Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 111
وَ لَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَاۤ اِلَیْهِمُ الْمَلٰٓئِكَةَ وَ كَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَ حَشَرْنَا عَلَیْهِمْ كُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ یَجْهَلُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّنَا : ہم نَزَّلْنَآ : اتارتے اِلَيْهِمُ : ان کی طرف الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتے وَكَلَّمَهُمُ : اور ان سے باتیں کرتے الْمَوْتٰى : مردے وَحَشَرْنَا : اور ہم جمع کردیتے عَلَيْهِمْ : ان پر كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے قُبُلًا : سامنے مَّا : نہ كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْٓا : وہ ایمان لاتے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّشَآءَ اللّٰهُ : چاہے اللہ وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر يَجْهَلُوْنَ : جاہل (نادان) ہیں
اور اگر ہم ان پر فرشتے بھی اتار دیتے اور مردے بھی ان سے گفتگو کرنے لگتے اور ہم سب چیزوں کو انکے سامنے لاموجود بھی کردیتے تو بھی ایمان لانے والے نہ تھے الاّ ماشاء اللہ۔ بات یہ ہے کہ یہ اکثر نادان ہیں۔
بیان کیفیت عناد معاندین قال اللہ تعالیٰ ولو اننا نزلنا الیھم الملئکۃ۔۔۔ الی۔۔۔ ولیقترفوا ما ھم مقترفون (ربط) گزشۃ آیت وما یشعرکم انھا اذا جاءت لا یؤمنون میں معاندین کے عناد کو اجمالا ذکر فرمایا اب ان آیات میں ان کے عناد کی تفصیل فرماتے ہیں اور یہ بتلاتے ہیں کہ ان کے عناد کی کیا کیفیت ہے وہ یہ ہے کہ اگر ان کے فرمائشی معجزات سے بڑھ کر بھی ان کو معجزات دکھلا دئیے جائیں تب بھی یہ لوگ عناد اور ضد کی بناء پر حق کو ماننے والے نہیں اور ساتھ آنحضرت ﷺ کو تسلی بھی ہے کہ آپ ﷺ ان معاندین کے بیجا سوالات اور فرمائشی معجزات سے رنجیدہ اور غمگین نہ ہوں یہ بات کچھ آپ کے زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر نبی ﷺ کے زمانہ میں اس قسم کے بیجا سوالات ان سے کیا کرتے تھے چناچہ فرماتے ہیں اور ان معاندین کے عناد اور ضد کی یہ کیفیت ہے کہ ہم ان کی طرف فرشتے بھی اتار دیں جو آپ ﷺ کی نبوت و رسالت اور آپ ﷺ کی صداقت کی شہادت دیں جیسا کہ وہ کہتے تھے لو لآ انزل علینا الملائکۃ او نری ربنا او تأتی باللہ والملائکۃ قبیلا۔ اور مردے بھی زندہ ہو کر ان سے باتیں کرنے لگیں اور آخرت کے چشم دیدہ حالات ان کے سامنے بیان کرنے لگیں جیسا کہ وہ کہتے تھے فأتوا بابآ ئنا اور ہر چیز کو گروہ گروہ ان کے سامنے جمع کردیں اور سب چیزیں تیری نبوت کی شہادت دیں۔ یعنی حیوانات اور نباتات اور جمادات جمع ہو کر ان کی آنکھوں کے روبرو آپ ﷺ کی نبوت کی گواہی دیں تو یہ کافر جب بھی ایمان لانے والے نہیں مگر یہ کہ اللہ ہی چاہے یعنی خدا ہی کو منظور ہو تو یہ ایمان لاسکتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر کوئی زبردست نہیں مگر اپنی مرضی سے تو یہ کسی طرح بھی ایمان لانے والے نہیں خدا ہی چاہے تو ان کی شقاوت کو سعادت سے بدل سکتا ہے لیکن اکثر ان میں سے نادان ہیں جہالت کے باعث معجزات قاہرہ طلب کرتے ہیں خواہ مخواہ کی فرمائشیں جہالت کی دلیل ہے حق کی تو طلب نہیں اور دلائل حقہ کی طرف توجہ اور التفات نہیں بےدلیل جو دل میں آیا کہہ دیا یہ جہالت نہیں تو کیا ہے عدالت میں مدعی سے گواہی