Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 250
وَ لَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِهٖ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَؕ
وَلَمَّا : اور جب بَرَزُوْا : آمنے سامنے لِجَالُوْتَ : جالوت کے وَجُنُوْدِهٖ : اور اس کا لشکر قَالُوْا : انہوں نے کہا رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اَفْرِغْ : ڈال دے عَلَيْنَا : ہم پر صَبْرًا : صبر وَّثَبِّتْ : اور جمادے اَقْدَامَنَا : ہمارے قدم وَانْصُرْنَا : اور ہماری مدد کر عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ میں نکلے تو انہوں نے دعا کی اے ہمارے رب ! ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر
صبر و استقامت تشریح : اس آیت میں گزشتہ آیت سے رابطہ قائم کرتے ہوئے بتایا جارہا ہے کہ جب طالوت کا لشکر جالوت کے مقابلہ میں آیا تو انہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے فتح و کامیابی کی دعا کی کہ ” اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو صبر اور مضبوطی عطا کر، ہمارے قدم مضبوط کر دے، ہماری پوری مدد کر اور ہمیں کافروں کی قوم پر فتح نصیب کر۔ “ اللہ کی مدد کافروں پر فتح حاصل کرنے کے لئے مانگی گئی تھی اور بڑے خلوص اور اعتماد سے مانگی گئی تھی سو اللہ تعالیٰ نے قبول کی، ان کی مدد فرمائی اور انہوں نے کافروں کو شکست دی واقعہ اس طرح ہوا کہ جب جالوت نے آکر مقابلہ کی دعوت دی تو کوئی بھی اس کے مقابلہ کی ہمت نہ کرسکا اس پر حضرت داؤد (علیہ السلام) بڑی جرات سے اس کے مقابلہ میں میدان میں اتر آئے اور انہوں نے ایک پتھر اپنے فلاخن ” گوپیا “ (چھوٹا سا ہتھیار) میں رکھ کر ایسا کھینچ کے مارا کہ وہ جالوت کے ماتھے سے گزر کر دماغ میں پہنچ گیا اور مضبوط و بہادر جالوت وہیں تڑپ کر ڈھیر ہوگیا اور یوں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فلسطینیوں پر فتح عطا کی جو کہ ناممکن نظر آرہی تھی۔ مگر مومن کے ایمان کی یہی نشانی ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہوتا ہے، اسی سے مدد مانگتا ہے اور اسی پر بھروسہ کرتا ہے اسی لئے تو علامہ اقبال نے فرمایا۔ کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زور بازو کا نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں اب اس مرد مجاہد کی بات کی جائے جس نے جالوت کو قتل کیا۔ یہ حضرت داؤد (علیہ السلام) تھے۔ اس وقت یہ کم سن نوجوان تھے، اتفاق سے یہ عین اس وقت لشکر میں پہنچے جب جالوت میدان میں کھڑا مقابلہ کی دعوت دے رہا تھا اور کوئی بھی مقابلہ میں آنے کی ہمت نہ کر رہا تھا تو حضرت داؤد (علیہ السلام) فوراً میدان میں کود پڑے اور آن واحد میں فوراً اس کو قتل کردیا۔ اس فتح اور بہادری کی وجہ سے اسرائیلیوں نے ان کو سر پر اٹھا لیا ان کی بہادری نے ان کو پوری قوم کی آنکھوں کا تارا بنا دیا۔ حضرت طالوت (علیہ السلام) نے اپنی بیٹی کی شادی ان سے کردی اور وہ اسرائیلیوں کے دوسرے فرمانروا بن گئے۔ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سلطنت اور حکمت دی ان کا ذکر قرآن مجید میں تقریباً 16 جگہ آیا ہے۔ آپ 963 تا 1024 ق م۔ ایک پیغمبر گزرے ہیں اور بنی اسرائیل کے دوسرے تاجدار بنے آپ نے سات سال تک پایہ تخت ہبرون کو رکھا۔ اس کے بعد یروشلم کو فتح کرکے اس کو پایہ تخت بنایا۔ ان کے زمانہ میں بڑی فتوحات ہوئیں اسی لئے آپ کا دور حکومت اسرائیلی تاریخ میں حسن انتظام کے لحاظ سے یادگار زمانہ سمجھا جاتا ہے اور پھر حکمت کا لفظ بھی اللہ نے استعمال کیا ہے۔ حکمت کا مطلب ہے دانائی اور پھر علوم کا ذکر ہے تو وہ علوم جو انبیاء (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ عطا فرماتے ہیں ان کا شمار کرنا مشکل ہے۔ یعنی بیشمار علوم اللہ تعالیٰ نے ان کو سکھائے ان کا ذکر انشاء اللہ آئندہ کیا جائے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ انسانوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ ہٹاتا نہ رہتا تو زمین پر فساد برپا ہوجاتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کا انتظام برقرار رکھنے کے لئے یہ قانون بنا رکھا ہے کہ وہ انسانوں کے ایک گروہ کو ایک خاص مدت تک غلبہ اور طاقت عطا کرتا ہے مگر جب کوئی گروہ حد سے بڑھنے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے گروہ سے اس کا زور توڑ دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک ہی پارٹی یا گروہ ظلم وستم اور لوٹ مار میں حد سے بڑھ جاتا اور یوں اللہ کی زمین پر فساد اور گڑ بڑ پیدا ہوجاتی۔ جب کہ اللہ تو انسانوں پر فضل و کرم کرنے والا ہے، ثابت ہوا کہ حکومتوں میں ردو بدل بلاوجہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ خاص مقصد اور بھلائی کے لئے ہوتا ہے۔ اب ذرا پیچھے دیکھتے ہیں کہ اس لمبے قصہ سے پہلے جہاد کا حکم دیا گیا تھا۔ اب ذرا غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جہاد سے متعلق کس قدر تفصیل سے باتیں بتائی گئی ہیں اور اس تاریخی واقعہ سے کس قدر اہم سبق سکھائے گئے ہیں اس قصہ کے خاتمہ پر اچانک مخاطب آنحضرت ﷺ کو کیا جارہا ہے۔
Top