Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 250
وَ لَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِهٖ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَؕ
وَلَمَّا : اور جب بَرَزُوْا : آمنے سامنے لِجَالُوْتَ : جالوت کے وَجُنُوْدِهٖ : اور اس کا لشکر قَالُوْا : انہوں نے کہا رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اَفْرِغْ : ڈال دے عَلَيْنَا : ہم پر صَبْرًا : صبر وَّثَبِّتْ : اور جمادے اَقْدَامَنَا : ہمارے قدم وَانْصُرْنَا : اور ہماری مدد کر عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور جب جالوت اور اس کی فوجوں سے ان کا سامنا ہوا تو انہوں نے دعا کی، اے ہمارے پروردگار ہم پر صبر انڈیل دے، ہمارے قدم جمائے رکھ، اور کافر قوم پر ہمیں غلبہ عطا فرما۔
جالوت، فلسطینیوں کا سپہ سالار تھا۔ تورات میں اس کا نام جاتی جو لیت آیا ہے۔ یہ بڑا گرانڈیل، دیوہیکل اور ماہر جنگ سپہ سالار مانا جاتا تھا، دشمنوں پر اس کا بڑا رعب تھا، خاص طور پر بنی اسرائیل اس سے بہت مرعوب تھے۔ حضرت داود کی زندگی کا آغاز : داوٗد، یہ وہی حضرت داود ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے منصب نبوت سے سرفراز فرمایا اور جن کی صلب سے حضرت سلیمان ؑ پیدا ہوئے۔ ان کی ابتداء غریبانہ لیکن انتہا نہایت شاندار ہوئی۔ انہوں نے اپنے بارے میں خود فرمایا ہے کہ خداوند نے مجھے بھیڑ سالے سے نکالا اور اسرائیل کے تخت پر لا بٹھایا۔ یہ طالوت کی اس فوج میں شامل تھے جس کا ذکر چلا آ رہا ہے۔ اس شمولیت کے متعلق تورات میں دو مختلف روایتیں ہیں۔ ایک سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ اس جنگ کے پیش آنے سے پہلے ہی طالوت کے سلاح بردار کی حیثیت سے ان کے لشکر میں داخل ہوچکے تھے اور درپردہ یہ سموئیل کے ممسوح اور مستقبل کے بادشاہ بھی تھے۔ دوسری روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بالکل وقت کے وقت اپنی بکریاں چراگاہ میں چھوڑ کر اپنے بڑے بھائیوں کو، جو جنگ میں شریک تھے، اپنے باپ کے حکم سے کچھ کھانے کی چیزیں دینے آئے۔ یہاں انہوں نے دیکھا کہ جالوت مقابلہ کے لیے چیلنج دے رہا ہے لیکن کوئی اس کے مقابلے کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔ یہ دیکھ کر ان کی غیرت کر جوش آیا۔ انہوں نے طالوت سے اس کے مقابلہ کی اجازت مانگی۔ یہ اس وقت ایک نوخیز، سرخ رو اور خوش قامت نوجوان تھے۔ طالوت کو ان کی کم عمری اور ناتجربہ کاری کی بنا پر اجازت دینے تردد ہوا۔ لیکن جب انہوں نے کہا کہ میں اپنی برکیوں پر حملہ کرنے والے شیروں اور ریچھوں کے جبڑے توڑ دیا کرتا ہوں، بھلا اس نامختون فلسطینی کی کیا حیثیت ہے کہ یہ زندہ خداوند کی فوجوں کو رسوا کرے تو طالوت نے ان کے عزم و ہمت کو دیکھ کر ان کو اجازت دے دی اور خود اپنا جنگی لباس پہنا کر اپنے مخصوص اسلحہ سے ان کو لیس کیا۔ اس وقت تک ان کا زمانہ بھیڑوں بکریوں کی چرواہی میں گزرا تھا، اس جنگی لباس اور ان جنگی اسلحہ کا ان کو کوئی تجربہ نہیں تھا۔ وہ ان کو پہن کر کچھ بندھا بندھا سا محسوس کرنے لگا۔ آخرت طالوت کی اجازت سے اس قید سے رہائی حاصل کی اور چرواہوں کی طرح اپنی فلاخن اٹھائی، چادر کے ایک کونے میں کچھ پتھر رکھے اور وقت کے سب سے بڑے دیو کے مقابل میں جا کے ڈٹ گئے۔ پہلے تو اس نے ان کا مذاق اڑایا۔ لیکن جب ان کی طرف سے اس کو ترکی بہ ترکی جواب ملا تو اس نے کہا کہ“ اچھا آ، آج تیرا گوشت چیلوں اور کو وں کو کھلاتا ہوں ”اتنے میں حضرت داود نے فلاخن میں پتھر رکھ کر جو اس کو مارا تو پتھر اس کے سر سے چپک کر رہ گیا اور وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اتنے بڑے سپہ سالار کا ایک الہڑ چرواہے کی فلاخن سے اس طرح مارا جانا ظاہر ہے کہ ایک عظیم واقعہ تھا۔ چناچہ فلسطینی فوج میں بھگدر مچ گئی اور ادھر بنی اسرائیل کی عورتوں کی زبان پر یہ گیت جاری ہوگیا۔“ ساؤل نے تو ہزاروں کو مارا پر داؤد نے لاکھوں کو مارا ”۔ بس اسی واقعہ سے حضرت داود کی زندگی کا آغاز ہوا اور پھر وہ بنی اسرائیل کی تاریخ میں اس مقام پر پہنچے جو ان کے لیے مقدر تھا۔
Top