Tafseer-e-Saadi - Al-Baqara : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتٰبِ١ۙ اُولٰٓئِكَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْتُمُوْنَ : چھپاتے ہیں مَآ : جو اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کیا مِنَ : سے الْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیاں وَالْهُدٰى : اور ہدایت مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا بَيَّنّٰهُ : ہم نے واضح کردا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں واُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ يَلْعَنُهُمُ : لعنت کرتا ہے ان پر اللّٰهُ : اللہ وَيَلْعَنُهُمُ : اور لعنت کرتے ہیں ان پر اللّٰعِنُوْنَ : لعنت کرنے والے
جو لوگ ہمارے حکموں اور ہدایتوں کو جو ہم نے نازل کی ہیں (کسی غرض فاسد سے) چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم نے ان لوگوں کے (سمجھانے کے) لیے اپنی کتاب میں کھول کھول کر بیان کردیا ہے ایسوں پر خدا اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں
یہ آیت کریمہ اگرچہ اہل کتاب کے بارے میں اور اس کی بابت نازل ہوئی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی صفات کو چھپایا مگر اس کا حکم ہر اس شخص کے لئے عام ہے جو ان حقائق کو چھپاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے ہیں (آیت) مِنَ الْبَيِّنٰتِ ” دلائل “ یعنی حق پر دلالت کرنے والی اور اس کو ظاہر کرنے والی باتیں (آیت) وَالْهُدٰى. ھدی وہ علم ہے جس کے ذریعے سے صراط مستقیم کی طرف راہنمائی حاصل کی جاتی ہے اور جس سے اہل جنت اور اہل جہنم کے راستوں میں فرق واضح ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل علم سے وعدہ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کتاب اللہ کا جو علم عطا کیا ہے اسے لوگوں کے سامنے بیان کریں گے اور اسے ہرگز نہیں چھپائیں گے۔ پس جس نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو دورپ ھینک دیا اس نے دو مفاسد کو جمع کردیا۔ (اول) اس حق کو چھپانا جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا۔ (ثانی) اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ دھوکہ کرنا (آیت)ۙاُولٰۗىِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ ” ایسے ہی لوگوں پر اللہ لعنت کرتا ہے۔ “ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دھتکار دے گا اور انہیں اپنی قربت اور رحمت سے دور کر دے گا (آیت) وَيَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ ” اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔ “ یعنی ان پر تمام مخلوق کی بھی لعنت پڑے گی، کیونکہ انہوں نے مخلوق الٰہی کے ساتھ دھوکہ کیا، ان کے دین کو برباد کیا، انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کیا اس لئے انہیں ان کے اعمال کی جنس سے بدلہ دیا جائے گا۔ جیسے لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دینے والے پر اللہ تعالیٰ رحمت بھیجتا ہے، فرشتے رحمت کی دعا کرتے ہیں، یہاں تک کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی اس کے لئے رحمت کی دعا کرتی ہیں، کیونکہ اس کی تمام بھاگ دوڑ اور کوشش مخلوق کی بھلائی اور ان کے دین کی اصلاح اور ان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے اس کے عمل کی جنس سے بدلہ دیا گیا۔ پس اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حق کو چھپانے والا درحقیقت اللہ کے حکم کا مخالف اور اللہ سے دشمنی کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو لوگوں کے سامنے اپنی آیات کو واضح کر کے بیان کرتا ہے اور یہ شخص اللہ تعالیٰ کی آیات کو چھپانے اور مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ پس مذکورہ سخت وعید کامور دیہی شخص ہے۔ (آیت) اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا ” مگر جنہوں نے توبہ کی ‘ یعنی جو ندامت کے ساتھ گناہ چھوڑ کر اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم لے کر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹے (آیت) وَاَصْلَحُوْا ” اور اپنی حالت درست کرلی۔ “ یعنی اپنے فاسد عملوں کی اصلاح کرلی۔ پس صرف برے کام کا چھوڑ دینا ہی کافی نہیں، اس کی جگہ اچھے کام کا اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ کتمان حق کے مرتکب کے لئے بھی صرف یہی کافی نہیں کہ اس نے یہ گناہ چھوڑ دیا ہے، بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس حق کو بھی ظاہر کرے جس کو اس نے چھپایا تھا۔ پس یہی وہ شخص ہے جس کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے۔ کیونکہ اس پر توبہ کا دروازہ بند نہیں۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کا سبب لے کر توبہ کے لئے حاضر ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ (آیت) التَّوَّابُ ” بڑا معاف کرنے والا۔ “ ہے۔ یعنی وہ اپنے بندوں کے ساتھ، گناہ کے بعد عفو و درگزر سے پیش آتا ہے جب وہ توبہ کرلیتے ہیں اور جب بندے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں، تو روک لینے کے بعد، ان پر پھر احسان و نعمتوں کی بارش کردیتا ہے۔ (آیت) الرحیم۔ اس ہستی کو کہتے ہیں جو عظیم اور بےپایاں رحمت سے متصف ہو جو ہر چیز کو محیط ہے۔ یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے انہیں توبہ اور انابت کی توفیق بخشی پس انہوں نے توبہ کی اور وہ اس کیطرف پلٹے۔ پھر اس نے ان پر رحم کیا یعنی اپنے لطف و کرم سے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ یہ اس شخص کا حکم ہے جو گناہوں سے توبہ کرتا ہے۔ رہا وہ شخص جو اپنے کفر پر مصر ہے، اس نے اپنے رب کی طرف رجوع نہیں کیا، نہ اس کی طرف پلٹا اور نہ اس نے توبہ کی اور حالت کفر ہی میں مرگیا (آیت) اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ ” تو یہی لوگ ہیں جن پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ “ اس لئے کہ جب کفر، ان کا وصف ثابت بن گیا تو ان پر لعنت بھی ان کا وصف ثابت بن گئی جو کبھی زئال نہیں ہوگی، کیونکہ حکم وجود اور عدم وجود کے اعتبار سے اپنی علت کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ (یعنی علت ہوگی تو حکم ہوگا، علت نہیں ہوگی تو حکم بھی نہیں ہوگا) (آیت) ’ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۚ’ وہ ہمیشہ اس (لعنت) میں رہیں گے۔ “ یعنی وہ لعنت یا عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔ لعنت اور عذاب دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ فرمایا : (آیت) لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ ” اور ان پر عذاب میں تخفیف نہیں کی جائے گی۔ “ بلکہ ان کو سخت اور دائمی عذاب دیا جائے گا۔” اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی۔ “ کیونکہ مہلت کا وقت تو دنیا کی زندگی تھی جو گزر گئی اور ان کے پاس کوئی عذر بھی نہیں ہوگا جو وہ پیش کرسکیں۔
Top