اللہ کا ذکر تھا۔ تہذیب نفس کے جملہ مسائل جس بات پر متفرع ہوتے ہیں ، وہ مسئلہ توحید ہے۔ اس درس میں اسی مسئلہ کو بیان فرمایا گیا ہے اور اس سے پہلے مسئلہ کتمان حق کا بیان ہے۔ جیسا کہ گزشتہ دروس میں ذکر ہوچکا ہے۔ یہودیوں میں کتما حق کی بیماری بدرجہ اتم موجود تھی۔ پہلی آیات میں آ چکا ہے ” وتکتموالحق وانتم تعلمون “ یعنی اے اہل کتاب تم جان بوجھ کر حق کو چھپاتے ہو۔ سای طرح تحویل قبلہ کے متعلق فرمایا یعرفونہ کما یعرفون ابنآء ھم “ یعنی یہ لوگ اس حقیقت کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسا کہ اپنی اولدا کو مگر اس کے باوجود انکار کرتے ہیں۔ یہ ان کے کتمان حق کی واضح مثالیں ہیں یہ ظالم لوگ جو حضور بنی کریم ﷺ کے بارے پیشین گوئیوں کو چھپاتے تھے۔ اس کی بجائے لوگوں کے سامنے غلط ملط باتیں بیان کرتے تھے تو رات میں رجم کا حکم موجود تھا۔ مگر یہودیوں نے اسے چھپایا۔ اس کی تفصیل سورة مائدہ میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا۔ لتبینہ للناس ولا تکتمونہ کہ تم لوگوں کے سامنے حقیقت حال کی پوری پوری وضاحت کرو گے اور اسے چھپائو گے نہیں مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا فنبذوہ ورآء ظھورھم ان لوگوں نے حقائق کو پس پشت ڈال دیا۔ ” کانھم لایعلمون “ گویا کہ وہ بالکل نہیں جاتنے۔ کتمان حق کی سزا کتمان حق کی بیماری صرف یہودیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں پر عام قانون کے طور پر اعلان فرمایا ان الذین یکتمون ما انزلنا من البینت والھدی جو لوگ بھی اللہ تعالیٰ کی واضح باتوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں من بعد ما بینہ للناس فی الکتب بعد اس کے کہ ہم نے اسے کتاب میں وضاحت سے بیان کردیا۔ اولئک یلعنھم اللہ ویلعنھم اللعنون یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی بھی لعنت ہے۔ اور دیگر لعنت کرنے والوں کی بھی لعنت ہے۔ ظاہر ہے کہ ان الذین میں تمام لوگ شامل ہیں جو اس آیت کے مصداق ہیں خواہ وہ کسی سابقہ امت سے ہوں یا نبی آخر الزمان کی موجودہ امت سے متعلق ہوں۔ ہر وہ شخص اس آیت کریمہ کا نشانہ ہے۔ جو حق بات کو چھپاتا ہے۔ حدیث شریف میں حضور ﷺ کا اشراد گرامی ہے من سئلک علماً جس سے کوئی علم کی بات پوچھی گئی جسے وہ جانتا ہے مثلاً کسی عقیدہ سے متعلق سوال ہے یا حلال و حرام کی وضاحت طلب کی گئی ہے فک تمہ تو صاحب علم شخص نے اسے چھپا دیا۔ معاملہ کو ظاہر نہ کیا۔ یا اسکی کما حقہ ، وضاحت نہ کی ، وجہ خواہ کچھ بھی ہو اسے کوئی نقصان کا خطرہ تھا یا اس کی مالی منفعت متاثر ہوتی تھی یا کوئی اور فاسد مقصد کار فرما تھا جس کی وجہ سے سے اس نے حق کو چھپا دیا تو حضور لعیہ السلام نے فرمایا الجم یوم القیمۃ بلجام من نار قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔ چونکہ دنیا میں اس شخص نے اپنی زبان سے حق کو ظاہر نہیں کیا تھا۔ اس لئے قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام ڈالی جائیگی۔ اتنی سخت سزا دی جائیگی کہ اس نے حق کو چھپایا تھا۔ مولانا عبید اللہ سندھی حضرت مولانا عبداللہ سندھی ہمارے دور کے عظیم مفسر قرآن ہوئے ہیں آپ تعلیم یافتہ لوگوں کو چھ ماہ میں قرآن پاک سے کما حقہ ، واقف کرا دیتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا ملکہ عطا کیا تھا۔ حضرت مولانا لاہوری ، مولانا سلطان محمود کٹھیالے والے حکیم فضل الرحمن وغیرہم نے آپ ہی سے قرآن پاک پڑھا تھا۔ آپ شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن کے شاگردوں میں سے تھے اور ان میں بڑا مقام رکھتے تھے۔ انگریز آپ سے بہت خوفزدہ تھا۔ ہندوستان میں آپ کا داخلہ بند کردیا تھا بلک ہسخت سزا رکھی تھی ، لہٰذا آپ نے 25 سال کا عرصہ جلا وطنی میں بسر کیا۔ آپ اپنے استاد محترم کا اشارہ پا کر کابل ہجرت کر گئے اور کابل کو انگریز کے پنجہ سے آزاد کرایا مگر انگریز نے وہاں بھی آپ کو جمنے نہیں دیا اور آپ کو روس جانا پڑا ۔ وہاں پر صرف ایک سال کا عرصہ گزارا۔ اس کے بعد آپ ترکی چلے گئے اور چار سال وہاں قیام کیا۔ آپ نے ترکوں کو خواب غفلت سے جگایا اور انہیں باور کرایا کہ تم بےدینی کی آغوش میں جا رہے ہو۔ قرآن پاک کی چند سورتوں کا مطلب سمجھ لو تو بےدینی سے بچ جائو گے۔ مگر ان لوگوں نے آپ کی دعوت کا خاطر خواہ جواب نہ دیا ، لہٰذا آپ ترکی سے حجاز مقدس چلے گئے۔ آپ بارہ سال تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے۔ انگریز آپ کے پیچھے لگا ہوا تھا۔ وہاں بھی آپ کی جاسوسی کی جاتی تھی۔ ایک دفعہ طواف کے دوران آپ نے دیکھا کہ جاسوس آپ کے پیچھے پیچھے آ رہا ہے آپ نے اسے پہچان لیا اور سخت ڈانٹ پلائی۔ فرمایا تمہیں شرم نہیں آتی ، یہاں بھی میرا پیچھا کر رہے ہو۔ خدا کا خوف کرو ، کم از کم حرم پاک کا ہی احترام کرو۔ آپ زبردست انقلابی ذہن کے مالک تھے اسی لئے تو انگریز آپ سے ڈرتا تھا آپ نے قیام پاکستان سے تین سال قبل وفات پائی آپ نے زندگی کے آخری ایام میں فرمایا تھا کہ میں نے انگریز کی جڑوں کو ہندوستان سے اکھاڑ دیا ہے اگر یہ چند سال کے اندر اندر اس ملک سے نہ بھاگا تو میری قبر پر آ کر لات مارنا اور کہنا کہ عبید اللہ نے جھوٹ بولا۔ چناچہ آپ کی یہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور انگریز تین سال کے اندر اندر ہندوستان کو خیر باد کہہ گیا۔ کسی زمانہ میں برطانیہ ، برطانیہ عظمیٰ کہلاتا تھا۔ یہ اتنی بڑی سلطنت تھی کہ اس پر کبھی سورج نہیں ڈوبتا تھا۔ مقصد یہ کہ اس سلطنت کا رقبہ اتنا وسیع تھا کہ کسی نہ کسی حصے پر سورج موجود ہوتا تھا۔ اس کے مقابل ہمیں امریکہ ، روس ، جرمنی وغیرہ سب کمزور تھے ۔ مگر اس کے ظلم کی وجہ سے اللہ نے اتنی بڑی حکومت چھین لی اور اب یہ اپنے اصل ملک میں محصور ہو کر رہ گیا ہے۔ تو یہی وہ انگریز تھا جس نے مولانا عبید اللہ سندھی کو جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا تھا۔ مولا دینی طور پر محدث ہونے کے ساتھ ساتھ سیاستدان بھی تھے آپ خود فرماتے ہیں کہ قبول اسلام کے بعد ہم نے اٹھارہ سال تک شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی خدمت میں رہ کر سیاست بھی سیکھی ہے اور دین بھی حاصل کیا ہے۔ آپ امام شاہ ولی اللہ کی حکمت کے بڑے ماہر تھے۔ نہایت نیک سیرت انسان تھے نو مسلم ہو کر اتنا شعور حاصل کرنا ۔ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی تھی۔ جفاکشی کا یہ عالم تھا کہ آٹھ دس میل کا سفر پیدل طے کر کے نماز جمعہ کے لئے آتے تھے۔ جب کرایہ نہیں ہوتا تھا پیدل ہی چل دیتے۔ ایک دفعہ ملتان کے لئے سفر شروع کیا ۔ مظفر گڑھ کے ریلوے سٹیشن پہنچے تو پاس صر فاتنے ہی پیسے تھے۔ جس سے ملتان کے لئے ٹکٹ خرید لیا۔ اتنے میں ایک اور مسافر نے سوال کیا کہ سخت لاچار ہوں ، ملتان جانا ہے مگر ٹکٹ کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ آپ نے خریدا ہوا ٹکٹ اس سائل کو دیدیا اور خود پیدل ہی ملتان کے لئے چل دیئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ آخر میں اشتراکی ہوگئے تھے ۔ حالانکہ یہ غلط ہے البتہ آپ سرمایہ دارانہ نظام کے لخاف تھے۔ آپ نے اپنی تفسیر میں اشتراکیت کے سخت خلاف لکھا ہے۔ کیونکہ اس دور میں اسلامی نظام سے ٹکر لینے والا اشتراکی نظام ہی ہے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ اشتراکی نظام کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے۔ ایک وقت ضرورت آئے گا جب انہیں قرآنی پروگرام کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ اسلامی پروگرام سے بہتر کوئی پروگرام نہیں ملے گا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو بھی قوم قرآنی پروگرام سے اعراض کریگی وہ کبھی فلاح نہیں پا سکتی نہ دینی اعتبار سے کامیاب ہو سکتی ہے اور نہ ہی دنیوی لحاظ سے درجہ کمال حاصل کرسکتی ہے۔ تعلیم کی اہمیت یہی مولانا عبداللہ سندھی ہیں جنہوں نے آپ زیر درس کے متعلق فرمایا کہ میں ان آیات سے یہ اصول اخذ کرتا ہوں کہ تعلیم جبری ہونی چاہئے تاکہ تعلیم حاصل کر کے ترقی کی منزل طے کی جاسکیں ، یورپی ممالک میں جہاں دنیوی تعلیم جبری ہے۔ وہاں مرد و زن کسی کو تعلیم سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جاتا۔ سب کو لازماً تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اقوام دنیوی اعتبار سے ترقی یافتہ ہیں۔ مگر ہمارے ہاں تعلیم پندرہ بیس فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ دینی تعلیم تو ویسے ہی بالکل کمزور ہے۔ صرف ایک دو فیصد لوگ ہی دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں ، دنیوی طور پر بھی ہمارے پچاس فیصد لوگ گنتی تک نہیں جانتے اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے اور نہ ہی حساب سے کچھ واقفیت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عثمان کے زمانے تک مسلمان حصول تعلیم کے اصول پر عمل پیرا تھے ، اور ترقی کی منازل بھی طے کرتے تھے۔ لہٰذا لازم ہے کہ کسی مرد اور عورت کو ضروریات دین کی تعلیم سے بےپہرہ نہیں رہنا چاہئے۔ اس مقام پر کتمان حق کے متعلق یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ دیکھو جس قوم کے پاس بام عروج تک پہنچانے والی تعلیم موجود ہو ، وہ اسے لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی بجائے اسے چھپائے تو ایسا شخص لعنت کا مستحق نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا۔ اس وقت دنیا جہنم کدہ بنی ہوئی ہے۔ جرائم کی بھرمار ہو رہی ہے۔ اور ہم خاموش بیٹھے ہیں حالانکہ ہمارے پاس وہ تعلیم اور وہ پروگرام موجود ہے جس سے جرائم کی بیخ کنی ہو سکتی ہے …… جس سے انسان کی ذہنی ترقی ہو سکتی ہے اور جس سے تہذیب الاخلاق پیدا ہو سکتا ہے مگر ہم اس تعلیم کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے تیار نہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا کہ سخت ضرورت کے باوجود جب اس تعلیم کو عام نہیں کیا جائے گا تو اس کا وبال لعنت کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ اسی لئے مولانا عبید اللہ سندھی نے فرمایا تھا کہ ضروریات دین میں سے سب سے پہلا نمبر تعلیم کا ہے۔ اسے جبری طور پر نافذ کرنا چاہئے۔ بینات اور ہدایت اسی آیت میں اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں یعنی بینات اور ہدایت کا ذکر کر کے فرمایا کہ جو لوگ ان دو چیزوں کو چھپاتے ہیں ، وہ اللہ اور لوگوں کی لعنت کے سزاوار ہیں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ بنیات سے مراد وہ واضح باتیں ہیں جو معمولی توجہ سے سمجھ میں آجاتی ہیں۔ ان میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ، اس کی نعمتوں کا شکر اور صبر وغیرہ شامل ہیں اور ہدایت سے مراد ایسی باتیں ہیں جن کو سمجھنے کے لئے استاد کی راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے ، ایسی چیزیں آسانی سے سمجھ میں نہیں آتیں ان میں شعائر اللہ کی تعظیم بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ان تمام چیزوں کو ہم نے کتاب میں بیان کردیا ہے اس کے بعد اگر کوئی شخص انہیں چھپانے کی کوشش کرے گا تو وہ لعنت کا مستحق ٹھہرے گا۔ کتمان حق کی بیماری مسلمانوں کے لئے بھی ویسی ہی خطرناک ہے جس طرح یہود و نصاریٰ کے لئے مہلک ہے۔ اہل کتاب نے کتاب اللہ سے اعراض کیا اور دیگر خرافات میں لگ گئے لہٰذا ناکام ہوئے ادھر بھی یہی حال ہے مسلمانوں نے قرآن پاک کو پس پشت ڈال دیا ہے اور ٹونے ٹوٹکوں ، بدعات اور شرک پر گزارہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارا انجام بھی اہل کتاب سے مختلف نہیں ہو سکتا۔ معانی کا پروانہ فرمایا لعنت کی اس تعزیر سے وہی بچ سکیں گے الا الذین تابوا جنہوں نے توبہ کرلی۔ واصلحوا اپنے آپ کی اصلاح کرلی۔ یعنی خود کو سنوار لیا۔ سابقہ فرائض و حقوق ادا کئے اور آئندہ کے لئے مستعد ہونے کا عہد کیا وبینوا اور جس چیز کو چھپا رہے تھے اسے واضح طور پر بیان کردیا۔ فرمایا فاولئک اتوب علیھم میں ایسے ہی لوگوں پر رجوع کرتا ہوں۔ وانا التواب الرحیم اور میں رجوع کرنے والا مہربان ہوں۔ مطلب یہ کہ جب کوئی شخص سابقہ کوتاہیوں اور غلطیوں سے تائب ہو کر راہ رسات پر آجائے تو میں اس کی تمام سابقہ لغزشیں معاف کردیتا ہوں۔ مجھ سے بڑھ کر معاف کرنے والا رحیم و کریم اور کوئی نہیں ۔ حتی کہ میں کفر و شرک جیسے اکبر الکبائر کو بھی معاف کردیتا ہوں۔ لعنت کے مستحقین فرمایا اس کے برخلاف ان الذین کفروا جنہوں نے حق کو تسلیم کرنے کی بجائے اس کا انکار کردیا اور پھر اسی حالت میں ومانوا ان کو موت آگئی وھم کفار اور وہ کافر ہی رہے۔ اولئک علیھم لعنۃ اللہ والمئکۃ والناس اجمعین تو ایسے لوگوں پر اللہ ، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوگی۔ خلدین فیھا اس لعنت میں وہ ہمیشہ گرفتار رہیں گے۔ لایخفف عنھم العذاب ان کے لئے تخفیف عذاب کا بھی کوئی امکان نہیں ولا ھم ینظرون اور نہ ہی انہیں کوئی مہلت ملے گی۔ مقصد یہ کہ جو لوگ کفر کی حالت میں ہی مر جائیں گے وہ دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ نہ تو ان کے عذاب میں کچھ کمی کی جائے گی اور نہ ہی اس عذاب کو کچھ دیر کے لئے مئوخر کر کے انہیں مہلت دی جائے گی۔ لعنت کا عذاب اس قدر سخت ہوگا ۔ مسئلہ لعنت کے متعلق مفسرین اور فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ سکی پر لعنت نہیں کرنی چاہئے سوائے اس کے کہ یہ ثابت ہوجائے۔ اس کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے کسی کافر پر بھی اس کی زندگی میں لعنت نہیں کرنی چاہئے ، کیونکہ ممکن ہے۔ کہ وہ موت سے پہلے تائب ہوجائے۔ ابلیس پر لعنت کرنا جائز ہے۔ کیونکہ اس کا کفر معلوم ہے۔ اس کے علاوہ برائی پر لعنت درست ہے۔ جیسا کہ صحابہ کرام کو برا بھلا کہنے والوں کے متعلق فرمایا لعنۃ اللہ لعی شرکم تمہارے شر پر خدا کی لعنت یا مثلاً برا کام کرنے الے پر لعنت ہے لعن اللہ … السارق یعنی چور پر اللہ کی لعنت ہو۔ یالعن اللہ … من سب والدیہ اپنے ماں باپ کو گالی دینے والے پر خدا کی لعنت ہو۔ سای طرح فرمایا لعن اللہ من غیر منار الارض مشترک زمین کے نشانتا مٹانے والے پر اللہ کی لعنت ہو۔ لعن اللہ من ذبح لفیر اللہ غیر اللہ کے تقرب کے لئے ذبح کرنیوالے پر اللہ کی لعنت ہو۔ وغیرہ وغیرہ معبود صرف ایک ہے فرمایا حقیقت یہ ہے ک ہوالھکم الہ واحدۃ تمہارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے۔ کوئی اور معبود حق نہیں ہے۔ لہٰذا عبادت صرف اسی کی کرو ، کفر و شرک سے باز آ جائو۔ لفظ الہ میں محبت کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے اور اس کا معنی فریفتہ ہونے کا ہے۔ اس لئے الہ کا معنی دلربا بھی کیا جاتا ہے۔ شاہ فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی نے اس کا ہندی ترجمہ من موہن بھی کیا ہے۔ غرضیکہ لفظ الہ میں محبت کا عنصر بھی پایا جاتا ہے اور محبوب حقیقی خدا تعالیٰ ہے۔ لہٰذا اس کی واحدانیت پر ایمان لانا چاہئے اور خلاص اسی کی عبادت کرنی چاہئے اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بنانا چاہئے۔ یہ تمام مسائل کی بنیاد ہے ۔ اگر تہذیب اخلاق اس بنیاد پر قائم ہوگا تو درست ہوگا اور نہ ہی لہٰذا معبود وہ ہو سکتا ہے۔ جو مختار گل ، قادر مطلق ، علیم وخبیر نافع اور ضار ہو ، جو مشکل کشائی کرنیوالا ہو۔ ہمہ بیں ، ہمہ دان اور ہمہ تو ان ہو ، وہ جو چاہے کرے۔ لارآد لحکمہ اور جس کے حکم کو کوئی ٹال نہ سکے۔ لا الہ الا ھو اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے اور وہ ایسا معبود ہے الرحمٰن الرحیم جو رحمٰن اور رحیم ہے۔ رحمٰن سے مراد بیحد مہربان ہے اس کا بڑا فیضان ہے اور رحیم سے مراد خصوصی رحمت کرنے والا ہے۔ اہل ایمان کے لئے خصوصی رحمت کا اظہار قیامت کے روز ہوگا۔ امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ رحمٰن و رحیم کا تعلق تجلی اعظم سے ہے۔ جیسے الرحمٰن علی العرش استوی “ یعنی رحمٰن کی تجلی عرش پر پڑتی ہے اور جس شخص کا تعلق اس تجلی کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ وہ کامیابی کی منزل پا لیتا ہے ۔ اسی لئے فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ تہذیب اخلاق یا تعظیم شعائر اللہ کا واحد مقصد یہ ہے کہ انسان کا تعلق اور رابطہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہوجائے۔ یہ بڑی اہم آیت ہے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ان دو آیتوں میں اسم اعظم ہے یعنی والھکم الہ واحد لا الہ الا ھو الرحمٰن الرحیم اور آلم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم اسم اعظم اللہ جلاجلالہ اللہ کا وہ اسم پاک ہے۔ جس کی خاصیت یہ ہے کہ جب اس نام کے ساتھ اسے پکارا جائے تو وہ بندے کی دعا کو سنتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے۔
Top