Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 111
وَ لَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَاۤ اِلَیْهِمُ الْمَلٰٓئِكَةَ وَ كَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَ حَشَرْنَا عَلَیْهِمْ كُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ یَجْهَلُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّنَا : ہم نَزَّلْنَآ : اتارتے اِلَيْهِمُ : ان کی طرف الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتے وَكَلَّمَهُمُ : اور ان سے باتیں کرتے الْمَوْتٰى : مردے وَحَشَرْنَا : اور ہم جمع کردیتے عَلَيْهِمْ : ان پر كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے قُبُلًا : سامنے مَّا : نہ كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْٓا : وہ ایمان لاتے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّشَآءَ اللّٰهُ : چاہے اللہ وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر يَجْهَلُوْنَ : جاہل (نادان) ہیں
اور اگر ہم ان پر فرشتے اتار دیتے اور مردے ان سے باتیں کرنے لگتے اور جتنی چیزیں بھی ہیں سب ان کے سامنے لا کھڑی کرتے جب بھی یہ ایسا کرنے والے نہیں ہیں کہ ایمان لے آئیں اِلّا یہ کہ اللہ ہی کی مشیّت ہو لیکن ان میں اکثر ایسے ہیں جو نہیں جانتے
فرشتے ان پر نازل ہوں ، مردے ان سے باتیں کرنے لگیں پھر بھی یہ لوگ ماننے کے نہیں : 168: سورة الانعام کی اس آیت ایک سو گیارہ سے آٹھواں پارہ شروع ہو رہا ہے۔ مضمون وہی جاری ہے جو پیچھے سے چلا آرہا ہے فرمایا جن کی ضلالت پسندی اور ہٹ دھرمی کے سبب سے اللہ نے ان پر ہدایت کے دروازے بند کردیئے ہوں اور جن کو اللہ ہی نے ان کی گمراہیوں کی طرف دھکیل دیا ہو جن کی طرف وہ جانا چاہتے تھے تو اب اور کون ہے جو ان کو راہ راست پر لاسکے ؟ جن لوگوں نے سچائی سے منہ موڑ کر جھوٹ پر مطمئن ہونا چاہا اور جن کی اس خباثت کے باعث اللہ نے بھی ان کے لئے وہ اسباب فراہم کردیئے جن سے سچائی کے خلاف ان کی نفرت میں اور جھوٹ پر ان کے اطمینان میں اور زیادہ اضافہ ہوتا چلا جائے انہیں آخر دنیا کی کونسی طاقت جھوٹ سے منحرف اور سچائی پر مطمئن کرسکتی ہے ؟ اللہ کا یہ قانون نہیں کہ جو خود بھٹکنا چاہیں انہیں زبر دستی ہدایت دے اور کسی دوسری ہستی میں یہ طاقت نہیں کہ وہ لوگوں کے دل بدل دے۔ اس لئے اے میرے رسول ! ﷺ اگر ہم ان پر فرشتے اتا ردیں اور مردے آکر ان سے باتیں کرنے لگیں اور جتنی چیزیں بھی ہیں سب ان کے سامنے لا کھڑی کردیں جب بھی وہ ایسا کرنے والے نہیں کہ ایمان لے آئیں۔ ہاں ! اللہ کی مشیت اگر یہ ہوتی کہ وہ ان کو مجبور کر کے ایمان پر لے آئے تو یہ دوسری بات تھی لیکن اللہ کا قانون کسی کو مجبور کر کے حق کی طرف پھیرنے کا مطلاق نہیں لیکن ان میں اکثریت انہی لوگوں کی ہے جو سیدھی بات کو سمجھنے کے عادی نہیں ہیں۔ ” اگر ہم ان پر فرشتے اتاردیں۔ “ یہ دراصل ان ہی کے سوال کا جواب ہے۔ ان کا سوال یہ تھا کہ ” وہ کہتے ہیں کیوں نہ فرشتے ہمارے پاس بھیجئے گئے۔ “ (الفرقان 25 : 21) فرمایا ان کی ساری فرمائشیں بھی پوری کردی جائیں اور ہر غیب ان کو کھول دیا جائے۔ اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ مشاہدہ خوارق سے کبھی کسی قوم نے نفع نہیں پایا بلکہ جب بھی ان کے مطالبے کے پورے ہونے کا وقت آیا تو جس کو وہ خوارق سمجھتے تھے اگرچہ وہ خوارق نہیں تھا تاہم وہ وہی وقت تھا جو ان کی ہلاکت کے لئے قانون الٰہی میں مقرر تھا ، کیوں ؟ اس کئے کہ جھٹلانے کے عادی لوگ ماننے کے لئے کوئی مطالبہ نہیں کرتے بلکہ وہ جو کچھ کہتے یا کرتے ہیں سب ازراہ شرارت ہوتا ہے اور شرارتی شرارت کرتا رہتا ہے تاآنکہ وہ وقت آجاتا ہے کہ نہ شرارتی باقی رہے اور نہ اس کی شرارتیں۔ رسول بذاتہ ایک نشانی ہوتے تھے پھر ان پر نازل شدہ کلام بھی اللہ کی ایک بہت بڑی نشانی۔ اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ہزار ہا نشانیوں سے ایک بڑی نشانی تھے اور آپ ﷺ پر اتارا گیا کلام قرآن کریم ہزاروں نشانیوں پر مشتمل ہے۔ ان کو ان نشانیوں کی طرف باربار توجہ بھی دلائی گئی لیکن لاتوں کے بھوت باتوں سے کب مانتے ہیں ؟ جوتے کھانے والوں کو جب تک جوتے نہ پڑیں چین نہیں آتا۔ اشارہ انسانوں کے لئے کافی ہوتا ہے گدھوں کو ڈنڈا ہی سیدھا کرتا ہے۔ ان لوگوں نے ایک دو نہیں بیسیوں نشانات دیکھے لیکن وہ موعود نہیں تھے اور ان کو ان کے مطالبات کے مطابق نہیں دکھائے گئے تھے اس لئے کہ مطالبہ کا نشان صرف اور صرف اس وقت ہی دیا جاتا ہے جب قانون الٰہی میں طے ہے جب نہ ماننے والوں کو تہس نہس کرنے کا وقت آجاتا ہے ، کیوں ؟ اس لئے کہ اس طرح ان کے مطالبات ختم ہونے ہی میں نہیں آتے ایک مطالبہ میں پورا کردیا جائے تو وہ دوسرا کردیتے ہیں اور اس طرح مطالبات کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔ ناواقف تو ایسا کرے لیکن ایک واقف کار جانتے بوجھتے ایسا اقدام کیوں کرے جس کا انجام بخیر نہیں اور اللہ سے بڑھ کر آخر کون واقف کار ہو سکتا ہے ؟ فرمایا اے پیغمبر السلام ! یہ جاہل ہیں اس لئے جہالت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان کی جہالت کیا ہے ؟ یہی کہ ایمان کا تو قصد ہی نہیں اور فرمائشیں نشانات ومعجزات کی پھر بھی کئے جاتے ہیں۔ پیغمبر کی اص تعلیمات ، پیغمبر کے اصل کام ، پیغمبر کی اصل ضرورت اور غرض وغایت پر غور ہی نہیں کرتے اور پیغمبر کو ایک پیغمبر نہیں بلکہ ساحر یا شعبدہ باز سمجھتے ہیں م۔ پیغمبر کے دعویٰ پر کبھی انہوں نے غور ہی نہیں کیا۔ پیغمبر کیا ہے ؟ ایک اللہ کا پیغام لانے والا انسان ہی تو ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ پیغمبر نے کب خدا ہونے کا دعویٰ کیا تھا ؟ پبرم نے کب کہا تھا کہ میں قادر مطلق ہوں اور ہرچیز پر میرا حکم چلتا ہے ؟ پیغمبر نے یہ کب کہا کہ میں پہاڑ پر پھونک لگاؤں تو وہ سونا ہوجاتا ہے ؟ پیغمبر نے یہ کب کہا تھا کہ آسمان پر میری حکومت چل رہی ہے ؟ پیغمبر کا دعویٰ تو اول روز سے یہی تھا کہ میں خدا کی طرف سے پیغام لانے والا ایک انسان ہوں۔ تمہیں جانچنا ہے تو میرے پیغام کو جانچو۔ ایمان لانا ہے توا س پیغام کی صداقت اور معقولیت دیکھ کر ایمان لاؤ ۔ انکار کرنا ہے تو اس پیغام میں کوئی نقص نکال کر دکھاؤ ۔ میری صداقت کا اطمینان کرنا ہے تو ایک انسان ہونے کی حیثیت سے میری زندگی کو ، میرے اخلاق کو ، میرے کام کو دیکھو یہ سب کچھ چھوڑ کر تم مجھ سے یہ مطالبہ کرنے لگے کہ زمین پھاڑو اور آسمان گراؤ یا خدا کو ہمارے سامنے لاؤ ؟ فرشتے ہمارے سامنے پیش کرو ؟ مردوں سے ہماری باتیں کراؤ ؟ آخر پیغمبری کا ان کاموں سے کیا تعلق ہے ؟
Top