Mualim-ul-Irfan - Al-Hijr : 6
وَ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌؕ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے يٰٓاَيُّھَا : اے وہ الَّذِيْ نُزِّلَ : وہ جو کہ اتارا گیا عَلَيْهِ : اس پر الذِّكْرُ : یاد دہانی (قرآن) اِنَّكَ : بیشک تو لَمَجْنُوْنٌ : دیوانہ
اور کہا ان لوگوں نے اے وہ شخص کہ اتارا گیا ہے جس پر ذکر ، بیشک تو البتہ دیوانہ ہے ۔
(ربط آیات) سورة ہذا کی پہلی آیت کریمہ میں قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت بیان ہوئی پھر کفر کرنے والوں کا آخرت میں آرزو کرنا مذکور ہوا کہ وہ کہیں گے کاش کہ وہ مسلمان ہوتے تو اس دن کی ذلت سے بچ جاتے پھر اس مہلت کا ذکر ہوا جو کافر مشرک اور معصیت شعار لوگوں کو دنیا میں حاصل ہوتی ہے ، فرمایا ان کو چھوڑ دیں اور کھانے پینے دیں ، یہ دنیا میں فائدہ اٹھاتے رہیں اور آرزوئیں ان کو غفلت میں ڈالتی رہیں ، بالآخر ان کو پتہ چل جائے گا کہ حق کیا تھا اور باطل کیا ، اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ ہر قوم اور جماعت کی ہلاکت کا ایک وقت مقرر ہے جس پر وہ اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے ، خدا تعالیٰ مجرموں کو مہلت دیتا ہے مگر انہیں سزا دیے بغیر چھوڑتا نہیں ۔ (دیوانگی کا الزام) اب اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی بعض حرکات کا شکوہ کیا ہے ، ارشاد ہوتا ہے ” وقالوا “۔ انہوں نے کہا (آیت) ” یایھا الذی نزل علیہ الذکر “۔ اے وہ شخص کہ جس پر ذکر اتارا گیا ہے کفار ومشرکین کا یہ خطاب حضور ﷺ سے ہے کہ آپ ہی پر ذکر یعنی قرآن پاک اتارا گیا ، قرآن پاک کے بہت سے ناموں میں سے ذکر بھی ایک نام ہے جس کا معنی نصیحت ہے تو نافرمان اور سرکش لوگ کہتے تھے (آیت) ” انک لمجنون “ کہ تو تو دیوانہ ہے (العیاذ باللہ) وہ لوگ اپنے تعصب عناد ، نادانی اور حماقت کی بناء پر آپ سے استہزاء کرتے تھے کہ آپ تو دیوانوں جیسی باتیں کرتے ہیں ، مثلا آپ کہتے ہیں کہ خدا ایک ہے ، وہ وحدہ لاشریک ہے ، بھلا یہ بھی کوئی عقلمندی کی بات ہے ؟ (آیت) ” اجعل الالھۃ الھاواحد ان ھذا لشیء عجاب “۔ کیا ہم سارے معبودوں کو چھوڑ کر صرف ایک الہ کو مان لیں ، یہ تو عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے ، یا آپ کہتے ہیں کہ قیامت برپا ہوگی ، محاسبے کا عمل آئیگا ، اور پھر جزا وسزا کا فیصلہ ہوگا ، بھلا یہ بھی کوئی قابل یقین بات ہے کہ مرنے کے بعد پھر سارے جی اٹھیں گے ؟ یہ تو پاگلوں جیسی باتیں ہیں ہم ان کو نہیں مانتے ۔ (نزول ملائکہ کی فرمائش) کہنے لگے اگر آپ نبوت کا دعوی کرتے ہیں (آیت) ” لوماتاتینا بالملئکۃ “۔ تو ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں لے آتے (آیت) ” ان کنت من الصدقین “۔ اگر آپ سچے ہیں اللہ کے فرشتے ہمارے سامنے آکر گواہی دیں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں تو پھر ہم مانیں گے ، کہ اللہ نے واقعی آپ کو ہماری طرف مبعوث فرمایا ہے ، اور آپ پر قرآن بھی نازل کیا ہے اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا (آیت) ” مانزل الملئکۃ الا بالحق “۔ ہم نہیں فرشتوں کو اتارتے مگر حق کے ساتھ ، جب اللہ کی حکمت اور مصلحت ہوتی ہے ، تو فرشتے نازل ہوتے ہیں ، اللہ نے فرمایا کہ جب فرشتے اتریں گے (آیت) ” وما کانوا اذا منظرین “۔ تو پھر انہیں مہلت بھی نہیں ملے گی ، فوری گرفت ہوگی اور عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے ،۔ (حفاظت قرآن کا ذمہ) اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ قرآن کریم میں تردد کرتے ہیں اور اسے خدا کا کلام نہیں مانتے مگر حقیقت یہ ہے (آیت) ” انا نحن نزلنا الذکر “۔ ہم ہی نے اس ذکر (قرآن) کو نازل کیا ہے (آیت) ” وانا لہ لحفظون “۔ اور بیشک ہم ہی البتہ اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ، مطلب یہ کہ منکرین اس خدائی پروگرام کو مٹانے کی جتنی بھی کوشش کرلیں ، ہم خود اس کے محافظ ہیں ، اس قرآن کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا اور یہ اپنی اصلی حالت میں قیامت تک محفوظ رہے گا ، مشرکین نے جنگ وجدل کے ذریعے قرآن کو ختم کرنے کی کوشش کی جب کہ یہودیوں نے سازشوں کے ذریعے اہل ایمان اور ان کی کتاب کو مٹانا چاہا ، مگر اللہ نے اس کی حفاظت کا ذمہ خود اٹھا لیا ۔ حدیث قدسی میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” انزلت الیک الکتب “۔ میں نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب نازل فرمائی ہے ، جسے نہ آگ جلا سکتی ہے اور نہ پانی دھو سکتا ہے ، اللہ نے سورة العنکبوت میں یہ بھی فرمایا ہے (آیت) ” بل ھو ایت بینت فی صدور الذین اوتوالعلم “۔ یہ تو ایسی واضح آیات ہیں جو اللہ نے اہل علم کے سینوں میں جمع کردی ہیں لہذا اسے کون مٹا سکتا ہے ؟ مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) لکھتے ہیں کہ اللہ نے اس کتاب کی حفاظت کا ایسا انتظام کردیا ہے جس سے متعصب اور مغرور مخالفین کے سر بھی نیچے ہوگئے ہیں اور انہوں نے اس کی حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے ۔ میور ایک انگریز پادری تھا ، ہندوستان میں یوپی کا گورنر بھی رہا شدید متعصب عیسائی تھا ، اس کا مقولہ ہے کہ دو چیزیں انسانیت کی دشمن ہیں ایک محمد ﷺ کا قرآن اور دوسری محمد ﷺ کی تلوار ، اس کے باوجود وہ کہتا ہے کہ جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے دنیا بھر میں ایک بھی کتاب ایسی نہیں جو قرآن کی طرح بارہ صدیوں تک تحریف سے پاک رہی ہو ، بعض دوسرے یورپی محققین نے بھی تسلیم کیا ہے کہ جس طرح مسلمان قرآن پاک کو خدا کا کلام سمجھتے ہیں اسی طرح ہم بھی اسے بعینہ محمد ﷺ کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ سمجھتے ہیں یہود ونصاری اگرچہ قرآن کو خدا کا کلام نہیں مانتے مگر حضور ﷺ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ وہ بھی ماننے پر مجبور ہیں ۔ (حفاظت قرآن کا قدرتی نظام) تاریخ گواہ ہے کہ ہر زمانے میں علماء کا ایک عظیم گروہ موجود رہا ہے جس نے قرآن پاک کے علوم ومطالب اور اس کے لامنتہا عجائبات کی ہمیشہ حفاظت کی ہے ، یہ حضرات ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف کو یاد کرتے رہے ہیں اور آئندہ نسلوں تک پہنچاتے رہے ہیں ، قرآن پاک کا رسم الخط بھی اس کی حفاظت کا ذمہ دار رہا ہے ، پرانے کوفی رسم الخط ‘ نستعلیق ، نسخ اور دیگر خطوں میں قرآن پاک ہمیشہ محفوظ رہا ہے ، حفاظ نے اس کو حرف بحرف زبانی یاد کرکے اور قاری حضرات نے اس کی صحت لفظی کے لحاظ سے حفاظت کا فریضہ انجام دیا ہے ، بعض لوگوں نے اس کی جزئیات کو شمار کرکے اس کی حفاظت کی ہے ، کسی نے قرآن کے رکوع شمار کیے تو کسی نے آیات کسی نے اس کے الفاظ کو گنا ہے اور کسی نے حروف کو شمار کرلیا ہے ، نزول قرآن کے زمانہ سے لے کر آج تک کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا جس میں لاکھوں کی تعداد میں حفاظ موجود نہ ہوں ، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ آٹھ دس سال کا پاکستانی یا ہندوستانی بچہ ‘ افریقی یا ملائی ، جس کی اپنی مادری زبان بھی عربی نہیں اور وہ خود اپنی زبان میں چھوٹی سی کتاب بھی یاد نہیں رکھ سکتا ، مگر قرآن پاک اسے حرف بحرف زبانی یاد ہے ، کوئی بڑے سے بڑا عالم بھی اگر تلاوت میں غلطی کرتا ہے تو وہ بچہ فورا ٹوک دیتا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی حفاظت کا ایسا اچھا نظام قائم کر رکھا ہے ۔ (قبول اسلام کا ایک واقعہ ) صاحب ” معارف القرآن “ مفتی محمد شفیع (رح) نے امام قرطبی کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کیا ہے ، اس واقعہ کا راوی خلیفہ مامون الرشید عباسی کا بڑا قاضی اکثم تھا ، خلیفہ کے دربار میں بڑے بڑے فقہا ، عالم اور ماہرین جمع ہو کر مختلف مسائل پر بحث کیا کرتے تھے ، ایک دفعہ ایسی ہی ایک بحث چل رہی تھی کہ ایک نہایت ہی وجیہہ شخص محفل میں شامل ہوا اور اس نے نہایت فصیح وبلیغ زبان اور عالمانہ انداز میں بحث میں حصہ لیا ، اختتام مجلس پر خلیفہ نے اس شخص سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ یہودی مذہب رکھتا ہے ، خلیفہ مامون الرشید نے کہا کہ اگت تم مسلمان ہوتے تو ہم تمہاری بہت قدرومنزلت کرتے ، اس شخص نے کہا کہ وہ اپنا مذہب چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور چلا گیا ، کوئی ایک سال بعد دربار میں پھر اسی قسم کی مجلس برپا تھی کہ وہ شخص پھر داخل ہوا اور بحث میں پورا پورا حصہ لیا ، جب مجلس برخاست ہوئی تو مامون الرشید نے اسے دریافت کیا کہ کیا تم وہی شخص نہیں جو گذشتہ سال بھی یہاں آئے تھے ؟ اس نے کہا میں وہی شخص ہوں ، اس وقت میں یہودی تھا مگر اب مسلمان ہوچکا ہوں ، خلیفہ نے پوچھا کہ تم نے اسلام کیسے قبول کرلیا حالانکہ تم اپنا پہلا مذہب چھوڑنے پر تیار نہیں تھے ، اس شخص نے جواب دیا کہ آپ کی گذشتہ سال کی پیش کش پر میں نے بڑا غور وفکر کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے مختلف مذاہب پر تحقیق کرنے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنا چاہئے ، اس مقصد کے لیے میں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ میں نے نہایت عمدہ خط میں تورات کا ایک نسخہ لکھا اور اس میں کہیں کہیں تغیر وتبدل کردیا ، وہ نسخہ میں نے یہودی علماء کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے خوشی سے قبول کرلیا ، پھر میں نے انجیل کی بڑی خوش خط کتابت کرکے عیسائیوں کے سامنے پیش کی ، تو انہوں نے اسے شکریہ کے ساتھ قبول کرلیا ، میرا تیسرا نشانہ قرآن پاک تھا میں نے اس کو بھی بہت اچھے خط میں تحریر کیا اور حسب معمول اس میں تحریف بھی کردی ، پھر جب میں نے اسے مسلمان علماء کی خدمت میں پیش کیا تو کسی نے بھی بلاتحقیق اسے قبول نہ کیا ، انہوں نے حفاظ سے اس کی تصدیق چاہی مگر جب معلوم ہوا کہ اس میں ردوبدل کیا گیا ہے تو نسخہ واپس کردیا کہ یہ ہمارے کام کا نہیں ہے وہ شخص کہنے لگا کہ اس بات پر مجھے یقین آگیا کہ قرآن پاک ہی ایک واحد کتاب ہے جو ہر قسم کی تحریف سے پاک ہے اور یہی اس کی صداقت کی دلیل ہے ، اس پر میں نے اسلام قبول کرلیا ۔ (لفظی اور معنوی حفاظت) جب حج کے لیے مکہ مکرمہ گئے تو قاضی اکثم نے یہ واقعہ امام سفیان ابن عیینہ (رح) کے سامنے ذکر کیا ، آپ امام ابوحنیفہ (رح) کے تلمیذ اور امام بخاری (رح) کے استاد ہیں اور اپنے زمانے کے امام ، محدث اور فقیہہ ہیں اس پر امام سفیان ابن عیینہ نے فرمایا کہ یہ واقعہ ایسا ہی ہونا چاہئے کیونکہ اللہ نے تورات وغیرہ کے متعلق فرمایا ہے (آیت) ” بما استحفظوا من کتب اللہ “۔ (المائدہ) کہ ان لوگوں کو کتاب الہی کا محافظ بنایا گیا تھا ، مگر وہ اس کی حفاظت میں ناکام رہے ، پھر اللہ پاک کے متعلق فرمایا (آیت) ” انا نحن نزلنا لذکر وانا لہ لحفظون “۔ کہ اسے ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ، لہذا قرآن کریم ہر قسم کی لفظی اور معنوی تحریف سے بالکل پاک ہے اگر کوئی بدبخت اس کے معانی میں غلط بیانی کی جسارت کرتا بھی ہے تو اللہ تعالیٰ اہل علم کو کھڑا کردیتا ہے جو فورا اس غلطی کی نشاندہی کردیتے ہیں ، سرسیدا حمد خاں ، پرویز ، نیاز فتح پوری ، اور غلام احمد قادیانی وغیرہ نے غلط سلط معانی کیے تو علمائے حق نے ان کے دجل و فریب کو چاک کردیا اہل بدعت اور رافضی وغیرہ جو بھی خرابی کرتے ہیں ، اہل علم اس کو ظاہر کردیتے ہیں ، حضور کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر دور میں ایسے لوگوں کو کھڑا کردیتا ہے جو قرآن پاک کی حفاظت کے ذمہ دار ہوتے ہیں ، یہودیوں نے قرآن میں تحریف کرنے کی بڑی کوشش کی اور افریقہ کے نو مسلموں کو تحریف شدہ نسخے بھیجے مگر اللہ نے مصر میں کرنل ناصر کو کھڑا کردیا جس نے اس سازش کو چاک کیا ، لاکھوں کی تعداد میں غلطی سے پاک نسخے تیار کرائے اور انہیں پورے افریقہ میں تقسیم کرایا ۔ (رسولوں کے ساتھ استہزاء ) آگے تسلی کا مضمون آرہا ہے ۔ (آیت) ” ولقد ارسلنا من قبلک فی شیع الاولین “۔ اور تحقیق ہم نے بھیجے آپ سے پہلے رسول پہلے گروہوں میں (آیت) ” وما یاتیھم من رسول الا کانوا بیہ یستھزء ون “۔ اور نہیں آتا تھا ان کے پاس کوئی رسول مگر وہ اس سے ٹھٹا کرتے تھے ، کہتے لاؤ ہمارے سامنے فرشتوں کو اتارو ، تم تو دیوانوں جیسی باتیں کرتے ہو ، اللہ نے فرمایا (آیت) ” کذلک نسلکہ فی قلوب المجرمین “۔ اسی طرح ہم چلاتے ہیں اسے مجرموں کے دلوں میں یعنی مجرم لوگ (آیت) ” لایؤمنون بہ “۔ اس رسول پر ایمان نہیں لاتے بلکہ اسے جھٹلاتے ہیں ، (آیت) ” وقد خلت سنۃ الاولین “۔ اور پہلے لوگوں سے یہی دستور چلا آرہا ہے کہ وہ اپنے رسولوں کے ساتھ استہزاء کرتے رہے ہیں اور اللہ کی کتاب کا انکار کرتے رہے ہیں فرمایا ، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جو آپ کو پیش آرہی ہے بلکہ پہلے رسولوں کے ساتھ بھی اسی قسم کے معاملات پیش آتے رہے ہیں ، مجرم لوگ پہلے رسولوں کا بھی انکار کرتے رہے اور ان کو مجنون ، شاعر اور کاہن کا خطاب دیتے رہے ، بہرحال یہ حضور ﷺ کے لیے تسلی کا مضمون بھی ہوگیا ۔ (کفار کا مسلسل انکار) کفار کے اس مطالبے کے جواب میں کہ آسمان سے فرشتے کیوں نہیں نازل ہوتے ، اللہ نے فرمایا (آیت) ” ولو فتحنا علیھم باب من السمآء اگر ہم ان پر آسمان کا دروازہ بھی کھول دیں (آیت) ” فظلوا فیہ یعرجون “ کہ یہ اس میں سیڑھی کے ذریعے چڑھتے رہیں ، تو پھر بھی یہ متعصب اور ضدی لوگ ” لقالوا “ یہی کہیں گے (آیت) ” انما سکرت ابصارنا “۔ کہ ہماری نظر بندی کر دیگئی ہے ، (آیت) ” بل نحن قوم مسحوروں “۔ بلکہ ہم ایسے لوگ ہیں جن پر سحر کردیا گیا ہے مطلب یہ کہ لوگ آسمان پر چڑھ کو بھی اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آئیں گے اور قرآن اور نبی برحق کا انکار ہی کرتے رہیں گے ، اللہ نے حضور خاتم النبیین ﷺ کو تسلی دی ہے کہ آپ ان کے اعتراضات کی طرف توجہ نہ دیں بلکہ اپنا کام کرتے رہیں ، یہ تو اپنی مطولبہ نشانیاں دیکھ کر بھی یہی کہتے ہیں (آیت) ” سحر مستمر “۔ (القمر) یہ تو چلتا ہوا جادو ہے پہلے بھی لوگ ایسا جادو کیا کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں شق القمر کا معجزہ دیکھ کر انہوں نے یہی کہا تھا ، فرمایا ایسے لوگ ہدایت سے محروم رہیں گے ، آپ ان پر زیادہ افسوس نہ کریں ، اپنا حق تبلیغ ادا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں منصف مزاج لوگ ہدایت حاصل کرلیں گے ۔
Top