Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 111
وَ لَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَاۤ اِلَیْهِمُ الْمَلٰٓئِكَةَ وَ كَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَ حَشَرْنَا عَلَیْهِمْ كُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ یَجْهَلُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّنَا : ہم نَزَّلْنَآ : اتارتے اِلَيْهِمُ : ان کی طرف الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتے وَكَلَّمَهُمُ : اور ان سے باتیں کرتے الْمَوْتٰى : مردے وَحَشَرْنَا : اور ہم جمع کردیتے عَلَيْهِمْ : ان پر كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے قُبُلًا : سامنے مَّا : نہ كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْٓا : وہ ایمان لاتے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّشَآءَ اللّٰهُ : چاہے اللہ وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر يَجْهَلُوْنَ : جاہل (نادان) ہیں
اور اگر نازل کریں ہم ان کی طرف فرشتوں کو اور کلام کریں ان سے مرنے والے ، اور زندہ کر کے دکھائیں ہم ہر چیز کو ان کے سامنے ، نہیں ایمان لائیں گے یہ لوگ مگر یہ کہ اللہ چاہے ، لیکن اکثر ان میں سے جاہل ہیں
یہ آیات بھی گذشتہ آیات کے ساتھ مربوط ہیں گذشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین پختہ قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر ہماری مرضی کے مطابق کوئی نشانی آجائے تو ہم مان جائیں اور تصدیق کردیں گے پہلے تو اللہ نے اس کا رد فرمایا کہ آپ کہ دیں کی نشانیاں لانا میرے بس کی بات نہیں ی تو اللہ کے اختیار میں ہے پھر اہل ایمان سے خطاب کیا کہ تمہیں کیا معلوم کہ نشانی آجانے پر یہ ضرور ہی ایمان لے آئیں گے۔ فرمایا جس طرح یہ پہلی دفعہ کلمہ حق سُن کر ایمان نہیں لائے ، اسی طرح آئندہ بھی ان سے ایمان لانے کی توقع نہ رکھیں۔ اللہ تعالیٰ دلوں کو پلٹتا ہے ، سرکشی کرنے والوں کو مہلت دیتا ہے مگر وہ اسی میں بھٹکتے رہیں ان لوگوں میں شقاوت قلبی آچکی ہے ، یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ مشرکین کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اگر آپ اللہ کے سچے نبی ہیں تو پھر لولا انزل علیہ ملک آپ پر فرشتے کیوں نہیں آترتے۔ ہمارے سامنے آسمان س فرشتے نازل ہوں وہ اپنے ساتھ کتاب لائیں اور تصدیق کریں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ تو پھر ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فمایا ولو اننا نزلنا الیھم الملئِکۃ اگر ہم ان پر فرشتے بھی نازل کردیں تو پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ اس سورة کی ابتداء میں بھی گزر چکا ہے کہ ان کے سامنے فرشتوں کا نزول ممکن نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر فرشتے اصل شکل میں نازل ہوں تو ان کے لیے قابل برداشت نہیں ہوگا ، اور یہ ہلاک ہوجائیں گے۔ اس جہاں میں انسان کے لیے فرشتوں کا دیکھنا ممکن نہیں ، البتہ اگلے جہان میں پہنچ کر ایسا ہو سکے گا ، اللہ نے پردہ ڈال رکھا ہے۔ اور فرشتوں پر ایمان بالغیب رکھنا ہی ضروری ہے۔ اور اگر فرشتے انسانی شکل میں نازل ہوں تو یہ لوگ ان کو فرشتے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے اس کے بجائے ” للبسنا علیھم مایلبسون “ یہ اشتباہ میں ہی پڑے رہیں گے ، لہٰذا ان کی فرمائش کے مطابق اگر ہم فرشتے بھی نازل کردیں ، تب بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ اللہ نے فرمایا کہ مشرکین ضد اور عناد میں اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ اگر ہم ان پر فرشتے نازل کردیں وکلمھم الموتی اور مردے ان سے ہم کلام ہوں۔ مشرکین کہتے تھے کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ ہم مرنے کے بعد پھر زندہ ہوجائیں گے ” فاتو با باء نا ان کنتم صدقین “ (الدخان) تو پھر ہمارے آبائو اجداد کو اٹھالائو ، ہم بھی دیکھ لیں کہ ایسا ممکن ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں اللہ نے یہاں فرمایا ہے کہ اگر ان کے مردے زندہ ہو کر ان سے ہم کلام بھی ہوجائیں تو یہ لوگ اتنے نادی ہیں کہ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ فرمایا مردوں کے علاوہ وحشرنا علیھم کل شئی قبلا ہم ہر چیز ان کے سامنے لا کر اکٹھی کردیں ، تو یہ پھر بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ قبلاً کا معنٰی سامنے ہوتا ہے۔ قبلاً قبیل کی جمع بھی ہے یعنی فوج درفوج۔ اور یہ معنٰی بھی ہو سکتا ہے کہ اگر ہم مختلف اشیاء کو گروہ درگروہ بھی لا کر کھڑا کردیں پھر بھی یہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہیں گے۔ اور ما کانو الیومنو اور اللہ کی وحدانیت ، آپ کی رسالت اور کتاب الٰہی پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ فرمایا ایک صورت میں یہ لوگ ایمان لاسکتے ہیں الانیشاء اللہ اگر اللہ چاہے تو ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ وہ تو قادر مطلق ہے۔ وہ کسی کو ایمان لانے پر مجبور بھی کرسکتا ہے۔ اسکی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں مگر یہ بات اسکی حکمت کے خلاف ہے۔ گذشتہ رکوع میں گزر چکا ہے ” ولو شاء اللہ ما اشرکوا اگر اللہ چاہتاتو یہ شرک نہ کرتے مگر ایسا نہیں ہے۔ ایمان اس کا مقبول ہے جو خود اپنی مرضی سے قبول کرے۔ اور ساتھ ہی اپنے نبی سے فرمایا۔ آپ ان کی ضد کی وجہ سے دل برداشتہ نہ ہوں ” وما جعلنک علیھم حفیظا “ ہم نے آپ کو ان پر کوئی نگہبان تو نہیں بنایا۔ آپ بالکل فکر مند نہ ہوں۔ اگر ایمان قبول کرتے ہیں تو ٹھیک ہے اور نہ ہم خود ان سے نپٹ لیں گے۔ یہاں بھی فرمایا ، کہ اگر اللہ چاہے تو وہ ایمان قبول کرلیں مگر حقیقت یہ ہے ولکن اکثر ھم یجھلون ان میں سے اکثر لوگ نادان اور بےسمجھ ہیں۔ حق بات انکی سمجھ میں نہیں آتی اور یہ تعصب اور عناد کی وجہ سے مخالفت پر تلے بیٹھے ہیں۔ بہر حال یہاں پر ایمان کے ضمن میں توحید اور رسالت دونوں چیزیں آگئی ہیں۔ کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لائے گا وہ رسالت کو بھی تسلیم کرلے گا۔ بلکہ توحید کی دعوت اسے رسول کی معرفت ہی ملے گی۔ لہٰذا جب تک دونوں چیزوں پر ایمان نہیں لائیگا ، اس کا ایمان مکمل نہیں ہوگا۔ یہاں پر یہ اشارہ موجود ہے۔ اب آگے رسالت کی بات ہو رہی ہے۔ فرمایا کذلک جعلنا لکل نبی عدو اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بنائے ۔ شاید ہی اللہ کا کوئی نبی ہوگا جس کا کوئی دشمن نہ ہو۔ اس میں حضور ﷺ کے لیے تسلی کا پہلو ہے۔ کہ ہر نبی کے ساتھ عناد رکھنے والے لوگ ہمیشہ موجود رہے ہیں لہٰذا آپ کے ساتھ دشمنی کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ نزول وحی کے پہلے دن ہی حضور علیہ اسلام کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا ۔ جب آپ غار حرا سے لزرتے کانپتے گھر پہنچے اور پھر کچھ دیر بعد آپ کو افاقہ ہوا ، تو ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ آپ کو اپنے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ اس سے گفتگو ہوئی تو وہ کہنے لگا ، کاش اس وقت میں زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔ حضور ﷺ کو تعجب ہوا کہ میری کسی کے ساتھ عداوت نہیں ، میں کسی پر زیادتی نہیں کرتا ، پھر یہ لوگ مجھے کیوں نکال دیں گے ، ورقہ نے کہا یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا ہے۔ وہ پہلی کتابوں کا عالم تھا ، کہنے لگا جس نے بھی ایسی چیز پیش کی جو تم کر رہے ہو ، تو اس کے ساتھ دشمنی ہی کی گئی افسوس کہ درقہ کو مہلت نہ ملی اور وہ تین دن بعد فوت ہوگیا۔ حضرت خدیجہ ؓ نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ ورقہ کا کیا حال ہے۔ اگرچہ اسے مکمل ایمان لانے کا موقع تو نہ ملا مگر وہ آپ کی تصدیق تو کر گیا تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا ، میں نے ورقہ کو خواب میں سفید لباس میں دیکھا ہے جس سے میں اس کے بارے میں اچھی توقع رکھتا ہوں۔ بہر حال ہر نبی کے ساتھ اس کے دشمن بھی پیدا ہوتے رہے ہیں اور اسی طرح نبی آخر الزمان کو بڑے ذلیل قسم کے دشمنوں سے واسطہ پڑا۔ آگے اللہ نے دشمنوں کی تفصیل بھی بیان کی ہے کہ وہ کون ہیں ؟ شیطین الانس والجن وہ شیاطین ہیں جو انسانوں میں سے بھی ہیں اور جنوں میں سے بھی ہیں ، جنات میں سے تو ظاہر ہے کہ ابلیس اور اس کی زریت ہر اہل ایمان کی صریح دشمن ہے۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ موجود ہے ” انہ لکم عدو مبین “ کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ سورة کہف میں فرمایا ” افتحتخذونہ وزریتہ اولیاء من دونی کیا تم شیطان اور اس کی ذریت کو میرے سوا دوست بناتے ہو ؟ اس کے کہنے پر چلتے ہو ؟ حالانکہ وہ تمہارا ازلی دشمن ہے۔ اس نے تمہیں بہکانے کی قسم کھا رکھی ہے وہ انسان کے آخری دم تک کوشش کرتا ہے کہ وہ ایمان سے خالی ہوجائے۔ وہ چاہتا ہے کہ سب لوگ اس کے پیچھے لگ جائیں اور وہ سب کو اپنے ساتھ جہنم میں لے جائے انما یدعو جزبہ لیسکونو من اصحب السعیر “ (فاطر) وہ تو اپنی پارٹی بڑھانا چاہتا ہے۔ دعوت دیتا ہے کہ آئو ! میرے ساتھ لگ جائو تاکہ سب کو اپنے اتھ دوزخ میں لے جائوں۔ غرضیکہ شیطان تو انسان کا ہر صورت میں دشمن ہے۔ البتہ بعض انسانوں میں سے بھی شیطان کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔ خود بھی شیطانی کام انجام دیتے ہیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیتے ہیں۔ شیطان کا مقصد لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد کرانا ہوتا ہے۔ جو انسان یہ کام کرتے ہیں۔ بلا شبہ وہ بھی شیطان ہیں جو ہر نبی کے ساتھ بھی دشمنی کرتے رہے ہیں۔ کسی انسان کو بد بختی کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ اللہ کے نبیوں کا دشمن ہو ۔ اللہ کے نبی تو توحید اور ہدایت کا راستہ بتاتے ہیں۔ اللہ کی مرضیات پر چلتے ہیں اور دوسرے انسانوں کو بھی اسی راستے پر چلانا چاہتے ہیں۔ مگر شیطان اسی وج سے ان کا دشمن ہے۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ، سب سے سخت عذاب اس شخص کے لیے ہے۔ جو اللہ کے نبی کو قتل کرے یا اللہ کا نبی اسے قتل کرے۔ ظاہر ہے کہ نبی کا قاتل نہایت ہی شقی آدمی ہوگا۔ لہٰذا اس سے بڑا ب بخت کون ہو سکتا ہے۔ اسی طرح جس شخص کو نبی جیسا سراپا رحمت قتل کر دے وہ بھی بڑا ہی بد باطن ہوگا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ اسلام کو زمین پر اتارا تو فرمایا ” بعضکم لبعض عدو (البقرہ) تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے ، تمہاری اولاد میں سے بھائی بھائی کا دشمن ہوگا۔ باپ اور بیٹے میں دشمنی ہوگی۔ قوم اور برادری ایک وسرے کے خلاف بر سر پیکار ہوگی۔ پارٹیوں اور فرقوں میں دشمنی ہوگی۔ اولاد آدم میں ایک دوسرے کے خلاف عام دشمنی ہوگی مگر سب سے بڑی بد بختی یہ ہے کہ اللہ کے نبیوں کے ساتھ عداوت رکھی جائے۔ فرمایا ہر نبی کے دشمن ہوئے ہیں اور اسی طرح آپ کے بھی ہیں ، یہ انسان اور جن شیاطین یوحی بعضھم الی بعض ایک دوسرے کی طرف وحی کرتے ہیں ۔ یعنی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر لوگوں کے دلوں میں وسو سے پیدا کرتے ہیں۔ حضرت مالک بن دینار (رح) فرماتے ہیں کہ شیطان چونکہ انسانوں اور جنوں دونوں انواع سے ہیں اس لیے میں ہمیشہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھتا ہوں یا تعوذ کرتا ہوں تو جنات کی نوع کے شیطان تو بھاگ جاتے ہیں مگر انسانی شیطان ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں اور ہمیشہ آدمی کو گناہ کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اور پھر یہ ہے کہ انسانی شیطان جناتی شیطان سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ جناتی شیطان تو نظروں سے اوجھل رہتے ہیں مگر انسانی شیطان ظاہر اً شیطانی کام کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ آدمی کو معاصی میں مبتلا کردیتے ہیں۔ یوحی کا لفظی معنی اشارہ کرنا ہے ار اس کا دوسرا معنی تیزی سے بات کرنا بھی آتا ہے۔ چناچہ وحی الٰہی میں مخفی اشارہ ہوتا ہے جو اللہ کی جانب سے فرشتے کے ذریعے پیغمبر کے قلب پر نازل ہوتا ہے۔ یہاں پر وحی سے مراد القا کرنا ہے جو ایک دوسرے پر وسوسے وغیرہ ڈالتے ہیں اور لوگوں کو برائی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ فرمایا شیطان ایک دوسرے کی طرف وحی کرتے ہیں زخرف القول ملمع کی ہوئی بات۔ زخرف اس چیز کو کہتے ہیں جس کا ظاہر اچھا ہو اور باطن خراب ہو۔ اس کی مثال حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کا قول ہے۔ جسے شیخ ابو طالب مکی (رح) نے اپنی کتاب قوت القلوب میں بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں ، علمائے سوء کی مثال گندی نالی کی ہے جس میں بظاہر تو سیمنٹ لگا ہوتا ہے مگر اس کے اندر گندگی ہوتی ہے۔ تو یہ شیطان بھی انسان کے دلوں میں ایسی بات ڈلاتے ہیں جو بظاہر تو بڑی خوبصورت ہوتی ہے مگر اس کے نتائج ہمیشہ خراب نکلتے ہیں۔ ایک تو ملمع والی بات ڈالتے ہیں اور دوسری غروراً دھوکے والی بات کرتے ہیں۔ یہ شیطان انسانوں کے دلوں میں بھی وسوسے ڈلاتے ہیں اور خود ایک دوسرے کو بُرا خیال کرتے ہیں۔ ایسی بنا سنوار کر بات کرتے ہیں جو دین ، اخلاق اور حق کے خلاف ہوتی ہے اور لوگ اس سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔ اسلام دشمن طاقتوں کا اسلام کے ساتھ رویہ بھی ایسا ہی ہے۔ وہ بظاہر تو بڑی ہمدردی اور خیر خواہی کا اظہار کرتے ہیں مگر در پر وہ ان کے عزائم نہایت مکروہ ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ الام اور اہل اسلام کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ روس ، امریکہ اور یورپین قومیں بظاہر دوستی کا دم بھرتی ہیں۔ اور امداد کی پیش کش کرتی ہیں مگر ان کا اصل مقصد مسلمانوں کو غلام بنانا اور ان کی تہذیب و تمدن کو مٹانا ہوتا ہے۔ بڑی بڑی پارٹیوں اور لیڈروں کا بھی یہی حال ہے۔ بڑے بڑے سبز بڑے باغ دکھاتے ہیں ، ملمع شدہ بات کرتے ہیں ، جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔ مگر مقصد محض حصول اقتدار ہوتا ہے۔ پھر جب وہ منزل مراد کو پالیتے ہیں ، تو ان کے تمام وعددے جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوتے ہیں ، تعلیم کے نام پر ، پیری مریدی کے پردے ہیں اور انعامی سکیموں کی آڑ میں لوگوں کے ساتھ ملمع سازی کی جاتی ہے اور دھوکا دیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے مصنف بھی ایسا ہی کرتے ہیں ان کی تصانیف بظاہر بڑی اچھی اور خوش کن ہوتی ہیں مگر اندر زہر بھرا ہوتا ہے۔ بھولے بھالے لوگ خوبصورت الفاظ کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور لوگوں کو دھوکے میں ڈالتے ہیں۔ انسانی شیاطین کا ایک کارنامہ آپ نے کل اخبارات میں پڑھا ہوگا۔ اسلامی قانون شہادت کے مطابق دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔ اس قانون کے خلاف عورتوں نے مظاہرہ کیا ہے۔ شیطان نے ایسی پٹی پڑھائی ہے کہ یہ قانون عورتوں کے ساتھ ظلم ہے ، ان کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے حقوق کی بات ہو رہی ہے مگر درپردہ کمیونسٹ عورتیں اسلام کے خلاف بغاوت کر ارہی ہیں اور عورتوں کو دین سے برگشتہ بنا رہی ہیں۔ شیاطین نے ملمع سازی کے ذریعے عورتوں کو ورغلالیا ہے۔ آخر ہماری حکومت ایسی کھلی بغاوت کا کیوں نوٹس نہیں لیتی۔ حکومت باطل باتوں کے لیے تو طاقت استعمال کرتی ہے مگر حق کے لیے اپنی ذمہ داری کیوں نہیں پوری کرتی۔ اگر پہلے دن سے اسلام کو منتہائے مقصود بنایا ہوتا اور اس کا نفاذ سختی کے ساتھ کرتے تو اس قسم کی پیچدگیاں نہ پیدا ہوتیں۔ اگر مارشل لاء کے ضابطے طاقت کے بل پر لاگو کیے جاسکتے ہیں تو اسلام کی دفاعت کیلئے کیوں حیل و محبت کی جاتی ہے اصل بات یہ ہے کہ اسلام کے لیے نیت میں خلوص نہیں ہے اب اگر اسلام کا قانون شہادت منظور نہیں ہے تو کل کو یہ بھی مطالبہ پیش ہو سکتا ہے کہ زنا کے مقدمہ میں چار مردوں ہی کی گواہی کیوں ہے ، اس حق سے عورتوں کیوں مرحوم گیا ہے ، لہٰذا خدائی قوانین میں دخل اندازی کر کے اس کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ملمع سازی داخل ہوچکی ہے۔ ذرا ان نام نہاد لیڈروں کے دعوے دیکھو ، کوئی غربت ختم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے تو کوئی تعلیم کا جھانسہ دیتا ہے۔ کوئی اسلام کا نام لیتا ہے اور کوئی معیشت کی بات کرتا ہے۔ کوئی زمین الاٹ کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور مکان دینے کا جھانسہ دیتا ہے۔ حقیقت میں بات کچھ بھی نہیں سب جھوٹے وعدے ہیں جو کہ مند اقتدار تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں۔ یہ سب ذخرف القول غرورا ہے۔ ملمع سازی ، دھوکہ اور فریب جو شیاطین انجام دے رہے ہیں۔ فرمایا ولو شاء ربک مافعلہ اگر تمہارا رب چاہتا تو یہ ایسا نہ کر پاتے ۔ مگر اللہ تعالیٰ کسی سے جبراً کوئی کام نہیں کروانا چاہتا ہے۔ اس لیے فرمایا فزرھم وما یفترون اے پیغمبر آپ کو ان کی حالت پر چھوڑدیں اور جو کچھ وہ افتراء کرتے ہیں ، انہیں کرنے دیں۔ ولتصغی الیہ افدۃ الذین لا یومنون بالخرۃ تاکہ ان لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ۔ ظاہر ہے کہ جو آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ تو شیطان کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔ انہیں تو آخرت کی فکر ہوگی کہ اللہ کی بارگاہ میں پیش ہو کر حساب دینا ہے۔ البتہ جنہیں آخرت کے محاسبے پر یقین نہیں ہے۔ وہی ایسی ملمع شدہ باتوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ولیر ضوہ اور تاکہ وہ ایس دھوکے فریب کی باتوں کو ہی پسند کرتے ہیں ۔ انہیں اس طرف لگا رہنے دیں ولیقتر فو ماھم مقرترفون اور وہ جو کچھ بُرا بھلا کماتے ہیں ، انہیں کمانے دیں۔ قیامت کے دن ان کی ساری کمائی سامنے آجائیگی اور انہیں ہر بات کا جواب دینا پڑ؁ گا۔ اللہ نے نبی علیہ اسلام کو تسلی دی کہ زیادہ دل برداشتہ نہ ہوں ، انہیں ان کے حال پر رہنے دیں۔
Top