طلب کی جاتی ہے اور مدعا علیہ کو یہ حق ہوتا ہے کہ گواہوں پر جرح کرے اور گواہوں کا ناقابل شہادت ہونا ثابت کرے لیکن اگر مدعی علیہ مدعی کی پیش کردہ شہادت پر تو کوئی جرح نہ کرسکے مگر یہ کہے کہ میں تو اس دعویٰ کو جب تسلیم کروں گا کہ فلاں فلاں اشخاص اس کی شہادت دیں تو عدالت میں یہ عذر ہرگز قابل سماعت نہ ہوگا اسی طرھ سمجھو کہ مدعی نبوت کے ذمہ مطلق دلائل نبوت اور مطلق شواہد رسالت کا پیش کرنا ضروری ہے سو وہ پیش کردئیے گئے فرمائشی نشانات کا پیش کرنا ضروری نہیں۔ اب آیندہ آیات میں آپ ﷺ کو تسلی دی جاتی ہے کہ ان معاندین کی دشمنی سے رنجیدہ اور ملول نہ ہوں اور یہ شیاطین الانس جو آپ ﷺ کی دشمنی پر تلے ہوئے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ جس طرح یہ لوگ آپ کے دشمن ہیں اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے ہر نبی کے لیے شیطانوں کو دشمن بنایا ہے بعضے شیطان آدمیوں کے جنس سے ہیں اور بعضے شیطان جنات کی جنس سے ہیں۔ یعنی ہر زمانہ میں ایسے لوگ ہوئے ہیں جو انبیاء سے دشمنی رکھتے تھے اور ان سے اسی قسم کے بیجا سوالا کیا کرتے تھے اس سے مقصود انبیاء کرام کے صبر کا امتحان ہے کافروں کی عداوت انبیاء اکرام کے رفع درجات کا باعث ہوتی ہے اس لیے خدا تعالیٰ کے یہاں جس نبی کا جس قدر رتبہ بلند ہوتا ہے اسی کے مطابق اس کے مقابلہ کے لیے سخت دشمن ہونا ہے تاکہ اس کی دشمنی سے اس نبی ﷺ کے درجے لند ہوں غرض یہ کہ اس حکمت کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر نبی ﷺ کے دشمنی کے لیے شیاطین الانس والجن بنائے کہ بعض بعض کی طرف دھوکا دینے کے لیے ملمع باتوں کا دل میں القاء کرتے ہیں یعنی ایسی جھوٹی باتوں کا القاء کرتے ہیں جو بظاہر خوشنما اور آراستہ ہوتی ہیں اور برے اعمال کو اچھا کر کے دکھلاتے ہیں تاکہ ان کو دھوکہ اور فریب میں ڈالیں۔ : شیطان اصل میں اس کو کہتے ہیں جو سرکش اور شریر اور بدذات اور پاجی ہو خواہ انسانوں میں سے ہو یا جنات میں سے اور آیت میں شیاطین سے سرکشان جن وانس مراد ہیں مالک بن دینار (رح) فرماتے ہیں کہ شیطان انس شیطان جن سے زیادہ نقصان دہ ہے کیونکہ جب میں اعوذ باللہ پڑھتا ہوں اور اللہ کی پناہ مانگتا ہوں تو شیطان جن میرے پاس سے بھاگ جاتا ہے مگر شیطان انس میرے پاس سے نہیں ٹلتا اور زخرف القول سے ملمع سازی کی باتیں مراد ہیں جو بظاہر آراستہ ہوں اور باطنی طور پر دھوکہ اور فریب ہوں اور اگر تیرا پروردگار چاہتا تو وہ شیاطین یہ کام نہ کرتے شیاطین لوگوں کے دلوں میں وسوسہ نہ ڈالتے یہ سب اللہ ہی کی قضاء وقدر اور اس کے ارادہ اور مشیت سے ہے پس آپ ان کو چھوڑ دیں وہ جانیں اور ان کا جھوٹ یعنی آپ ان کی ملمع سازی اور افترا پردازی کے فکر میں نہ پڑیں یہ لوگ شیاطین شیاطین الانس والجن کے پیدا کرنے میں ایک حکمت یہ ہے کہ تاکہ ان کے اس ملمع اور دل فریب قول کی طرف ان لوگوں کے دل جھکیں جو آخرت پر یقین رکھتے اور دنیا کی شہوتوں اور لذتوں پر فریفتہ ہیں اور تاکہ وہ اس جھوٹی ملمع بات کو اعتقاد قلب سے پسند کرلیں اور دل سے اس کو حق سمجھنے لگیں اور تاکہ بھی اس کے بعد دل کھول کر بےکھٹکے وہ برے کام کیے جائیں جو کر رہے ہیں جب آدمی کسی بات کو دل سے حق سمجھنے لگے اور آخرت سے بےفکر ہوجائے تو دل کھول کر برے کام کرتا ہے حتی کہ جب جرم کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے تو پھر اس کو یکایک پکڑ لیا جاتا ہے۔
Top