Urwatul-Wusqaa - Al-Waaqia : 82
وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ
وَتَجْعَلُوْنَ : اور تم بناتے ہو رِزْقَكُمْ : اپنا حصہ اَنَّكُمْ : بیشک تم تُكَذِّبُوْنَ : تم جھٹلاتے ہو
اور (اس کی) تکذیب کو تم نے اپنا حصہ بنا لیا ہے
کیا اس کی تکذیب کو تم نے اپنا حصہ بنا لیا ہے ؟ 28۔ رزق کیا ہے رزق کبھی تو عطا جاری کو کہتے ہیں خوا دنیوی ‘ خواہ اخروی ‘ کبھی حصہ کو کہتے ہیں اور کبھی جو پیٹ میں پہنچ کر غزا بن جاتی ہے اس کو اب غور کرو اس جگہ کیا مراد ہے ؟ ہمارے خیال میں اس جگہ حصہ ہی مراد ہو سکتا ہے کیونکہ اس جگہ بطور سوال پوچھا جا رہا ہے کہ قرآن کریم جو سراسر رحمت خداوندی ہے اور اللہ کا انعام و احسان ہے کیا ؟ اس میں تمہارا حصہ یہی ہے کہ تم اس کو جھٹلاتے ہو مطلب یہ ہے کہ یہ روٹی اور کھانا تو تمہارے لیے پکایا گیا اور تیار کیا گیا تھا لیکن تم اس کے کھانے اور استعمال کرنا کرنے سے انکاری ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے حصہ میں اس کا جھٹلانا ہی آیا ہی اس کا کھانا اور استعمال کرنا نہیں آیا اور اب غور کرو گے تو تم کو معلوم ہوگا کہ آج بد قسمتی سے یہی کچھ مسلماوں کے حصہ میں آیا ہے کیونکہ انھوں نے اس کو استعمال کرنے سے عملی طور پر مکمل انکار کردیا ہے۔ آج بد قسمتی سے قرآن کریم کے متعلق ہر طرح کی بحث اٹھائی جاتی ہے لیکن اگر اس سے استفادہ نہیں کیا جا رہا تو یہی نہیں کیا جا رہا کہ جس مقصد کے لیے اس کا نزول ہوا تھا اس کو مسلمانوں نے مکمل طور پر بھلا دیا۔ اس کا مقصد نزول کیا تھا ؟ یہی کہ { انتم الاعلون ان کنتم مومنین } (3 : 931) ” تم ہی سب سے سر بلند ہو اگر تم سچے مومن ہو ؟ “ قرآن کریم کو ماننے کا اگر وہ نتیجہ نہیں نکل رہا تو سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارا ماننا صحیح نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ ماننے کا مطلب یہی ہے کہ اس کے مطابق عمل ہو اور ہمارے اعمال قرآن کریم کے مطابق نہیں کیونکہ ہم نے تو اس کو زندوں کے لیے سمجھا ہی نہیں اور عمل کرنا تو زندوں کا کام ہے نہ کہ مردوں کا اس لیے مسلمان تسلیم کریں یا نہ کریں بہر حال آج ان کے حصہ میں قرآن کریم کی تکذیب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج قوم مسلم ہی وہ قوم ہے جو دنیا کی پست ترین قوم بن کر رہ گئی ہے۔
Top