Bayan-ul-Quran - Al-Furqaan : 52
فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ جَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِیْرًا
فَلَا تُطِعِ : پس نہ کہا مانیں آپ الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَجَاهِدْهُمْ : اور جہاد کریں ان سے بِهٖ : اس کے ساتھ جِهَادًا كَبِيْرًا : بڑا جہاد
تو (اے نبی ﷺ !) آپ ان کفارّ کر کہنا نہ مانئے اور آپ ﷺ ان کے ساتھ جہاد کریں اس (قرآن) کے ذریعے سے بڑا جہاد
آیت 52 فَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ ” یہاں پر لفظ اطاعت حکم کی تعمیل کے مفہوم میں نہیں آیا ‘ بلکہ اس فقرے کا مفہوم سمجھنے کے لیے ان حالات کے بارے میں جاننا ضروری ہے جو اس سورت کے نزول کے وقت حضور ﷺ کو مکہّ میں درپیش تھے۔ اس وقت مکہ کی فضا انتہائی کشیدہ تھی اور حضور ﷺ پر ہر طرف سے شدید دباؤ تھا۔ ان حالات میں اکثر لوگ آپ ﷺ کو مشورے دیتے تھے اور بار بار سمجھاتے تھے کہ آپ ﷺ نے اپنی پوری قوم کے ساتھ جو لڑائی مول لے رکھی ہے یہ مناسب حکمت عملی نہیں ہے۔ اس سے قبیلے میں پھوٹ پڑجائے گئی ‘ بھائی بھائی سے کٹ جائے گا ‘ اولاد والدین سے ُ جدا ہوجائے گی ‘ قبیلے کی بنی بنائی ساکھ برباد ہوجائے گی اور اس کے نتائج سب کے لیے بہت بھیانک ہوں گے۔ اگر آپ ﷺ اپنے موقف میں تھوڑی سی لچک پیدا کرلیں تو صلح صفائی کی کوئی صورت نکل سکتی ہے اور حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ چناچہ کشمکش کے اس ماحول میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب ولید بن مغیرہ سمیت قریش کے اکثر اکابرین چاہتے تھے کہ آپ ﷺ کی کچھ باتیں تسلیم کرلی جائیں ‘ اس کے جواب میں آپ ﷺ بھی اپنے موقف میں کچھ لچک پیدا کریں ‘ اس طرح کوئی درمیانی راہ نکل آئے اور تصادم کا خطرہ ٹل جائے۔ لیکن اہل مکہّ کی اس سوچ اور کوشش کے باوجود آپ ﷺ اپنے موقف پر پوری تندہی اور دل جمعی سے ڈٹے ہوئے تھے۔ ان حالات میں ایک طرف اہل ایمان پر عرصۂ حیات تنگ ہو رہا تھا تو دوسری طرف آپ ﷺ پر شدید نوعیت کا معاشرتی دباؤ تھا۔ اس صورت حال کی نزاکت اور شدت کی ایک جھلک سورة بنی اسرائیل کی ان آیات سے بھی محسوس کی جاسکتی ہے : وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہٗق وَاِذًا لاَّتَّخَذُوْکَ خَلِیْلاً وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰکَ لَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَیْہِمْ شَیْءًا قَلِیْلاً ”اے نبی ﷺ ! ! یہ لوگ تو تلے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ کو فتنے میں ڈال کر اس سے بچلا دیں جو ہم نے آپ ﷺ کی طرف وحی کی ہے تاکہ آپ ﷺ کچھ اپنی طرف سے گھڑ کر ہماری طرف منسوب کردیں۔ اور اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگ آپ ﷺ کو اپنا گاڑھادوست بنا لیتے۔ اور اگر ہم نے آپ ﷺ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو عین ممکن تھا کہ آپ ﷺ ان کی طرف کچھ نہ کچھ مائل ہو ہی جاتے“۔ اس سیاق وسباق میں آیت زیر نظر کے ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی کسی بات کو قبول کرنا تو درکنار آپ ﷺ ان لوگوں کی باتوں کی طرف بالکل دھیان ہی نہ دیں۔ وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا ” ان مشکل حالات میں آپ ﷺ کو قرآن کے ذریعے جہاد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ چناچہ مکہّ میں بارہ سال تک آپ ﷺ نے جو جہاد کیا وہ جہاد بالسیف نہیں تھا بلکہ جہاد بالقرآن تھا۔ اس جہاد کی آج پھر ہمارے معاشرے میں شدید ضرورت ہے۔ اس موضوع کی تفصیل کے لیے میری کتاب ”جہاد بالقرآن اور اس کے پانچ محاذ“ کا مطالعہ مفید رہے گا ‘ جو میری دو تقاریر پر مشتمل ہے۔ بہر حال آج ہمیں اپنے قومی و ملکی مسائل کے حل کے لیے قرآن کی تلوار ہاتھ میں لے کر جہاد کرنے اور قرآنی دعوت ‘ تربیت ‘ تزکیہ ‘ انذار اور تبشیر کے ذریعے سے ِ اقامت دین کے لیے ایک بھر پور انقلابیّ جدوجہد برپا کرنے کی ضروت ہے۔ ہمارے اجتماعی مسائل کا حل بھی یہی ہے اور ہمارے اندرونی امراض کی دوا وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُورِ یونس : 57 بھی اسی میں ہے۔
Top