Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 78
وَ مِنْهُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں أُمِّيُّوْنَ : ان پڑھ لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہیں جانتے الْكِتَابَ : کتاب اِلَّا اَمَانِيَّ : سوائے آرزوئیں وَاِنْ هُمْ : اور نہیں وہ اِلَّا : مگر يَظُنُّوْنَ : گمان سے کام لیتے ہیں
ان میں ایک دوسرا گروہ امّیوں کا ہے، جو کتاب کا تو علم رکھتے نہیں، بس اپنی بے بنیاد امیدوں اور آرزوؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جا رہے ہیں
[ وَمِنْھُمْ : اور ان میں ہیں ] [ اُمِّيُّوْنَ : ان پڑھ لوگ ] [ لَا يَعْلَمُوْنَ : جن کو علم نہیں ] [ الْكِتٰبَ : کتاب کا ] [ اِلَّآ اَمَانِىَّ : سوائے آرزوں کے ] [ وَاِنْ ھُمْ : اور وہ لوگ نہیں ہیں ] [ اِلَّا يَظُنُّوْنَ : وہ گمان کرتے ہیں ] اللغۃ 2:49:1 (1) [ وَمِنْھُمْ اُمِّیُّوْنَ ] ابتدائی ” وَمِنْھم “ ” وَ “ (اور) + ” مِنْ “ (میں سے) + ” ھُمْ “ (ان) ہے اور یوں اس کا ترجمہ ہوا ” اور ان میں سے “ (ہیں یا تھے) جس کا بامحاورہ ترجمہ ” ان میں سے کچھ : بعض : بہت (ہیں) “ کی صورت میں کیا گیا۔ اور یہ ” کچھ : بعض : بہت “ اگلے لفظ ” اُمِّیّون “ کے نکرہ ہونے کی وجہ سے لگانے پڑے ہیں۔ بیشتر مترجمین نے ” منھم “ کا ترجمہ ” ان میں “ کے ساتھ کیا ہے جو بلحاظ محاورہ درست ہے مگر بظاہر ” فیھم “ کا ترجمہ لگتا ہے۔ [ اُمِّیُّوْنَ ] یہ لفظ ” اُمّتی “ کی جمع مذکر سالم ہے۔ اور ” اُمّتی “ کا مادہ ” ا م م “ اور وزن ” فُعْلِیُّ “ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد باب نصر سے ” اَمَّ یَؤْمُّ “ مختلف مصادر کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے۔ ۔ ” اَمَّ یؤْمُ أُمُوْمَۃً “ کے معنی ہیں ” ماں بننا “ کہتے ہیں ” أَمَّتِ المرأۃُ “ (عورت ماں بن گئی) اور اسی سے لفظ ” اُمٌّ“ ہے جس کے بنیادی معنی ” ماں “ ہیں۔ دیگر معانی و استعمال آگے حسب ِ موقع آئیں گے۔ ۔ ” اَمَّ یَؤْمُّ أَمًّا “ کے معنی ہیں : ” کسی چیز کا قصد کرنا “ مثلاً کہیں گے : ” امّ فلانٌ اَمْرًا “ (فلاں نے ایک کام کا قصد کیا) اور اسی سے لفظ ” اُمَّۃٌ“ ہے یعنی وہ جماعت یا لوگ جو ایک مشترکہ قصد ارادہ اور واحد نصب العین رکھتے ہوں۔ اس لفظ (اُمّۃ) کے بعض دوسرے معنی بھی ہیں جو حسب موقع بیان ہوں گے۔ ۔ ” اَمَّ یَؤْمُّ اِمَامَۃً “ کے معنی ہیں ” لوگوں کے آگے چلنا اور ان کا لیڈر بننا “ کہتے ہیں ” اَمَّ النّومَ “ (اس نے لوگوں کی (نماز میں) امامت کی یا وہ لوگوں کا امام بنا) ۔ عربی میں لفظ ” امام “ کے بھی متعدد معانی ہیں یہ بھی حسب موقع سامنے آئیں گے۔ قرآن حکیم میں ان (تینوں) افعال سے کوئی صیغہ فعل تو کہیں استعمال نہیں ہوا البتہ اس سے مشتق اور ماخوذ کلمات (امّ ۔ امّۃ۔ اَمّ ۔ إمام وغیرہ) مختلف صورتوں (واحد جمع مفرد مرکب) میں بکثرت وارد ہوئے ہیں جن پر اپنی اپنی جگہ بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ ؤ لفظ ” اُمِّیٌّ“ (جس کی جمع ” اُمِّیُّون “ اس وقت زیر مطالعہ ہے) اسم نسبت ہے جس کی نسبت ” اُمّ “ سے بھی ہوسکتی ہے اور ” اُمَّۃ “ سے بھی۔ (جیسے ” مکۃ “ سے ” مَکِّیٌّ“ بنتا ہے) ۔ اس لفظ (اُمّی) کے بنیادی معنی ” ناخواندہ یا ان پڑھ ہیں۔ یعنی جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو (ضروری نہیں کہ وہ جاہل یا نادان ہو) ۔ گویا وہ بلحاظ خواندگی ویسا ہی ہو جیسا اسے ماں نے جنا تھا یا ” ماں کے پاس ہی رہا کسی استاد کے پاس مدرسے وغیرہ میں نہ گیا۔ “ ؤ یہ لفظ (امّی) قرآن کریم میں رسول اللہ ﷺ کی صفت کے طور پر دو جگہ (الاعراف :157 ، 158) آیا ہے۔ اور ” اُمِّیّ “ ہونا آپ ﷺ کی فضیلت اور آپ کا معجزہ اور دلیل صداقت ہے۔ ظہورِ اسلام سے پہلے اہل عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس لیے عربوں کو ” اُمّۃ اُمِّتۃ “ (ناخواندہ امت) کہا جاتا تھا اور ایک موقع پر آپ ﷺ نے خود بھی فرمایا : ” نحن اُمّۃ امّیۃٌ“ (ہم ناخواندہ امت ہے) ۔ اس کے علاوہ آپ ﷺ کا ” امّی “ ہونا ” ام القری “ (مکہ مکرمہ) سے نسبت رکھنے والا کی بنا پر بھی ہوسکتا ہے اور ” امۃ امِّیّۃ “ کی نسبت رکھنے والا کی مناسبت سے بھی۔ ؤ یہودی اپنے سوا باقی سب لوگوں کو ” امّیّون “ (اُمّی لوگ) کہتے تھے (آل عمران :75) اس طرح لفظ ” امیون “ (بصورت جمع) کہیں ” ناخواندہ اور اَن پڑھ لوگوں “ کے بنیادی معنی میں استعمال ہوا ہے اور بعض جگہ اس سے مراد غیر اہل کتاب (Gentiles) بھی لیے جاسکتے ہیں۔ ؤ زیر مطالعہ مقام پر لفظ ” امِّیّون “ بظاہر اپنے بنیادی معنی (ان پڑھ لوگ) میں استعمال ہوا ہے کیونکہ بلحاظِ سیاقِ عبارت اہل کتاب (یہودیوں) کے امّیّون (ان پڑھوں) کا ذکر ہے۔ اور اسی لیے بیشتر مترجمین نے یہاں اس کا ترجمہ ’ ان پڑھے : بےپڑھے : بن پڑھے : ناخواندہ اور ان پڑھ “ سے کیا ہے۔ [ لَا یَعْلَمُوْنَ الْکِتٰبَ ] یہ ایک جملہ ہے۔ جس کا پہلا حصہ ” لایعلمون “ مادہ ” ع ل م “ سے بروزن ” لایَفعَلون “ فعل مضارع منفی (بلا) ہے۔ جس کے باب معنی (عِلم یعلَم = جاننا) وغیرہ کی وضاحت البقرہ :13 [ 2:10:1 (3)] میں کی جاچکی ہے۔ دوسرا لفظ ” الکتاب “ (مادہ ” ک ت ب “ سے بروزن ” فِعَال “ ) ہے ان کے معنی وغیرہ [ 2:1:1 (2)] میں بیان ہوئے تھے۔ لفظ ” کتاب “ اردو میں مستعمل ہے۔ اس لیے اس عبارت (لایعلمون الکتاب) کا ترجمہ ” نہیں جانتے کتاب کو، کتاب کو نہیں جانتے، خبر نہیں رکھتے کتاب کی “ اور ” وہ کتاب سے واقف ہی نہیں “ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔ البتہ بعض نے ” الکتاب “ کے لام تعریف کی وجہ سے ” خاص کتاب “ کا مفہوم لے کر ترجمہ ” کتاب الٰہی کا کوئی علم نہیں رکھتے “ یا ” اللہ کی کتاب کو نہ جانتے “ کے ساتھ کیا ہے جو تفسیری ترجمہ ہے۔ اس ” لایعلمون “ کا ایک اور مفہوم حصہ الاعراب میں بیان ہوگا۔ 2:49:1 (2) [ اِلَّا اَمَانِیَّ ] میں ” اِلّا “ تو حرفِ استثناء ہے جس کا ترجمہ ” مگر : سوائے : لیکن : بغیر “ سے کیا جاسکتا ہے۔ لفظ [ اَمَانِیَّ ] غیر منصرف جمع مکسر ہے (جو عبارت میں منصوب آیا ہے) اس کا ۔۔ ” اُمْنِیَّۃٌ“ ہے جس کا مادہ ” م ن ی “ اور وزن اصلی اس کا ” اُفْعُوْلَۃٌ“ ہے یعنی یہ دراصل ” اُمُنُوْا “ تھا۔ پھر ” و “ کو بھی ” ی “ میں بدل کر دونوں ” یائ “ مدغم کردی جاتی ہیں اور پھر ” ی “ سے ماقبل ضمیر کو ثقیل سمجھتے ہوئے کسرہ (-ِ ) میں بدل کر لکھا اور بولا جاتا ہے (جیسے مَبیُوْع سے مَبِیْعٌ اور مَومُویٌ سے مَوْمِیٌّ بنتا ہے) یوں یہ لفظ ” اُمنیّۃ “ بنتا ہے۔ ؤ اس مادہ سے فعل مجرد ” مَنَی یَمْنِی مَنْیًا “ (ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ” کسی چیز کا اندازہ لگانا “ اور اس سے اس میں ” آزمانا، آمائش میں ڈالنا “ کے معنی پیدا ہوتے ہیں جس کو آزمایا جائے وہ تو مفعول بنفسہٖ آتا ہے اور جس چیز سے آزمایا جائے اس پر باء (ب) کا صلہ لگتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ” مناۃ اللّٰہُ بِحُبِّھا “ (اللہ نے اس (مرد) کو اس (عورت) کی محبت میں مبتلا کردیا یا اس کے ذریعے آزمائش میں ڈالا) ویسے ان (آزماتا اور امتحان لینا والے) معنی کے لیے یہ فعل واوی مادہ سے ” منا یَعْنُو مَنْوًا “ بھی استعمال ہوتا ہے مگر لفظ ” اُمنیّہ “ صرف یائی مادہ (م ن ی) سے آتا ہے۔ یہ فعل بعض صلات کے ساتھ اور صلہ کے بغیربعض دیگر معانی کے لیے بھی آتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے کوئی صیغۂِ فعل کسی معنی کے لیے بھی استعمال نہیں ہوا۔ البتہ مزید فیہ کے ابواب تفعیل، افعال اور تفعل سے مختلف صیغے چودہ جگہ آئے ہیں اور مختلف مشتق و ماخوذ کلمات (امنیّۃ، امانی، مِنِّی، مناۃ وغیرہ) دس کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ ” اُمنِیَّۃٌ“ (جس کی جمع ” اَمَانِیُّ “ اس وقت زیر مطالعہ ہے) کے بنیادی معنی ہیں : کسی چیز کی آرزو کرنے سے اس چیز کے بارے میں دل میں آنے والا تصور یا اندازہ “ یعنی جس چیز کے بارے میں دل میں اندازے لگائے جائیں۔ اس سے لفظ میں ” مرکز آرزو، خیالی اندازہ، دل میں باندھے ہوئے اندازے “ کا مفہوم پیدا ہوتا ہے چاہے وہ اندازہ (اور آرزو) حقیقت پر مبنی ہو یا اٹکل پر۔ بلکہ اکثر یہ لفظ ” اٹکل پچو اندازہ اور خیالی پلائو کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے اور یوں اس میں ” کذب “ اور ” جھوٹ “ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی جھوٹی آرزو۔ لفظ ” امنیۃ “ (واحد) قرآن کریم میں ایک جگہ (الحج :52) اور ” امانی “ (بصورت جمع اور مفرد مرکب معرفہ نکرہ) کل پانچ جگہ آیا ہے۔ اور اسی لفظ (امنیۃ) کا ایک معنی ” بےفہم تلاوت “ بھی مراد لیا گیا ہے کیونکہ بقول راغب ” بےمعرفت تلاوت “ بھی تخمین و ظن (اٹکل یا اندازہ) ہی ہوتی ہے۔ اس طرح یہاں ” امانی “ کا ترجمہ اکثر نے تو ” آرزوئیں، جھوٹی آرزوئوں، بلا سند دل خوش کن باتیں، باندھی ہوئی آرزوئیں، اور خیالات باطل “ کی صورت میں کیا ہے اور بعض نے دوسرے معنی کو سامنے رکھتے ہوئے ” زبانی پڑھ لینا “ اور ” بڑبڑا لینا “ سے ترجمہ کیا ہے۔ جب کہ بعض نے اس کا ترجمہ ” من گھڑت باتیں “ کیا ہے جو ” امانی “ سے زیادہ ” مفرّیات “ (افتراء کردہ چیزیں) کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔ اس عبارت ” لا یعلمون الکتاب الامانی “ کا ایک اور مفہوم حصہ ” الاعراب “ میں ” امانی “ کی نصب کے سلسلے میں بیان ہوگا۔ [ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا یَظُنُّونَ ] یہ ” وَ “ (بمعنی اور) + اِنْ (نافیہ بمعنی ” نہیں “ ) + ” ھُمْ “ (ضمیر غائب بمعنی ” وہ سب “ ) + ” اِلَّا “ (بمعنی مگر : سوائے) ” یظنّون “ (جس کے ترجمہ پر ابھی بات ہوگی) کا مرکب جملہ ہے۔ ” یظنون “ (کا مادہ ” ظ ن ن “ اور وزن ” یَفْعَلُونَ “ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب وغیرہ اور خود اسی صیغہ کے معانی کی البقرہ :46 [ 2:30:1 (4)] میں وضاحت ہوچکی ہے۔ زیر مطالعہ عبارت میں ” ظن “ صرف ” گمان اور جاہلانہ خیال “ کے معنی میں ہے کیونکہ اس سے پہلے (” لایعلمون “ میں) علم کی نفی کی گئی ہے۔ اس طرح اس عبارت (ان ھم الا یظنون) کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ” نہیں وہ مگر گمان کرتے ہیں “ بیشتر مترجمین نے بامحاورہ بنانے کے لیے ” ان “ (نہیں) اور ”إلّا “ (مگر) کا مجموعی ترجمہ یا مفہوم ” محض، فقط، صرف، نرے اور ہی “ کے ذریعے ظاہر کیا ہے یعنی ” یہ لوگ اور کچھ نہیں صرف خیالات پکا لیتے ہیں : فقط خیالی تکے چلاتے ہیں : صرف ظن سے کام لیتے ہیں : محض تخیلات میں پڑے رہتے ہیں : نرے گمان میں ہیں : گمان ہی گمان رکھتے ہیں : ان کا خیال ہی خیال ہے “ کی صورت میں تراجم کیے گئے ہیں۔ اصل مفہوم ایک ہی ہے۔ عبارت کو زور دار بنانے کے لیے مختلف محاورے استعمال کیے گئے ہیں۔
Top