Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 269
یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا١ؕ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
يُّؤْتِي : وہ عطا کرتا ہے الْحِكْمَةَ : حکمت، دانائی مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَ : اور مَنْ : جسے يُّؤْتَ : دی گئی الْحِكْمَةَ : حکمت فَقَدْ اُوْتِيَ : تحقیق دی گئی خَيْرًا : بھلائی كَثِيْرًا : بہت وَمَا : اور نہیں يَذَّكَّرُ : نصیحت قبول کرتا اِلَّآ : سوائے اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
اللہ تعالیٰ جس کو چاہے حکمت عنایت فرماتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی ، اسے بہت زیادہ بھلائی عطا کی گئی ، اور نہیں نصیحت قبول کرتے مگر وہ لوگ جو عقل والے ہیں
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے صدقہ و خیرات کی قبولیت سے متعلق چار شرائط کا ذکر فرمایا ہے جن میں خیرات دیکر احسان نہ جتلانا ، ایذا نہ پہنچانا ، ریا کاری سے اجتناب اور پاکیزگی مال شامل ہیں ۔ باقی شرائط کا ذکر اگلے دروس میں آئے گا ۔ یہاں درمیان میں اللہ تعالیٰ نے حکمت کی تشریح بیان کی ہے اور اسے خیر کثیر سے تعبیر کیا ہے۔ اس میں نذر ماننے کے متعلق بیان بھی ہے کہ یہ کس حد تک جائز ہے۔ حکمت کا مفہوم ارشاد ربانی ہے ۔ یوتی الحکمۃ من یشاء اللہ تعالیٰ جسے چاہے حکمت عطا کرتا ہے ، حکمت کا مادہ احکام سے نکلا ہے ، جو پختگی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، لہٰذا حکمت سے مراد وہ چیز ہے جو پختہ ہو اور پھر صدقہ کے ساتھ اس کے مختلف اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ حکمت کا عام معنی فہم اور سمجھ کیا جاتا ہے بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں العلم النافع المودی الی العمل یعنی حکمت ایسے علم کو کہا جاتا ہے ،۔ جو مفید ہو اور انسان کو عمل تک پہنچائے۔ امام مالک (رح) حکمت کا معنی سنت کرتے ہیں ۔ حکیم خدا تعالیٰ کی صفت بھی ہے اور قرآن کریم کو بھی حکمت کہا گیا ہے اور حضور ﷺ کی سنت مبارکہ کو بھی حکمت کا نام دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ باقی سمجھ یا دانائی کی باتیں بھی حکمت میں شمار ہوتی ہیں۔ حضرت لقمان (رح) کے نام پر قرآن پاک میں سورة موجود ہے ۔ آپ نبی نہیں تھے ، بلکہ حکیم تھے عربی میں حکیم اس شخص کو کہتے ہیں من اتقن العلم والعمل جو علم اور عمل دونوں ۔۔۔ میں پختہ ہو ۔ علاج معالجہ کرنے والے کو عربی زبان میں حکیم نہیں بلکہ طبیب کہتے ہیں ۔ بہر حال حکمت کا اعلیٰ ترین درجہ انبیاء (علیہم السلام) کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ عام مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ جس کو چاہے حکمت و دانائی میں حصہ عطا کرتا ہے۔ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی سمجھ بہت بڑی حکمت ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ عطا کر دے۔ حضرت علی ؓ کی روایت میں آتا ہے ۔ حضور ﷺ نے ہمیں عام مسلمانوں سے الگ کوئی خاص چیز نہیں دی ۔ او فھما اوتیہ رجل ہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی سمجھ دے دی ہو ، تو اس سے انکار نہیں کرتے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے اور خاص طور پر پورے دین کا فہم اور سمجھ حکمت ہے ترمذی شریف کی روایت میں حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے منافق کو دو چیزوں سے محروم رکھا ہے ، ایک اچھا اخلاق اور دوسرے دین کی سمجھ ۔ بخاری شریف کی روایت میں حضور کا فرمان ہے من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین اللہ تعالیٰ جس کے بارے میں بہتری کا ارادہ فرماتا ہے۔ اسے دین میں سمجھ عطا کرتا ہے ، پھر جب اس سمجھ کے مطابق عمل کرتا ہے ، تو ایسا شخص ہی حکیم کہلاتا ہے۔ اس زمانہ میں حکیم کے ہم معنی الفاظ دانشور ، علامہ یا ڈاکٹر ( پی ایچ ڈی) وغیرہ استعمال کیے جاتے ہیں ، مگر یہ استعمال درست ہیں ہے ۔ حکیم کے لیے ضروری ہے کہ علم کی پختگی کے ساتھ اس پر عمل بھی ہو ۔ موجودہ دور میں بیشک بڑی بڑی ڈگریاں تو حاصل کرلی جاتی ہیں ، مگر وہ عمل کہاں ہے جو حکمت کی اصل روح ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ راس الحکمۃ مخافۃ اللہ حکمت کی جڑ اور بنیاد خوف الٰہی ہے ۔ حکیم وہی ہو سکتا ہے ۔ جس کے دل میں خوف خدا ہو ، وگرنہ محض علم حاصل کرنے سے کوئی شخص حکیم نہیں ہو سکتا ۔ انفاق پر حکمت کا اثر گزشتہ درس میں گزر چکا ہے کہ شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے۔ شیطان انسان کو یہ پٹی پڑھاتا ہے کہ دیکھو اپنے مال کو خرچ نہ کرنا ، اگر خرچ کردیا تو تم مفلس ہو جائو گے ۔ تمہارے بیوی بچے بھوکوں مر جائیں گے ، تمہارا بڑھاپے کا سہارا ختم ہوجائے گا ، وغیرہ وغیرہ ۔ اس شیطای وسوسے سے وہی شخص بچ سکتا ہے جسے قرآن پاک کا فہم ہوگا ۔ فہم قرآنی والا شخص ہی سوچے گا کہ انفاق فی سبیل اللہ اسے مال کم نہیں ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ اس میں مزید برکت دینگے ، اسی چیز کا نام حکمت ہے اسی طرح گویا حکمت انفاق سبیل اللہ پر اثر انداز نہیں ہوگا۔ حکمت منبع حسات ہے فرمایا اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے۔ ہر آدمی حکمت حاصل نہیں کرسکتا ، البتہ جس شخص میں جس قدر حکمت کے حصول کی استعداد ہوتی ہے۔ اسکے مطابق وہ اپنا حصہ وصول کرلیتا ہے اور پھر اس کا نتیجہ یہ کلتا ہے ومن یوت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا ً جسے حکمت عطا کردی گئی ، اسے خیر کثیر سے نوازا گیا ۔ گویا حکمت یعنی فہم قرآن یا فہم دین تمام خوبیوں کا منبع ہے اور فہم علم کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اور علم کی روشنی دینی مدارس میں پھیلا رہے ہیں ۔ برصغیر میں دارالعلوم دیو بند تقریباً سوا سو سال سے مصروف کار ہے۔ اس نے ایک صدی کے عرصہ میں چالیس ہزار علماء تیار کیے ہیں ، جو صحیح معنوں میں دین کا فہم رکھنے والے لوگ ہیں ۔ انہوں نے دنیا کے کونے کونے میں علم دین کی شمع روشن کی ہے۔ حضرت علی ؓ اپنے بیٹوں کو نصیحت فرما رہے تھے ، انہوں نے شکوے کے طور پر فرمایا بہت سے آدمی شکل و صورت میں انسان نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں وہ جانوروں جیسے ہیں ۔ جب مال میں کمی واقع ہوتی ہے تو فوراً سمجھ جاتے ہیں مگر دین سارے کا سارا دین بھی برباد ہوجائے تو انہیں کچھ پروا نہیں ۔ حضرت شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ عقل دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک عقل وہ ہے جو ماہر معاشیات ہے۔ معاش میں ذرہ بھرکمی بیشی آئے تو فوراً سمجھ جاتے ہیں ، مگر دین کے معاملے میں بڑے سے بڑا نقصان بھی انہیں اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتا۔ دنیا کے بڑے بڑے فلاسفروں ، بیرسٹروں اور دانش وروں میں یہی خرابی پائی جاتی ہے کہ ان کی عقل معاش تو اعلیٰ درجے کا ہے مگر وہ معاد کے معاملے میں بالکل کورے ہیں۔ حقیقت میں کامل شخص وہ ہے جو قیامت اور اپنی باز گشت کے مقام کو سمجھتا ہے ۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے صدقات و خیرات کے ضمن میں یہ آیات نازل فرمائیں۔ گفت حکمت ر خدا خیر کثیر ہر کجا ایں خیر را بینی بگیر اللہ تعالیٰ نے حکمت کو خیر کثیر فرمایا ہے ، یہ جس جگہ بھی ملے اس کو اختیار کرلو ، ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے۔ کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المون حکمت کی بات مومن کی گم شدہ چیز ہے۔ اسے جہاں پاتا ہے ، حاصل کرلیتا ہے۔ حکمت ہی ایسی چیز ہے جو مومن کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے ۔ لہٰذا مومن ہمیشہ اس کا متلاشی رہتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے کسی اعلیٰ عہدہ منصب یا کسی دوسری قیمتی یا قیمتی چیز کو خیر کثیر سے تعبیر نہیں کیا ، مگر یہ لقب صرف حکمت کو عطا ہوا ، کیونکہ حکمت تمام خوبیوں کا منبع ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ حکمت کی انتہاء یہ ہے کہ انسان افضل الاشیا کو افضل العلوم سے معلوم کرے۔ افضل الاشیاء خدا تعالیٰ کی ذات ، وحدانیت اور اس کی صفات ہیں ، لہٰذا جو شخص علم کے ذریعے اس راز کو پا لے گا ، وہی صاحب حکمت ہوگا اور پھر علم بھی محض زبانی کلامی نہ ہو ، بلکہ اس میں دل کی حضوری اور عقل کا کمال شامل ہو ، لہٰذا جسے حکمت عطا کی گئی اسے گویا بہت بہتری دے دی گئی اور یہی چیز منبع صفات اور ہر چیز کی جڑ اور بنیاد ہے۔ فرمایا وما یذکر الا اولوالالباب یاد رکھو نصیحت قبول نہیں کرتے۔ مگر وہ جو عقل والے ہیں اور پھر عقل کو صحیح طور پر استعمال بھی کریں۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے الصم البکم الذین لا یعقلون وہ لوگ بہرے اور گونگے ہیں ۔ جو عقل کو درست طریقے سے استعمال نہیں کرتے کافروں کی مثال اللہ نے بیان فرمائی کہ وہ جانوروں سے بھی مدبر ہیں ۔ اولئک کالا نعام بل ھم اضل کیونکہ جانور بھی بعض باتیں سمجھتے ہیں ، مگر جو لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں ، وہ کچھ بھی نہیں سمجھتے ۔ فرمایا نصیحت کو بھی وہی شخص قبول کرتا ہے ، جس کے اندر دانائی اور عقل ہوگی ، دوسرے شخص کو نصیحت سے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا۔ مسئلہ نذر انفاق فی سبیل اللہ ہی کے ضمن میں یہاں پر نذر کا مسئلہ بیان ہو رہا ہے۔ وما انفتسم من نفقۃ اور تم جو بھی خرچ کرو کوئی خرچہ ہو مطلب صدقہ و خیرات ہی ہے۔ او نذرتم من نذر یا کوئی نذر مانو فان اللہ یعلمہ اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے۔ یہاں پر نذر کو صدقہ کے مقابلہ میں ذکر کیا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ صدقہ و خیرات تو بلا شبہ حسنات میں سے ہے۔ مگر نذر جائز ہونے کے باوجود خطرے سے خالی نہیں ، چناچہ حدیث شریف میں آیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نذر نہ مانا کرو ، کیونکہ یہ آدمی کو تقدیر سے نہیں بچا سکتی ۔ حدیث کے الفاظ ہیں لا یغنی نذر عن قدر جو کچھ تقدیر میں ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ نذرز بخیل لوگ مانتے ہیں ، وگرنہ فیاض آدمی شرط نہیں لگاتے۔ وہ تو غیر مشروط طور پر اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں۔ گویا نذر ماننا مشروط عبادت ہے کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اتنے نوافل ادا کرونگا یا روزے رکھوں گا یا اتنا صدقہ خیرات کروں گا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرط ۔۔۔ باندھنے والی بات ہے اور پھر یہ ہے کہ جب وہ کام ہوجائے تو نذر کا پورا کرنا ضروری ہوجاتا ہے بشرطیکہ وہ نذر جائز ہو اور اگر نذر کو پورا نہ کیا تو انسان گناہ گار ہوتا ہے۔ نذر معصیت حضورعلیہ السلام کا فرمان ہے لا نذر فی معصیۃ اللہ گناہ کے کام میں نذر ماننا جائز نہیں اور اگر ایسا کر ہی لیا ہے تو پھر اس کا پورا کرنا درست نہیں بلکہ اس کو توڑ کر نذر کا کفارہ ادا کردینا چاہئے۔ فقہ کا مسئلہ ہے النذر عبادۃ منت بمنزلہ عبادت ہے اور عبادت بدنی بھی ہو سکتی ہے اور مالی بھی ، بدنی عبادت کی مثال نوافل یا روزے ہیں اور مالی عبادت میں صدقہ خیرات یا جانور ذبح کرنا ہے اسی لیے فرمایا کہ گناہ کے کام کے لیے یہ عبادت جائز نہیں ہے اور اگر نذ ر غیر اللہ کے تقرب کے لیے مانی جائے تو یہ شرک بن جاتا ہے۔ جیسا کہ ہماری فقہ کی کتابوں عالمگیری اور شامی وغیر ہ میں موجود ہے فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ جو لوگ قبروں کا غلاف پکڑتے ہیں اور نذر مانتے ہیں کہ اے بزرگ ! اگر میرافلاں کام ہوگیا تو تمہارے دربار فلاں نذرانہ پیش کروں گا ، فرمایا ایسی چیز بالا جماع باطل اور حرام ہے کیونکہ نذر عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ ہی کی ہو سکتی ہے۔ ہاں اگر ایسی منت مانے کہ اگر فلاں کام ہوگیا تو اسی بزرگ کو ایصال ثواب کے لیے محتاجوں کی یہ خدمت کروں گا تو وہ الگ بات ہے اور اگر بزرگ کو ہی حاجت روا سمجھ لیا تو کفر شرک میں مبتلا ہوگیا ۔ اسی لیے امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ معصیت کی نذر سرے سے نذر ہوتی ہی نہیں ۔ جیسے کوئی کہے کہ فلاں کام ہونے پر دس آدمیوں کو شراب پلائوں گا ۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ مزاروں پر تیل چڑھانا ، موم بتیاں جلانا ، چادریں چڑھانا ، بکرے چڑھانا یہ سب باطل اور ناجائز منت میں شامل ہیں اور اگر ایسا کرنے سے مراد بزرگ کی قربت حاصل کرنا ہے ۔ تو پھر بھی شرک میں داخل ہے اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ خدا کے علاوہ یہ بھی ہماری حاجات پوری کرتے ہیں تو بھی کفر ہے اور اگر محض مجاوروں کو کھلانا مقصود ہے تو یہ تخصیص بھی غلط ہے۔ اپنے گلی محلے ، گائوں شہر کے غرباء و مساکین کو کھلائو ، ان کی جائز ضروریات کا خیال رکھو۔ مزاروں پر تو عموماً اوباش قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ اگر نیت درست بھی ہو ، تو بھی ایسے لوگوں کو کھلانا جائز نہیں ۔ کیونکہ وہ ” محتاج نہیں بلکہ پیشہ ور گدا گر ہیں ، مزاروں پر موجود انتظامی عملہ بھی کھانے پینے میں شریک ہوتا ہے ۔ حالانکہ وہ بھی اس کے حق دار نہیں ہوتے اگر صاحب نصاب ہے تو منت کا مال تو خود منت ماننے والا بھی نہیں کھا سکتا ۔ جس طرح زکوٰۃ کے حق دار صرف اس کے مستحقین ہیں ۔ اسی طرح نذر کا مال بھی غرباء و مساکین کا حق ہے ، لہٰذا نذر کا مال قبروں کے مجاوروں اور دیگر لواحقین کو کھانا کسی طور پر جائز نہیں۔ تا ہم امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد (رح) فرماتے ہیں کہ معصیت کی نذر بطور نذر تو ہوجاتی ہے۔ مگر اس کو توڑنا ضروی ہے ۔ حدیث شریف کے الفاظ ہیں کفارتہ کفارۃ الیمین اس قسم کی نذر کو توڑ کر اس کا کفارہ ادا کردو مگر معصیت کی نذر کو پوا نہ کرو نذر کا کفارہ بھی وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے یعنی دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا کپڑے پہنانا ، ایک غلام آزاد کرنا ، یا تین روزے رکھنا ، ہاں اگر نذر جائز ہے تو اس کو پورا کرنا چاہئے ، جیسے مسجد میں چٹائیاں بچھا دے ، طالب علموں کو کھانا کھلا دے ، ان کی کتب کا بندوست کر دے وغیرہ وغیرہ۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم جو بھی نذر مانو فان اللہ یعلمہ تو اللہ تعالیٰ اس کو خوب جانتا ہے کہ تم نے کس نیت کے ساتھ منت مانی ہے نذر جائز ہے یا ناجائز ، تم لوگوں کو دھوکا دے سکتے ہو کہ فلاں کام فلاں نیت سے کیا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ تو تمہارے دلوں کے رازوں سے واقف ہے ، وہ تمہاری ظاہر اور پوشیدہ سب باتوں کو جانتا ہے۔ ظالم بےیارو مدد گار ہونگے وما للظلمین من انصار ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ہوگا ، شرک سب سے بڑا ظلم ہے ، لہٰذا جو کوئی شرک کا ارتکاب کرتا ہے۔ کفر کرتا ہے ، غیر اللہ کی منت مانتا ہے۔ مستحقین کو نظر انداز کرتا ہے کسی قسم کی زیادتی کرتا ہے ، حق تلفی کا مرتکب ہوتا ہے۔ غرضیکہ جو بھی کوئی بڑے سے بڑا یا چھوٹے سے چھوٹا ظلم کریگا ، وہ مدد کے قابل نہیں ہے ، اس کا کوئی مدد گار نہیں ہوگا ، جو شخص نماز نہیں پڑھتا ، جنابت کی حالت میں غسل نہیں کرتا روزنہ نہیں رکھتا گویا اپنے آپ پر ظلم کر رہا ہے۔ استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا ، فرائض کو ترک کرنا ، کسی کو تنگ کرنا یہ سب ظلم میں شمار ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے الظلم ظلمات یوم القیامۃ قیامت کے روز اس دنیا میں کیا ہوا ظلم اندھیروں کی صورت میں سامنے آئے گا اس لیے فرمایا اسدن ظلم کرنے والوں کا کوئی یارو مد دگار نہیں ہوگا ظالم اپنے ظلم کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہوں گے مگر ان کی خلاصی کے لیے کوئی مدد نہیں پہنچے گی ، لہٰذا انسان کو چاہئے کہ نہ عبادت میں ظلم کا ارتکاب کرے ، نہ معاملات میں اور نہ حقوق میں غرض کسی چیز میں ظلم نہیں کرنا چاہئے۔
Top