Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 268
اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِ١ۚ وَ اللّٰهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًا١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۖۙ
اَلشَّيْطٰنُ : شیطان يَعِدُكُمُ : تم سے وعدہ کرتا ہے الْفَقْرَ : تنگدستی وَيَاْمُرُكُمْ : اور تمہیں حکم دیتا ہے بِالْفَحْشَآءِ : بےحیائی کا وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعِدُكُمْ : تم سے وعدہ کرتا ہے مَّغْفِرَةً : بخشش مِّنْهُ : اس سے (اپنی) وَفَضْلًا : اور فضل وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
شیطان وعدہ دیتا ہے تم کو تنگ دستی کا اور حکم کرتا ہے بےحیائی کا528 اور اللہ وعدہ دیتا ہے تم کو اپنی بخشش اور فضل کا اور اللہ بہت کشائش والا ہے سب کچھ جانتا ہے
528 یعد، وعد سے مشتق ہے اور وعد اصل لغت کے اعتبار سے خیر وشر دونوں میں مستعمل ہے۔ یہاں بقرینہ ما بعد شر کے لیے ہے اور اس کے معنی تخویف یعنی ڈرانے کے ہیں اور الفحشاء ہر بری خصلت کو کہتے ہیں۔ مگر یہاں اس سے بخل مراد ہے۔ ای الخصلۃ الفحشاء وھی البخل وترک الصدقات (روح ص 40 جلد 3) المراد بھا فی حذا الموضع البخل (جصاص) حضرت شیخ (رح) نے فرمایا کہ فحشاء سے یہاں بخل مراد ہے اور باقی اکثر جگہوں میں اس سے زنا مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شیطان تمہارے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ اگر مال خرچ کریں گے تو دولت کم ہوجائے گی اور مفلس ہوجاؤ گے۔ اس قسم کے وسوسے ڈال کر بخل اور کنجوسی پر اکساتا ہے۔ وَاللّٰهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۭ۔ لیکن اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ مال خرچ کرنے پر گناہوں کی معافی اور دولت میں اضافہ کا وعدہ فرماتا ہے۔ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۔ اللہ تعالیٰ وسعت والا ہے وہ خرچ کرنے کی ہمت اور خرچ کرنے پر فراخی عطا کرتا ہے۔ ور وہ غیب وشہادت کا جاننے والا ہے اسے معلوم ہے کہ کون خرچ کرتا ہے اور کہاں اور کس نیت سے خرچ کرتا ہے۔ والمراد ھنا انہ سبحانہ وتعالیٰ یعطی من سعۃ ویعلم حیث یضع ذالک ویعلم الغیب والشھادۃ (قرطبی ص 329 ج 3)
Top