Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 250
وَ لَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِهٖ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَؕ
وَلَمَّا : اور جب بَرَزُوْا : آمنے سامنے لِجَالُوْتَ : جالوت کے وَجُنُوْدِهٖ : اور اس کا لشکر قَالُوْا : انہوں نے کہا رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اَفْرِغْ : ڈال دے عَلَيْنَا : ہم پر صَبْرًا : صبر وَّثَبِّتْ : اور جمادے اَقْدَامَنَا : ہمارے قدم وَانْصُرْنَا : اور ہماری مدد کر عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور جب جالوس اور اس کے لشکر کے سامنے ہوئے تو کہنے لگے اے ہمارے پروردگار ! ہمارے اوپر صبر ڈال دے اور ہمارے قدموں کو ثابت رکھ۔ اور کافر قوم کے مقابلے میں ہماری مدد فرما
ربطہ آیات گذشتہ درس میں طالوت کے لشکر کی روانگی کا تذکرہ تھا کہ جب وہ دشمن کی طرف چلے تو راستے میں طالوت نے اپنی فوج کو آزمایا کہ یہ لوگ کس حد تک تکالیف برداشت کرسکتے ہیں۔ راستے میں نہر پڑتی ہے اللہ کے حکم سے طالوت نے اپنے سپاہیوں کو اس نہر سے پانی پینے سے منع کردیا۔ اور پیاس برداشت کر نیکی تلقین کی۔ ہاں البتہ سخت شدت کی صورت میں چلو بھر پانی پی لینے کی اجازت دی مگر لشکر کی اکثریت پیاس برداشت نہ کرسکی اور انہوں نے خوب سیر ہو کر پانی پیا جسکی وجہ سے ان میں سستی اور کاہلی پیدا ہوگئی اور وہ آگے سفر کرنے کے قابل نہ رہے لہٰذا تھک ہار کر وہیں بیٹھ گئے۔ طالوت صرف 313 سپاہیوں کا لشکر لے کر نہر سے پار ہوئے۔ اب فوج تین گروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے جنہوں نے خوب پانی پیا وہ ناقص الایمان لوگ تھے اور وہ ادھر رہ گئے جو نہر سے پار گئے ان میں بھی دو طرح کے آدمی تھے جنہوں نے چلو بھر پانی پیا تھا وہ کامل الایمان تھے مگر 313 کے مقابلے میں دشمن کی کثیر تعداد دیکھ کر خوفزدہ ہوگئے اور کہنے لگے کہ ہم جالوت کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے تیسرا گروہ جس نے بالکل پانی نہیں پیا تھا وہ اکمل الایمان لوگ تھے جنہوں نے دوسروں کو تسلی دی کہ تعداد کی کثرت اور قلت سے مت گھبرائو۔ دنیا میں کتنے ہی واقعات پیش آچکے ہیں جن میں قلت نے اکثریت کو شکست دی۔ فتح و شکست اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے لہٰذا تم صبرو استقامت پر قائم رہ کر جہاد کرو اللہ تعالیٰ فتح دیگا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ صابروں کے ساتھ ہونا ہے اب آیات زیر درس میں دونوں لشکروں میں جنگ کا حال بیان ہورہا ہے کہ کس طرح بنی اسرائیل نے میدان جنگ میں پہنچ کر اللہ تعالیٰ سے کامیابی کی دعا کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح سے نوازا۔ میدان جنگ میں دعا گذشتہ درس میں اسلامی سپاہ کے اوصاف بیان ہوچکے ہیں کہ ان کے اندر حرص کا مادہ نہیں ہوناچاہئے نیز یہ لوگ صبر و استقلال کے پیکر اور اچھے اخلاق کے حامل ہونے چاہئیں اور ان کا آخری وصف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور کامیابی کے لئے دست بدعا رہتے ہیں۔ آج کے درس میں سب سے پہلے اسی دعا کا ذکر ہے ارشاد ہوتا ہے۔ ولما برزوا لجالوت و جنودہ جب بنی اسرائیل جالوت کے لشکر کے سامنے ہوئے قالوا تو انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے اور کہنے لگے ، ربنا افرغ علینا صبراً اے ہمارے پروردگا ! ہم پر صبر ڈال دے وثبت اقدامنا اور ہمارے قدموں کو ثابت رکھ وانصر نا علی القوم الکفرین اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مددفرما۔ دعا ایک ایسی اعلیٰ وارفع چیز ہے جس کے ذریعے انسان اپنے رب کے ساتھ تعلق قائم کرتا ہے۔ خاص طور پر میدان جنگ میں غیر مسلم قوتیں اپنی طاقت کے غرور میں شراب پی کر اور گانے گاتے ہوئے جنگ کا ابتداء کرتے ہیں۔ جب کہ ایمان والے جنگ شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر فتح کی دعائیں کرتے ہیں کیونکہ دعا ایسی چیز ہے جو ساری عبادت کا نچوڑ ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا الدعاء مح العبادۃ یعنی دعا عبادت کا مغز ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضور ﷺ نے تمام غزوات میں میدان جنگ میں پہنچ کر دعائیں کی ہیں جنگ بدر کے متعلق بخاری ، مسلم نسائی اور حدیث کی دوسری کتب میں مذکور ہے کہ حضور ﷺ نے کس قدر گڑا گڑا کر دعا فرمائی۔ آپ رات بھر عاجزی و انکساری کے ساتھ دعا مانگتے رہے حتیٰ کہ آپ کی چادر مبارک بھی کندھے سے سرک گئی۔ آپ فرما رہے تھے اللھم ان تھلک ھذہ العصباۃ لا تعبد فی الارض اے مولا کریم ! میں نے یہ مٹھی بھر اہل ایمان تیرے نام پر جنگ میں دھکیل دئیے۔ اگر یہ ہلاک ہگوئے تو روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔ آپ نے ایمان والوں کو حکم دیا کہ وہ جب بھی دشمن کے مقابلے میں نکلیں تو اس طرح دعا کریں اللھم منزل الکتب و مجری السحاب اے کتاب نازل کرنے والے اور بادلوں کو چلانے والے اللہ ! اھزم الاحزاب لشکر کفار کو شکست دے اور ہم کو فتح سے سرفراز فرما۔ حضور نے ایسی جامع دعا سکھائی کہ پہلے لفظ میں ہی اسکی حقیقت کو واضح فرما دیا۔ اللھم منزل الکتب یعنی اے اللہ ! جس نے کتاب نازل فرمائی ہے مقصد یہ ہے کہ ہم یہ جنگ اس لیے کر رہے ہیں کہ اس پروگرام پر عمل درآمد کرسکیں جو تو نے کتاب اتار کر ہمیں دیا ہے اس جنگ سے ہماری کوئی ذاتی اغراض وابستہ نہیں ہیں۔ بلکہ تیری کتاب کے احکام لوگوں تک پہنچانے مقصود ہیں اور اس راستے میں جو رکاوٹ آئے اس کو دور کرنا مقصود ہے۔ ہمارا مقصد ہوس ملک گیری نہیں ہم مال غنیمت کے لیے نہیں آئے اور نہ لوگوں کو غلام بنانے کی خاطر آئے ہیں بلکہ ہم نے اعلائے کلمۃ الحق کے لیے اپنی جانوں کو اپنی ہتھیلیوں پر رکھا ہے۔ اللھم امن روعاتنا واسترعوراتنا اے اللہ ! ہمارے خطروں کو ٹال دے اور ہمارے عیوب پر پردہ ڈال۔ غرضیکہ حضور ﷺ نے میدان جنگ کے لیے خود دعائیں کی ہیں اور صحابہ ؓ کو سکھائی ہیں حضرت علی ؓ نے دیکھا کہ بدر کے میدان میں سجدے کی حالت میں حضور ﷺ بھی نہایت عاجزی کے ساتھ یا حی یا قیوم کہہ رہے ہیں ۔ اے اللہ ! ہم تیری رضا کی خاطر آئے ہیں۔ ہماری زندگی اور موت تیرے ہاتھ میں ہے۔ کافروں کے مقابلے میں ہمارا غلبہ تیری مشیت پر منحصر ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت علی ؓ چلے گئے۔ میدان جنگ کا چکر لگا کر واپس آئے تو دیکھا کہ حضور ﷺ اسی طرح سجدہ میں پڑے ہوئے ہیں اور اللہ کے حضور دعائیں کر رہے ہیں۔ الغرض ! طالوت مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ میدان میں اترا۔ اللہ کے نبی سموئیل (علیہ السلام) بھی ان کے ہمراہ تھے۔ جالوت کا کثیر لشکر دیکھ کر دل دہل گیا۔ اس وقت گڑ گڑا کر دعا کی ربنا اے ہمارے پروردگا ! دعا کے ابتداء میں خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت کو مقدم رکھا۔ کیونکہ پالنا اور درجہ کمال تک پہنچانا صفت ربوبیت کا کرشمہ ہے۔ ربنا کے لفظ کے ساتھ اپنی عاجزی اور انکساری کا اظہار کیا جیسا کہ اکثر دعائوں کی ابتداء میں یہ لفظ آتا ہے جیسے ربنا اتنا فی الدنیا جیسے ربنا ھب لنا یا ربنا اغفرلنا وغیرہ یہاں پر یہ دعا کی ربنا افرغ علینا صبراً اے اللہ ! ہم پر صبر ڈال دے یا صبر انڈیل دے۔ ہم میں صبر کا مادہ پیدا ہوجائے وثبت اقدامنا اور ہمیں ثابت قدم رکھ۔ ہمارے پائے استقلال میں لغزش نہ آنے پائے اور ہم دلجمعی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔ یہ ایسا موقع تھا کہ دشمن کی قوت کو دیکھ کر اہل ایمان کو سخت پریشانی لاحق تھی حتیٰ کہ بلغت القلوب الحتجر ان کے دل اچھل کر گلے تک آگئے تھے ، کا منظر تھا قو اس حالت میں وہ رب العزت سے دعا کر رہے تھے کہ مولا کریم ! ہمیں دشمن کے مقابلے میں صبر کی دولت عطا کر اور ہمارے قدموں کو ثابت رکھ اور پھر آخری بات یہ کہ وانصرنا علی القوم الکفرین کافروں کے خلاف ہماری مدد فرما اور ان پر غلبہ عطا فرما۔ کفار کے پروگرام کے داعی ہیں۔ اور اہل ایمان حق کا کلمہ بلند کرنا چاہتے ہیں۔ نیکی ، اطاعت اور تیری رضا کا پروگرام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ان کی نصرت فرما۔ جب جالوت نے دیکھا کہ مقابلے میں معمولی سا لشکر ہے تو کہنے لگا میری ساری فوج کو لڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لشکر کے لیے تو میں اکیلا ہی کافی ہوں۔ اس زمانے میں جنگ کا طریقہ یہ تھا کہ ابتداء میں دونوں طرفوں سے ایک ایک آدمی نکلتا اور مقابلہ کرتا۔ پھر دونوں اطراف سے ایک ایک اور سپاہی نکلتا ہے۔ حتیٰ کہ عام جنگ شروع ہوجاتی۔ حضور ﷺ کے زمانہ میں جنگ بدر میں بھی ایسا ہی ہوا تھا جب کفار مکہ نے مقابلے کے لیے مسلمانوں کو للکارا تو مسلمانوں کی طرف سے انصار مدینہ میں سے کچھ جانباز نکلے مگر کفار نے کہا۔ کہ یہ تو مدینہ کے کاشتکار ہیں۔ ہمارے مقابلے کے لیے ہمارے ہم پلہ لو گ آئیں۔ چناچہ حضور ﷺ نے حضر ت علی ؓ حضرت حمزہ ؓ اور حضرت عبیدہ ؓ کو میدان میں آنے کا حکم دیا۔ چناچہ ادھر سے حضرت عبیدہ ؓ شہید ہوئے اور کفار کے تین جوان جہنم واصل ہوئے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کا کارنامہ اہل اسلام کے لشکر میں حضرت دائود (علیہ السلام) کے والد ایساع یا یسی بن عویبد بھی شامل تھے۔ ان کے چھ بیٹے تھے جن میں دائود (علیہ السلام) سب سے کم سن تھے کہتے ہیں کہ آپ کم سنی کے باعث جنگ میں شرکت کے لیے نہیں آئے بلکہ اپنے بڑے بھائیوں کو سامان پہنچانے کے لیے وہاں پہنچے تھے ، اُدھر اللہ کے نبی کو حکم ہوا کہ جالوت کے مقابلے میں دائو د کو نکالو۔ آپ نے ان کے باپ کو بمع چھ بیٹوں کے طلب کیا۔ اور بمطابق حکم الٰہی دائود (علیہ السلام) سے پوچھا کیا وہ جالوت کا مقابلہ کریں گے انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ چناچہ اللہ کے نبی نے آپ کو جالوت کے مقابلہ کے لیے نکالا۔ آپ نے تلوار ، تیر یا نیزہ استعمال کرنے کی بجائے دشمن پر پتھر پھینکنے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ آپ کم سن تھے مگر بڑے ذہین اور پتھر چلانے میں بڑے ماہر تھے۔ چناچہ آپ نے اپنے تھیلے سے ایک پتھر نکالا اسے فلاخن میں ڈالا اور زور سے گھما کر جالوت کو دے مارا جالوت سر تا پا لوہے میں غرق تھا ، صرف اس کا ماتھا کھلا تھا۔ پتھر وہیں پر جا کر لگا۔ اور سر کے پار نکل گیا۔ آپ نے دوسرا اور تیسرا پتھر چلایا تو جالوت زمین پر گر گیا۔ آخر دائود (علیہ السلام) نے اس کے اوپر پہنچ کر اس کا کام تمام کردیا۔ جب لشکر نے دیکھا کہ ان کا سردار مارا گیا ہے تو اس کی جگہ دوسرے نے لینے کی کوشش کی ، مگر وہ بھی کیفر کردار کو پہنچا۔ آخر دشمن کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی ۔ اہل ایمان نے ان کا تعاقب کرکے انہیں مکمل شکست سے ہمکنار کردیا۔ اسی واقعہ کے متعلق یہاں ارشاد ہوا ہے فھزموھم باذن اللہ اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کو اللہ کے حکم سے شکست دیدی وقتل دائود جالوت اور حضرت دائود (علیہ السلام) نے سالار لشکر جالوت کو قتل کردیا۔ مناقب حضرت دائود (علیہ السلام) تفسیری روایت میں آتا ہے کہ جب حضرت دائود (علیہ السلام) اپنے باپ اور بھائیوں کے پاس میدان جنگ کی طرف آرہے تھے تو راستے میں درختوں کے پتوں سے آواز آئی۔ اے دائود ! تمہارے قریب یہ پتھر ہیں انہیں اٹھالو ، تمہارے کام آئینگے چناچہ آپ نے ان میں سے تین پتھر اٹھا کر تھیلے میں ڈال لیے اور پھر یہی پتھر آپ نے جالوت پر چلائے جس سے وہ ہلاک ہوگیا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ آپ ایک دن رو زہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے۔ آپ اتنے بہادر تھے کہ دشمن کے مقابلے میں کبھی پشت نہیں پھیری۔ آپ بچپن میں بکریاں چراتے تھے۔ جب کبھی کوئی بھیڑیا یا شیر بکریوں پر حملہ کرتا تو آپ اس کے جبڑے پھاڑ دیتے۔ اللہ نے اتنی طاقت عطا کی تھی۔ اگرچہ قد میں آپ چھوٹے تھے مگر جس میں قوت بلا کی تھی۔ آپ نہایت خوش الحان تھے۔ جب آپ تلاوت کرتے تو پرندے بھی آپ کی آواز سننے کے لیے ٹھہر جاتے ، ان کا لحن دائودی بھی محاورتاً استعمال ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے لوہے کو آپ کے ہاتھ پر موم کردیا تھا۔ جدھر چاہتے موڑ لیتے۔ چناچہ آپ لوہے کی زرہیں بھی بناتے تھے۔ عبادت کا یہ حال تھا کہ آپ کو عبدالبشر کہا گیا ہے۔ یعنی آپ اپنے زمانے میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھے۔ واٰتہ اللہ الملک اور اللہ تعالیٰ نے دائود (علیہ السلام) کو حکومت بھی عطا کی ، تفسیری روایات میں آتا ہے کہ طالوت کے بعد آپ ان کے جانشین ہوئے آپ کو خلیفہ اللہ کہا جاتا ہے۔ یا دائود انا جعلنک خلیفۃً فی الارض اے دائود ! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ مقرر کیا۔ بائیبل کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی بہادری سے متاثر ہو کر طالوت نے اپنی بیٹی کا نکاح حضرت دائود سے کردیا تھا۔ حکومت کے علاوہ فرمایا والحکمۃ اللہ تعالیٰ نے دائود (علیہ السلام) کو حکمت بھی عطا کی۔ عام طور پر حکمت سے مراد غایت درجہ کی عقلمندی اور معاملہ فہمی ہوتا ہے تاہم بعض فرماتے ہیں کہ یہاں پر حکمت سے مراد نبوت ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے بھی سرفراز فرمایا۔ اس سے پہلے ا سرائیلیوں میں حکومت اور نبوت و مختلف شخصیتوں کے پاس ہوتی تھی جیسے نبی سموئیل (علیہ السلام) تھے اور حکومت طالوت کے پاس تھی مگر یہ دونوں چیزیں دائود (علیہ السلام) پر آکر اکٹھی ہوگئیں۔ طالوت کے بعد آپ کو خلافت ملی اور حضرت سموئیل کے بعد آپ نبوت پر بھی سرفراز ہوئے۔ ایک اور خصوصیت جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ، وہ ہے وعلمہ مما یشاء اللہ تعالیٰ نے جو چاہا حضرت دائود (علیہ السلام) کو سکھا دیا۔ دائود (علیہ السلام) کا ذکر قرآن پاک میں سولہ 16 مقامات پر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مختلف فنون اور علوم سے نوازا۔ پرندوں کو بولیوں کے علم کا تذکرہ تو سورة نمل میں موجود ہے ” علمنا منطق الطیر “ ہمیں اڑتے جانوروں کی بولی سکھائی گئی۔ حضرت دائود (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے جملہ علم کے متعلق فرمایا ولقد اتینا دائود و سلیمن علماً ہم نے دائود اور سلیمان (علیہا السلام) کو عطم عطا کیا۔ آپ کے بعد آپ کے بیٹے سلیمان (علیہ السلام) بھی نبی ہوئے اور خلیفہ ہوئے۔ یہ دور بنی اسرائیل کا سنہری دور تھا۔ خلافت اور نبوت ایک جگہ پر جمع تھیں۔ ا من اور خوشحالی کا زمانہ تھا۔ اچھائی کو غلبہ حاصل تھا اور برائی دم توڑ چکی تھی۔ فلسفہ جہاد آیت کے اگلے حصے میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کا فلسفہ بھی بیان فرمادیا۔ ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعضٍ لفسدت الارض اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض دوسروں کے ذریعے نہ ہٹاتے تو زمین میں فساد برپا رہتا یعنی جب کسی گروہ نے خدا کی زمین پر بد امین پھیلانے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں دوسری جماعت کو بھیج کو مفسدین کا خاتمہ کردیا۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا جب قوم عمالقہ کی زیادتیاں حد سے بڑھ گئیں تو اللہ تعالیٰ نے طالوت کے ذریعے ان کا قلع قمع کردیا۔ اسی لیے دشمن کے ساتھ جہاد کا حکم دیا حتیٰ لا تکون فتنۃ یہاں تک کہ فتنہ و فساد بالکل ختم ہوجائے کفر و شرک کی ناپاکی دور ہوجائے ، اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہونے لگے اور اسلام کے راستے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔ یہی وہ مشن ہے جسے جمال الدین افغانی (رح) لے کر اٹھے۔ اور اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے وقت کردی۔ آپ نے مسلمانوں کو ذہن نشین کرایا کہ عیسائی اور یہودی انگریز اسلام کی دشمن طاقتیں ہیں۔ وہ اسلام کی شمع کو بجھانا چاہتی ہیں لہٰذا اہل اسلام کو اس بات کا نوٹس لیناچاہئے اور اپنا دفاع کرنا چاہئے۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ پہلے مرحلے میں دفاعی جہاد (DEFENSIVE) فرض ہے اگر جہاد سے روگردانی کی گئی تودرندہ صفت طاقتیں دنیا میں چھائی رہینگی۔ اور کسی کی جان عزت و آبرو محفوظ نہ ہوگی ، بزدلی دکھانا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ بہرحال فرمایا کہ یہ سنت اللہ ہے کہ وہ کسی برائی کو ختم کرنے کے لیے اس سے بڑھ کر وسائل پیدا کردیتا ہے۔ دنیا میں کتنے فرعون ، ہامان اور نمرود پیدا ہوئے مگر آخر ختم ہوگئے۔ کبھی جرمنی کا طوطی بولتا تھا۔ اب امریکہ اور روس سپر پاورز ہیں مگر اللہ تعالیٰ اپنے پروگرام کے مطابق اول بدل کرتا رہتا ہے۔ فرمایا حقیقت یہ ہے کہ ولکن اللہ ذوفضلٍ علی العٰلمین اللہ تعالیٰ اہل جہان پر فضل کرنیوالا ہے جب وہ کسی ظالم کی بیخ کنی کرتا ہے تو یہ صحیح معنوں میں دنیا والوں پر اس کا فضل ہوتا ہے انہیں ظلم سے نجات مل جاتی ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) کے مشن میں یہ بات بھی داخل ہے کہ دنیا میں ظلم کو ختم کریں ۔ حق و انصاف کا نظام قائم کریں عقیدہ توحید کو پختہ کریں چناچہ ظلم کو مٹانے کے لیے جہاد کی ضرورت ہے۔ جہاد کی مشروعیت اگلی آیات اور کئی دوسرے مقامات پر آئیگی۔
Top