Tafseer-e-Madani - Al-Waaqia : 82
وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ
وَتَجْعَلُوْنَ : اور تم بناتے ہو رِزْقَكُمْ : اپنا حصہ اَنَّكُمْ : بیشک تم تُكَذِّبُوْنَ : تم جھٹلاتے ہو
اور تم نے اپنی روزی ہی یہ بنا رکھی ہے کہ تم اسے جھٹلاتے جاؤ ؟
[ 70] انکار و تکذیب حق پر منکرین کی تحمیق و تجہیل کا ذکر وبیان : سو منکرین سے خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگوں نے اس کی تکذیب کو اپنی روزی بنا رکھا ہے اور تم لوگ اس کے جھٹلانے پر ہی کمر بستہ ہو تو کیا اپنے رب اور اپنے خالق ومالک کی بخشش و عطا اور اپنے منعم حقیقی کی نعمتوں کے شکر کا تقاضا یہی ہے کہ تم اس کے کلام کی تکذیب کرو ؟ یا روق کے معنی یہاں پر " حظ " اور نصیب کے ہیں۔ یعنی کیا قرآن پاک کے بارے میں تم نے اپنا حصہ اور نصیب یہی بنا رکھا ہے کہ بجائے ماننے اور ایمان لانے کے تم اس کی تکذیب کرو ؟ [ محاسن، خازن، ابن کثیر، وغیرہ ] نیز اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ رزق سے مراد خود وحی الٰہی یعنی قرآن حکیم ہے۔ کیونکہ یہ قلب و روح کی غذا اور روزی ہے اور قدیم صحیفوں میں وحی الٰہی کو جگہ جگہ روق ہی سے تعبیر فرمایا گیا ہے اور خود قرآن حکیم میں بھی اس کے کئی ثبوت اور شواہد موجود ہیں۔ جیسا کہ سورة انفال کی چوبیسویں آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ لبیک کہو " تم لوگ اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر جبکہ وہ تم کو بلائے اس چیز کی طرف جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے "۔ سو اس صورت میں آیت کریمہ کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے مائدہ آسمانی اتارا تاکہ اس کے ذریعے تم حیات جادواں پاس کو مگر تم ہو کہ اس کو جھٹلاتے ہو۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم، من کل زیغ و ضلال وسواء وانحراف، بکل حال من الاحوال، وھو الھادی الیٰ سواء الصراط۔
Top