Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 250
وَ لَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِهٖ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَؕ
وَلَمَّا : اور جب بَرَزُوْا : آمنے سامنے لِجَالُوْتَ : جالوت کے وَجُنُوْدِهٖ : اور اس کا لشکر قَالُوْا : انہوں نے کہا رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اَفْرِغْ : ڈال دے عَلَيْنَا : ہم پر صَبْرًا : صبر وَّثَبِّتْ : اور جمادے اَقْدَامَنَا : ہمارے قدم وَانْصُرْنَا : اور ہماری مدد کر عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے مقابل میں آئے تو (خدا سے) دعا کی کہ اے پروردگار ہم پر صبر کے دہانے کھول دے اور ہمیں (لڑائی میں) ثابت قدم رکھ اور (لشکر کفار پر فتح یاب کر)
(2:250) برزوا۔ وہ لڑائی کے لئے نکلے۔ ماضی جمع مذکر غائب بروز (باب نصر) مصدر بمعنی کھلم کھلا ظاہر ہونا میدان جنگ میں صف سے مدمقابل سے لڑنے کے لئے نکلنے کو مبارزت کہتے ہیں۔ بروز۔ کی مختلف اقسام ہیں :۔ (1) بذاتہ کسی چیز کا خود ظاہر کرنا۔ جیسے وتری الارض باردۃ (18:47) اور تم دیکھے کہ زمین کھل گئی ۔ کیونکہ اس روز مکان اور مکین اور مکین سب مٹ جائینگے۔ اور زمین ازخود کھل جائے گی۔ اسی لئے میدان جنگ میں صف سے نکلنے کو مبارزت کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے لبرز الذین کرب علیہم القتل الی مضاجعم (3:154) تو جن کی تقدیر میں قتل لکھ دیا گیا ہے وہ تو اپنے مقتلوں کی کی طرف نکل کر ہی رہیں گے۔ (2) چھپی ہوئی چیز کا کھل جانا۔ جیسے وبرزت الجحیم للغوین (26:91) اور گمراہوں کے لئے دوزخ ظاہر کردی جائے گی۔ افرغ علینا صبرا وافرغ۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ افراغ (افعال) مصدر بمعنی بہانا۔ دہانہ کھولنا۔ تو ہم پر دہانہ کھول دے۔ ای اصبب علینا صبرا۔ ہم پر صبر انڈیل دے۔ ہم کو (بہت) صبر عطا کر۔ صبرا۔ بوجہ مفعول بہ منصوب ہے۔ افرغ مادہ فرغ سے مشتق ہے الفراغ شغل کی ضد ہے اور فرغ یفرغ فروغ بمعنی خالی ہونا ہے ۔ فارغ خالی قرآن مجید میں ہے واصبح فؤاد ام موسیٰ فارغا (28:10) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اماں کا دل بےصبر ہوگیا۔ یعنی خوف کی وجہ سے گویا عقل سے خالی ہوگیا۔ بعض نے کہا کہ فارغا کے معنی موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال سے خالی ہونا ہے۔ یعنی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کا خیال ان کے دل سے بھلا دیا۔ حتیٰ کہ وہ مطمئن ہوگئی۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا میں ڈال دینا انہوں نے گوارا کرلیا۔ اور دوسری جگہ قرآن مجید میں ہے فاذا فرغت فانصب (94:7) تو جب فارغ ہوا کرو عبادت میں محنت کیا کرو۔ اور فرغت الدلو کے معنی ڈول سے پانی بہا کر اسے خالی کردینا کے ہیں۔ چناچہ افرغ علینا صبرا (آیت ہذا میں) ہم پر صبر کے دہانے کھول دے۔ اسی سے مستعار ہے۔ ثبت۔ امر کا صیغہ واحد حاضر۔ تثبیت (تفعیل) مصدر۔ تو ثابت رکھ۔ تو قائم رکھ۔ اقدامنا۔ مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول ثبت کا۔ انصرنا۔ انصر امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ نا ضمیر مفعول جمع متکلم۔ تو ہماری مدد فرما۔
Top