Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 269
یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا١ؕ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
يُّؤْتِي
: وہ عطا کرتا ہے
الْحِكْمَةَ
: حکمت، دانائی
مَنْ
: جسے
يَّشَآءُ
: وہ چاہتا ہے
وَ
: اور
مَنْ
: جسے
يُّؤْتَ
: دی گئی
الْحِكْمَةَ
: حکمت
فَقَدْ اُوْتِيَ
: تحقیق دی گئی
خَيْرًا
: بھلائی
كَثِيْرًا
: بہت
وَمَا
: اور نہیں
يَذَّكَّرُ
: نصیحت قبول کرتا
اِلَّآ
: سوائے
اُولُوا الْاَلْبَابِ
: عقل والے
اللہ تعالیٰ جس کو چاہے حکمت عنایت فرماتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی ، اسے بہت زیادہ بھلائی عطا کی گئی ، اور نہیں نصیحت قبول کرتے مگر وہ لوگ جو عقل والے ہیں
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے صدقہ و خیرات کی قبولیت سے متعلق چار شرائط کا ذکر فرمایا ہے جن میں خیرات دیکر احسان نہ جتلانا ، ایذا نہ پہنچانا ، ریا کاری سے اجتناب اور پاکیزگی مال شامل ہیں ۔ باقی شرائط کا ذکر اگلے دروس میں آئے گا ۔ یہاں درمیان میں اللہ تعالیٰ نے حکمت کی تشریح بیان کی ہے اور اسے خیر کثیر سے تعبیر کیا ہے۔ اس میں نذر ماننے کے متعلق بیان بھی ہے کہ یہ کس حد تک جائز ہے۔ حکمت کا مفہوم ارشاد ربانی ہے ۔ یوتی الحکمۃ من یشاء اللہ تعالیٰ جسے چاہے حکمت عطا کرتا ہے ، حکمت کا مادہ احکام سے نکلا ہے ، جو پختگی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، لہٰذا حکمت سے مراد وہ چیز ہے جو پختہ ہو اور پھر صدقہ کے ساتھ اس کے مختلف اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ حکمت کا عام معنی فہم اور سمجھ کیا جاتا ہے بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں العلم النافع المودی الی العمل یعنی حکمت ایسے علم کو کہا جاتا ہے ،۔ جو مفید ہو اور انسان کو عمل تک پہنچائے۔ امام مالک (رح) حکمت کا معنی سنت کرتے ہیں ۔ حکیم خدا تعالیٰ کی صفت بھی ہے اور قرآن کریم کو بھی حکمت کہا گیا ہے اور حضور ﷺ کی سنت مبارکہ کو بھی حکمت کا نام دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ باقی سمجھ یا دانائی کی باتیں بھی حکمت میں شمار ہوتی ہیں۔ حضرت لقمان (رح) کے نام پر قرآن پاک میں سورة موجود ہے ۔ آپ نبی نہیں تھے ، بلکہ حکیم تھے عربی میں حکیم اس شخص کو کہتے ہیں من اتقن العلم والعمل جو علم اور عمل دونوں ۔۔۔ میں پختہ ہو ۔ علاج معالجہ کرنے والے کو عربی زبان میں حکیم نہیں بلکہ طبیب کہتے ہیں ۔ بہر حال حکمت کا اعلیٰ ترین درجہ انبیاء (علیہم السلام) کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ عام مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ جس کو چاہے حکمت و دانائی میں حصہ عطا کرتا ہے۔ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی سمجھ بہت بڑی حکمت ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ عطا کر دے۔ حضرت علی ؓ کی روایت میں آتا ہے ۔ حضور ﷺ نے ہمیں عام مسلمانوں سے الگ کوئی خاص چیز نہیں دی ۔ او فھما اوتیہ رجل ہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی سمجھ دے دی ہو ، تو اس سے انکار نہیں کرتے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے اور خاص طور پر پورے دین کا فہم اور سمجھ حکمت ہے ترمذی شریف کی روایت میں حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے منافق کو دو چیزوں سے محروم رکھا ہے ، ایک اچھا اخلاق اور دوسرے دین کی سمجھ ۔ بخاری شریف کی روایت میں حضور کا فرمان ہے من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین اللہ تعالیٰ جس کے بارے میں بہتری کا ارادہ فرماتا ہے۔ اسے دین میں سمجھ عطا کرتا ہے ، پھر جب اس سمجھ کے مطابق عمل کرتا ہے ، تو ایسا شخص ہی حکیم کہلاتا ہے۔ اس زمانہ میں حکیم کے ہم معنی الفاظ دانشور ، علامہ یا ڈاکٹر ( پی ایچ ڈی) وغیرہ استعمال کیے جاتے ہیں ، مگر یہ استعمال درست ہیں ہے ۔ حکیم کے لیے ضروری ہے کہ علم کی پختگی کے ساتھ اس پر عمل بھی ہو ۔ موجودہ دور میں بیشک بڑی بڑی ڈگریاں تو حاصل کرلی جاتی ہیں ، مگر وہ عمل کہاں ہے جو حکمت کی اصل روح ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ راس الحکمۃ مخافۃ اللہ حکمت کی جڑ اور بنیاد خوف الٰہی ہے ۔ حکیم وہی ہو سکتا ہے ۔ جس کے دل میں خوف خدا ہو ، وگرنہ محض علم حاصل کرنے سے کوئی شخص حکیم نہیں ہو سکتا ۔ انفاق پر حکمت کا اثر گزشتہ درس میں گزر چکا ہے کہ شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے۔ شیطان انسان کو یہ پٹی پڑھاتا ہے کہ دیکھو اپنے مال کو خرچ نہ کرنا ، اگر خرچ کردیا تو تم مفلس ہو جائو گے ۔ تمہارے بیوی بچے بھوکوں مر جائیں گے ، تمہارا بڑھاپے کا سہارا ختم ہوجائے گا ، وغیرہ وغیرہ ۔ اس شیطای وسوسے سے وہی شخص بچ سکتا ہے جسے قرآن پاک کا فہم ہوگا ۔ فہم قرآنی والا شخص ہی سوچے گا کہ انفاق فی سبیل اللہ اسے مال کم نہیں ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ اس میں مزید برکت دینگے ، اسی چیز کا نام حکمت ہے اسی طرح گویا حکمت انفاق سبیل اللہ پر اثر انداز نہیں ہوگا۔ حکمت منبع حسات ہے فرمایا اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے۔ ہر آدمی حکمت حاصل نہیں کرسکتا ، البتہ جس شخص میں جس قدر حکمت کے حصول کی استعداد ہوتی ہے۔ اسکے مطابق وہ اپنا حصہ وصول کرلیتا ہے اور پھر اس کا نتیجہ یہ کلتا ہے ومن یوت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا ً جسے حکمت عطا کردی گئی ، اسے خیر کثیر سے نوازا گیا ۔ گویا حکمت یعنی فہم قرآن یا فہم دین تمام خوبیوں کا منبع ہے اور فہم علم کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اور علم کی روشنی دینی مدارس میں پھیلا رہے ہیں ۔ برصغیر میں دارالعلوم دیو بند تقریباً سوا سو سال سے مصروف کار ہے۔ اس نے ایک صدی کے عرصہ میں چالیس ہزار علماء تیار کیے ہیں ، جو صحیح معنوں میں دین کا فہم رکھنے والے لوگ ہیں ۔ انہوں نے دنیا کے کونے کونے میں علم دین کی شمع روشن کی ہے۔ حضرت علی ؓ اپنے بیٹوں کو نصیحت فرما رہے تھے ، انہوں نے شکوے کے طور پر فرمایا بہت سے آدمی شکل و صورت میں انسان نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں وہ جانوروں جیسے ہیں ۔ جب مال میں کمی واقع ہوتی ہے تو فوراً سمجھ جاتے ہیں مگر دین سارے کا سارا دین بھی برباد ہوجائے تو انہیں کچھ پروا نہیں ۔ حضرت شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ عقل دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک عقل وہ ہے جو ماہر معاشیات ہے۔ معاش میں ذرہ بھرکمی بیشی آئے تو فوراً سمجھ جاتے ہیں ، مگر دین کے معاملے میں بڑے سے بڑا نقصان بھی انہیں اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتا۔ دنیا کے بڑے بڑے فلاسفروں ، بیرسٹروں اور دانش وروں میں یہی خرابی پائی جاتی ہے کہ ان کی عقل معاش تو اعلیٰ درجے کا ہے مگر وہ معاد کے معاملے میں بالکل کورے ہیں۔ حقیقت میں کامل شخص وہ ہے جو قیامت اور اپنی باز گشت کے مقام کو سمجھتا ہے ۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے صدقات و خیرات کے ضمن میں یہ آیات نازل فرمائیں۔ گفت حکمت ر خدا خیر کثیر ہر کجا ایں خیر را بینی بگیر اللہ تعالیٰ نے حکمت کو خیر کثیر فرمایا ہے ، یہ جس جگہ بھی ملے اس کو اختیار کرلو ، ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے۔ کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المون حکمت کی بات مومن کی گم شدہ چیز ہے۔ اسے جہاں پاتا ہے ، حاصل کرلیتا ہے۔ حکمت ہی ایسی چیز ہے جو مومن کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے ۔ لہٰذا مومن ہمیشہ اس کا متلاشی رہتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے کسی اعلیٰ عہدہ منصب یا کسی دوسری قیمتی یا قیمتی چیز کو خیر کثیر سے تعبیر نہیں کیا ، مگر یہ لقب صرف حکمت کو عطا ہوا ، کیونکہ حکمت تمام خوبیوں کا منبع ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ حکمت کی انتہاء یہ ہے کہ انسان افضل الاشیا کو افضل العلوم سے معلوم کرے۔ افضل الاشیاء خدا تعالیٰ کی ذات ، وحدانیت اور اس کی صفات ہیں ، لہٰذا جو شخص علم کے ذریعے اس راز کو پا لے گا ، وہی صاحب حکمت ہوگا اور پھر علم بھی محض زبانی کلامی نہ ہو ، بلکہ اس میں دل کی حضوری اور عقل کا کمال شامل ہو ، لہٰذا جسے حکمت عطا کی گئی اسے گویا بہت بہتری دے دی گئی اور یہی چیز منبع صفات اور ہر چیز کی جڑ اور بنیاد ہے۔ فرمایا وما یذکر الا اولوالالباب یاد رکھو نصیحت قبول نہیں کرتے۔ مگر وہ جو عقل والے ہیں اور پھر عقل کو صحیح طور پر استعمال بھی کریں۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے الصم البکم الذین لا یعقلون وہ لوگ بہرے اور گونگے ہیں ۔ جو عقل کو درست طریقے سے استعمال نہیں کرتے کافروں کی مثال اللہ نے بیان فرمائی کہ وہ جانوروں سے بھی مدبر ہیں ۔ اولئک کالا نعام بل ھم اضل کیونکہ جانور بھی بعض باتیں سمجھتے ہیں ، مگر جو لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں ، وہ کچھ بھی نہیں سمجھتے ۔ فرمایا نصیحت کو بھی وہی شخص قبول کرتا ہے ، جس کے اندر دانائی اور عقل ہوگی ، دوسرے شخص کو نصیحت سے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا۔ مسئلہ نذر انفاق فی سبیل اللہ ہی کے ضمن میں یہاں پر نذر کا مسئلہ بیان ہو رہا ہے۔ وما انفتسم من نفقۃ اور تم جو بھی خرچ کرو کوئی خرچہ ہو مطلب صدقہ و خیرات ہی ہے۔ او نذرتم من نذر یا کوئی نذر مانو فان اللہ یعلمہ اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے۔ یہاں پر نذر کو صدقہ کے مقابلہ میں ذکر کیا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ صدقہ و خیرات تو بلا شبہ حسنات میں سے ہے۔ مگر نذر جائز ہونے کے باوجود خطرے سے خالی نہیں ، چناچہ حدیث شریف میں آیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نذر نہ مانا کرو ، کیونکہ یہ آدمی کو تقدیر سے نہیں بچا سکتی ۔ حدیث کے الفاظ ہیں لا یغنی نذر عن قدر جو کچھ تقدیر میں ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ نذرز بخیل لوگ مانتے ہیں ، وگرنہ فیاض آدمی شرط نہیں لگاتے۔ وہ تو غیر مشروط طور پر اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں۔ گویا نذر ماننا مشروط عبادت ہے کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اتنے نوافل ادا کرونگا یا روزے رکھوں گا یا اتنا صدقہ خیرات کروں گا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرط ۔۔۔ باندھنے والی بات ہے اور پھر یہ ہے کہ جب وہ کام ہوجائے تو نذر کا پورا کرنا ضروری ہوجاتا ہے بشرطیکہ وہ نذر جائز ہو اور اگر نذر کو پورا نہ کیا تو انسان گناہ گار ہوتا ہے۔ نذر معصیت حضورعلیہ السلام کا فرمان ہے لا نذر فی معصیۃ اللہ گناہ کے کام میں نذر ماننا جائز نہیں اور اگر ایسا کر ہی لیا ہے تو پھر اس کا پورا کرنا درست نہیں بلکہ اس کو توڑ کر نذر کا کفارہ ادا کردینا چاہئے۔ فقہ کا مسئلہ ہے النذر عبادۃ منت بمنزلہ عبادت ہے اور عبادت بدنی بھی ہو سکتی ہے اور مالی بھی ، بدنی عبادت کی مثال نوافل یا روزے ہیں اور مالی عبادت میں صدقہ خیرات یا جانور ذبح کرنا ہے اسی لیے فرمایا کہ گناہ کے کام کے لیے یہ عبادت جائز نہیں ہے اور اگر نذ ر غیر اللہ کے تقرب کے لیے مانی جائے تو یہ شرک بن جاتا ہے۔ جیسا کہ ہماری فقہ کی کتابوں عالمگیری اور شامی وغیر ہ میں موجود ہے فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ جو لوگ قبروں کا غلاف پکڑتے ہیں اور نذر مانتے ہیں کہ اے بزرگ ! اگر میرافلاں کام ہوگیا تو تمہارے دربار فلاں نذرانہ پیش کروں گا ، فرمایا ایسی چیز بالا جماع باطل اور حرام ہے کیونکہ نذر عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ ہی کی ہو سکتی ہے۔ ہاں اگر ایسی منت مانے کہ اگر فلاں کام ہوگیا تو اسی بزرگ کو ایصال ثواب کے لیے محتاجوں کی یہ خدمت کروں گا تو وہ الگ بات ہے اور اگر بزرگ کو ہی حاجت روا سمجھ لیا تو کفر شرک میں مبتلا ہوگیا ۔ اسی لیے امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ معصیت کی نذر سرے سے نذر ہوتی ہی نہیں ۔ جیسے کوئی کہے کہ فلاں کام ہونے پر دس آدمیوں کو شراب پلائوں گا ۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ مزاروں پر تیل چڑھانا ، موم بتیاں جلانا ، چادریں چڑھانا ، بکرے چڑھانا یہ سب باطل اور ناجائز منت میں شامل ہیں اور اگر ایسا کرنے سے مراد بزرگ کی قربت حاصل کرنا ہے ۔ تو پھر بھی شرک میں داخل ہے اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ خدا کے علاوہ یہ بھی ہماری حاجات پوری کرتے ہیں تو بھی کفر ہے اور اگر محض مجاوروں کو کھلانا مقصود ہے تو یہ تخصیص بھی غلط ہے۔ اپنے گلی محلے ، گائوں شہر کے غرباء و مساکین کو کھلائو ، ان کی جائز ضروریات کا خیال رکھو۔ مزاروں پر تو عموماً اوباش قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ اگر نیت درست بھی ہو ، تو بھی ایسے لوگوں کو کھلانا جائز نہیں ۔ کیونکہ وہ ” محتاج نہیں بلکہ پیشہ ور گدا گر ہیں ، مزاروں پر موجود انتظامی عملہ بھی کھانے پینے میں شریک ہوتا ہے ۔ حالانکہ وہ بھی اس کے حق دار نہیں ہوتے اگر صاحب نصاب ہے تو منت کا مال تو خود منت ماننے والا بھی نہیں کھا سکتا ۔ جس طرح زکوٰۃ کے حق دار صرف اس کے مستحقین ہیں ۔ اسی طرح نذر کا مال بھی غرباء و مساکین کا حق ہے ، لہٰذا نذر کا مال قبروں کے مجاوروں اور دیگر لواحقین کو کھانا کسی طور پر جائز نہیں۔ تا ہم امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد (رح) فرماتے ہیں کہ معصیت کی نذر بطور نذر تو ہوجاتی ہے۔ مگر اس کو توڑنا ضروی ہے ۔ حدیث شریف کے الفاظ ہیں کفارتہ کفارۃ الیمین اس قسم کی نذر کو توڑ کر اس کا کفارہ ادا کردو مگر معصیت کی نذر کو پوا نہ کرو نذر کا کفارہ بھی وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے یعنی دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا کپڑے پہنانا ، ایک غلام آزاد کرنا ، یا تین روزے رکھنا ، ہاں اگر نذر جائز ہے تو اس کو پورا کرنا چاہئے ، جیسے مسجد میں چٹائیاں بچھا دے ، طالب علموں کو کھانا کھلا دے ، ان کی کتب کا بندوست کر دے وغیرہ وغیرہ۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم جو بھی نذر مانو فان اللہ یعلمہ تو اللہ تعالیٰ اس کو خوب جانتا ہے کہ تم نے کس نیت کے ساتھ منت مانی ہے نذر جائز ہے یا ناجائز ، تم لوگوں کو دھوکا دے سکتے ہو کہ فلاں کام فلاں نیت سے کیا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ تو تمہارے دلوں کے رازوں سے واقف ہے ، وہ تمہاری ظاہر اور پوشیدہ سب باتوں کو جانتا ہے۔ ظالم بےیارو مدد گار ہونگے وما للظلمین من انصار ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ہوگا ، شرک سب سے بڑا ظلم ہے ، لہٰذا جو کوئی شرک کا ارتکاب کرتا ہے۔ کفر کرتا ہے ، غیر اللہ کی منت مانتا ہے۔ مستحقین کو نظر انداز کرتا ہے کسی قسم کی زیادتی کرتا ہے ، حق تلفی کا مرتکب ہوتا ہے۔ غرضیکہ جو بھی کوئی بڑے سے بڑا یا چھوٹے سے چھوٹا ظلم کریگا ، وہ مدد کے قابل نہیں ہے ، اس کا کوئی مدد گار نہیں ہوگا ، جو شخص نماز نہیں پڑھتا ، جنابت کی حالت میں غسل نہیں کرتا روزنہ نہیں رکھتا گویا اپنے آپ پر ظلم کر رہا ہے۔ استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا ، فرائض کو ترک کرنا ، کسی کو تنگ کرنا یہ سب ظلم میں شمار ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے الظلم ظلمات یوم القیامۃ قیامت کے روز اس دنیا میں کیا ہوا ظلم اندھیروں کی صورت میں سامنے آئے گا اس لیے فرمایا اسدن ظلم کرنے والوں کا کوئی یارو مد دگار نہیں ہوگا ظالم اپنے ظلم کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہوں گے مگر ان کی خلاصی کے لیے کوئی مدد نہیں پہنچے گی ، لہٰذا انسان کو چاہئے کہ نہ عبادت میں ظلم کا ارتکاب کرے ، نہ معاملات میں اور نہ حقوق میں غرض کسی چیز میں ظلم نہیں کرنا چاہئے۔
Top