Dure-Mansoor - Al-Baqara : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتٰبِ١ۙ اُولٰٓئِكَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْتُمُوْنَ : چھپاتے ہیں مَآ : جو اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کیا مِنَ : سے الْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیاں وَالْهُدٰى : اور ہدایت مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا بَيَّنّٰهُ : ہم نے واضح کردا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں واُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ يَلْعَنُهُمُ : لعنت کرتا ہے ان پر اللّٰهُ : اللہ وَيَلْعَنُهُمُ : اور لعنت کرتے ہیں ان پر اللّٰعِنُوْنَ : لعنت کرنے والے
بیشک جو لوگ چھپاتے ہیں ان چیزوں کو جو ہم نے نازل کیں جو واضح چیزیں ہیں اور ہدایت کی باتیں ہیں بعد اس کے کہ ہم نے اس کو لوگوں کے لئے کتاب میں بیان کیا یہ چھپانے والے وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ لعنت فرماتا ہے اور ان پر لعنت بھیجتے ہیں لعنت کرنے والے
(1) ابن اسحاق، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ معاذ بن جبل ؓ نے پوچھا جو نبو سلمہ کے بھائی ہیں اور سعد بن معاذ ؓ نے جو بنو اشہل کے بھائ ہیں اور خارجہ بن زید ؓ نے جو حرث بن خزرج کے بھائی ہیں۔ انہوں نے یہود کے بڑے علماء کی ایک جماعت سے بعض وہ مسائل پوچھے جو تورات میں تھے انہوں نے ان مسائل کو چھپا دیا اور ان کے بتانے سے انکار کردیا ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” ان الذین یکتمون ما انزلنا من البینت والھدی “۔ (2) عبد بن حمید، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان الذین یکتمون ما انزلنا من البینت والھدی “ سے مراد اہل کتاب ہیں۔ (3) ابن سعد، عبد بن حمید، ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان الذین یکتمون ما انزلنا من البینت والھدی “ سے مراد اہل کتاب ہیں جنہوں نے اسلام کو چھپایا حالانکہ وہ اللہ کا دین ہے اور محمد ﷺ کو چھپایا حالانکہ وہ لفظ آیت ” یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوراۃ والانجیل “ (اس کو اپنے پاس لکھا ہوا پاتے ہیں تورات میں اور انجیل میں) لفظ آیت ” یلعنھم اللہ ویلعنھم “ (اور لعنت کرتے ہیں ان پر لعنت کرنے والے) یعنی اللہ تعالیٰ کے فرشتوں اور ایمان لانے والوں میں سے (ان پر لعنت کرتے ہیں) ۔ (4) ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ وہ اہل کتاب تھے جنہوں نے محمد ﷺ اور آپ کی صفات کو چھپایا حالانکہ وہ اپنے پاس کو لکھا ہوا پاتے تھے (محض) حسد اور سرکشی کرتے ہوئے۔ (5) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ یہود میں سے ایک شخص تھا جبکہ انصار میں سے اس کا ایک دوست تھا جس کو ثعلبہ بن غنمہ کہا جاتا تھا۔ اس نے اپنے دوست سے پوچھا کہ تم محمد ﷺ کو اپنے پاس (یعنی اپنی کتابوں میں لکھا ہوا) پاتے ہو ؟ اس نے (جھوٹ بولتے ہوئے) کہا نہیں۔ (6) عبد بن حمید نے عطا (رح) سے اس آیت لفظ آیت ” اولئک یلعنھم اللہ ویلعنھم اللعنون “ کے بارے میں روایت کیا کہ ” اللعنون “ سے مراد جن انسان اور ہر جانور ہے۔ (7) سعید بن منصور، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ویلعنھم اللعنون “ سے مراد ہے کہ جب جانوروں کو خشک سالی پہنچ جائے (یعنی چارہ وغیرہ بارش نہ ہونے سے کم ہوجائے) تو وہ بنی آدم کے گنہگاروں پر بددعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے گناہوں کی وجہ سے ہم سے بارش روک لی گئی۔ (8) عبد الرزاق اور عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ویلعنھم اللعنون “ سے مراد ہے کہ جانوروں پر جب قحط سالی سخت ہوجائے تو کہتے ہیں کہ بنی آدم کے نافرمان لوگوں کی وجہ سے ہے بنی آدم کے ان نافرمان لوگوں پر اللہ تعالیٰ لعنت کرے (9) عبد بن حمید، ابن جریر، ابو نعیم نے الحلیہ میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ویلعنھم اللعنون “ سے مراد ہے کہ زمین کے جانور بچھو اور گبریلا (سیاہ بھنورا) کہتے ہیں کہ ان (بنی آدم) کے گناہوں کی وجہ سے ہم سے بارش روک دی گئی (پھر) ان پر لعنت کرتے ہیں۔ (10) عبد بن حمید، ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ویلعنھم اللعنون “ سے مراد ہے کہ ہر چیز ان پر لعنت کرتی ہے حتی کہ کیڑے اور بچھو بھی کہتے ہیں کہ بنی آدم کے گناہوں کی وجہ سے ہم سے بارش روک لی گئی۔ (11) عبد بن حمید نے ابو جعفر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ویلعنھم اللعنون “ سے مراد ہے کہ ہر چیز ان پر لعنت کرتی ہے یہاں تک کہ کیڑے بھی۔ کافر پر موت کے بعد لعنت (12) ابن ماجہ، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے براء بن عازب ؓ سے روایت کیا کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک جنازہ پر تھے آپ نے فرمایا کہ کافر کو اس کی آنکھوں کے درمیان دو ضربیں لگائی جاتی ہیں سوائے انسانوں اور جنوں کے ہر جانور اس کی آواز کو سنتا ہے اس کی آواز کو سن کر جانور اس پر لعنت کرتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ویلعنھم اللعنون “ یعنی زمین کے جانور بھی ان پر لعنت کرتے ہیں۔ (13) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ویلعنھم اللعنون “ کے بارے حضرت براء بن حازب ؓ نے فرمایا کہ جب کافر جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اس کے پاس ایک جانور آتا ہے گویا اس کی آنکھیں تانبے کی ہانڈیاں ہیں اس کے پاس لوہے کے دو گرز ہوتے ہیں وہ اس کو اس کے کندھوں کے درمیان مارتا ہے جس سے وہ چیختا ہے کہ جو کوئی اس کی آواز کو سنتا ہے اس پر لعنت بھیجتا ہے اور انسانوں اور جنوں کے علاوہ ہر چیز اس کی آواز کو سنتی ہے۔ (14) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ویلعنھم اللعنون “ سے مراد ہے کہ کافر جب اپنے گڑھے میں رکھا جاتا تو اس کو ہتھوڑے سے مارا جاتا ہے وہ چیختا ہے انسان اور جن کے علاوہ ہر چیز اس کی آواز کو سنتی ہے اور جو چیز اس کی چیخ کو سنتی ہے تو اس پر لعنت کرتی ہے۔ (15) بیہقی نے شعب الایمان میں عبد الوہاب بن عطا (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان الذین یکتمون “ کے بارے میں، میں نے کلبی (رح) کو فرماتے ہوئے سنا کہ اس سے مراد یہود ہیں پھر فرمایا کہ جو آدمی کسی چیز کو لعنت کرتا ہے اور وہ اس کا اہل نہیں ہوتا تو یہودی پر لعنت لوٹ آئی ہے۔ لفظ آیت ” ویلعنھم اللعنون “ سے یہی مراد ہے۔ (16) امام بیہقی نے شعب الایمان میں محمد بن مروان کے طریق سے روایت کیا ہے کہ مجھے کلبی نے ابو صالح سے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ایک شخص جو اپنے ساتھی کو کسی مسئلہ میں لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت جلدی سے آسمان کی طرف اٹھ جاتی ہے اگر وہ لعنت اس آدمی کو اس کا اہل نہیں پاتی جس کے لئے لعنت کی گئی ہو تو وہ لعنت کہنے والے کے پاس لوٹ آتی ہے اور اس کو بھی اس کا اہل نہیں پاتی تو پھر وہ لعنت یہود کی طرف چلی جاتی ہے اسی کو فرمایا لفظ آیت ” ویلعنھم اللعنون “ پھر ان میں سے جو آدمی توبہ کرلیتا ہے تو اس سے لعنت اٹھالی جاتی ہے۔ اور جو باقی ہوتے ہیں اس پر قائم رہتی ہے۔ انہی کے بارے میں فرمایا لفظ آیت ” الا الذین تابوا “ (الآیہ) (17) عبد بن حمید، ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس سے کوئی علمی بات پوچھی گئی جو اس کے پاس تھی پھر اس نے اس کو چھپالیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو آگ کی لگام دے گا۔ علم دین چھپانے پر وعید (18) ابن ماجہ نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس سے علم کی بات پوچھی گئی پھر اس کو اس نے چھپا دیا تو قیامت کے دن اس کو آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔ (19) ابن ماجہ اور المرھبی نے فضل العلم میں ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے اس علم کو چھپایا جس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو نفع پہنچاتے ہیں دین کے معاملہ میں تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن آگ کی لگام پہنائیں گے۔ (20) ابن ماجہ نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اس امت کے آخری لوگ اپنے پہلے والے لوگوں پر لعنت کریں گے پس جس نے حدیث کو چھپایا تو تحقیق اس نے اس بات کو چھپایا جس کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا۔ (21) امام طبرانی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس بندہ کو اللہ تعالیٰ نے علم عطا فرمایا پھر اس نے اس کو چھپایا تو اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس نے آگ کی لگام پہنی ہوئی ہوگی۔ (22) ابو یعلی اور طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس سے کوئی علم کی بات پوچھی گئی اور اس نے چھپالی تو وہ قیامت کے دن آگ کی لگام پہنے ہوئے آئے گا۔ طبرانی نے ابن عمر اور ابن عمر ؓ سے اس طرح روایت کیا۔ (23) طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص جو علم حاصل کرتا ہے پھر اس کو بیان نہیں کرتا اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو خزانہ جمع کرتا ہے اور اس میں سے خرچ نہیں کرتا ہے۔ (24) ابن ابی شیبہ اور احمد نے الزہد میں سلمان ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا وہ علم جو بیان نہ کیا جائے وہ اس خزانے کی طرح ہے جس میں سے خرچ نہ کیا جائے۔ (25) ابن سعد، عبد بن حمید، بخاری، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ اگر یہ آیت لفظ آیت ” ان الذین یکتمون ما انزلنا من البینت والھدی “ سے لے کر لفظ آیت ” اللاعنون “ تک قرآن میں نہ ہوتی تو میں کسی کے سامنے کچھ بیان نہ کرتا پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی۔ (26) ابو داؤد نے اپنی ناسخ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان الذین یکتمون ما انزلنا من البینت والھدی “ الی قولہ ” اللاعنون “ تک پھر اس آیت کے حکم سے لفظ آیت ” الا الذین تابوا واصلحوا وبینوا “ مستثنی ہے۔ (27) عبد بن حمید نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الا الذین تابوا واصلحوا وبینوا “ سے مراد ہے کہ یہ کفارہ ہے اس کے لئے۔ (28) عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الا الذین تابوا واصلحوا “ سے مراد ہے کہ وہ جو ان کے پاس اللہ تعالیٰ سے آیا اس کو بیان کیا اور انہوں نے اس کو نہ چھپایا اور نہ اس کا انکار کیا۔ (29) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” اتوب علیہم “ کا مطلب یہ ہے کہ میں ان سے تجاوز کروں گا۔ واما قولہ تعالیٰ : ” وانا التواب “ (30) سعید بن منصور، ابن ابی حاتم، ابو نعیم نے الحلیہ میں ابو زرعہ بن جریر ؓ سے روایت کیا کہ سب سے پہلے جو چیز لکھی گئی تھی وہ یہ تھی لفظ آیت ” انا التواب اتوب علی من تاب “ میں بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا ہوں اور میں اس کی توبہ قبول کروں گا جو توبہ کرے گا۔
Top