Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتٰبِ١ۙ اُولٰٓئِكَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْتُمُوْنَ : چھپاتے ہیں مَآ : جو اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کیا مِنَ : سے الْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیاں وَالْهُدٰى : اور ہدایت مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا بَيَّنّٰهُ : ہم نے واضح کردا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں واُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ يَلْعَنُهُمُ : لعنت کرتا ہے ان پر اللّٰهُ : اللہ وَيَلْعَنُهُمُ : اور لعنت کرتے ہیں ان پر اللّٰعِنُوْنَ : لعنت کرنے والے
بیشک جو لوگ چھپاتے ہیں ان چیزوں کو جو ہم نے نازل کیں جو واضح چیزیں ہیں اور ہدایت کی باتیں ہیں بعد اسکے کہ ہم نے اسکو لوگوں کیلئے کتاب میں بیان کیا یہ چھپانے والے وہ لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت فرماتا ہے اور ان پر لعنت بھیجتے ہیں لعنت کرنے والے
حق چھپانے والوں کی سزا علامہ واحدی نے اسباب النزول ص 43 ج 1 میں لکھا ہے کہ یہ آیت علماء اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی۔ جنہوں نے آیت رجم کو چھپایا اور آنحضرت ﷺ کی صفات کو (جو توریت شریف میں پڑھتے آئے تھے) پوشیدہ رکھا۔ تفسیر درمنثور میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبل اور بعض دیگر انصار نے بعض علماء یہود سے توریت کی بعض باتیں دریافت کیں تو انہوں نے بتانے سے انکار کردیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت نازل فرمائی (ص 161 ج 1) نیز درمنثور ص 162 ج 1 میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابو العالیہ نے فرمایا کہ اس آیت میں اہل کتاب کا ذکر ہے جنہوں نے حسد کی وجہ سے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی اور آپ کی نعت کا کتمان کیا (یعنی اس بات کو بھی چھپایا کہ توریت شریف میں آپ کی بعثت کا ذکر ہے اور آپ کی نعت اور صفت جو توریت شریف میں مذکور تھی اس کو بھی پوشیدہ رکھا) حالانکہ وہ یہ سب کچھ اپنے پاس لکھا ہوا پاتے تھے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) پر جو کھلی آیات واضحہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی تھیں جن میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا تذکرہ بھی تھا اس کو اہل کتاب نے چھپا یا اور پوشیدہ رکھا، پھر فرماتے ہیں کہ الھدی کا عطف ہے البینات پر اور اس سے عمومی طور پر ہدایت کی سب چیزیں مراد ہیں۔ جن میں حضرت خاتم النّبیین پر ایمان لانا اور آپ کا اتباع کرنا بھی شامل ہے۔ اور آیات اگرچہ اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئیں لیکن ان کا حکم سب کے لیے عام ہے یعنی علم دین کا چھپانا ہر جاننے والے کے لیے گناہ ہے۔ (ص 26۔ 27 ج 2) صحیح بخاری ص 22 ج 1 میں ہے کہ حضرت ابو ہریرۃ ؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اگر دو آیتیں نہ ہوتی (جن میں علم چھپانے کی وعید مذکور ہے) تو میں ایک حدیث بھی بیان نہ کرتا پھر انہوں نے مذکورہ بالاآیات تلاوت فرمائیں اور سنن ابن ماجہ ص 23 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کوئی ایسا علم چھپایا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دینی معاملہ میں نفع پہنچاتا ہے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے منہ میں آگ کی لگام لگائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی نازل فرمودہ آیات بینات اور ہدایت کے چھپانے والوں کے بارے میں فرمایا : (اُولٰٓءِکَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ وَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَ ) (کہ اللہ تعالیٰ ان پر لعنت فرماتا ہے اور دوسرے لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔ لعنت کا معنی ہے رحمت سے دور کردینا، اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت سے دور فرمایا ہے اور دوسرے لعنت کرنے والے بھی ان کے لیے بد دعا کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوں۔ تفسیر درمنثور ص 162 ج 1 میں حضرت عطاء سے نقل کیا ہے کہ لعنت کرنے والوں سے جنات اور انسان اور زمین پر چلنے والے تمام جاندار مراد ہیں پھر فرمایا (اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا) (الایۃ) یعنی جن لوگوں نے توبہ کرلی اور اصلاح کرلی اور بیان کردیا تو میں ان کی توبہ قبول کرلوں گا۔
Top