Tafseer-e-Madani - Al-Hijr : 6
وَ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌؕ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے يٰٓاَيُّھَا : اے وہ الَّذِيْ نُزِّلَ : وہ جو کہ اتارا گیا عَلَيْهِ : اس پر الذِّكْرُ : یاد دہانی (قرآن) اِنَّكَ : بیشک تو لَمَجْنُوْنٌ : دیوانہ
اور کہتے ہیں یہ لوگ (اللہ کے رسول سے) کہ اے وہ شخص جس پر اتارا گیا ہے یہ ذکر، تو تو پرلے درجے کا دیوانہ ہے،
7۔ کفار کے پیغمبروں سے مذاق واستہزاء کے ایک نمونے کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ اللہ کے رسول سے کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس پر یہ ذکر اتارا گیا ہے یقینا تو پرلے درجے کا دیوانہ ہے، سو کفار ناہنجار کا حضرت محمد ﷺ سے ایسا کہنا مذاق واستہزاء کے طور پر تھا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اس سے ان بدبختوں کے اس مزاح واستہزاء کا ایک نمونہ سامنے آتا ہے۔ جس کا ارتکاب وہ حضرت رسالت مآب ﷺ کی جناب اقدس واعلیٰ کے بارے میں کیا کرتے تھے، کیوں کہ ان لوگوں کا یہ کہنا ٹھٹھا اور مذاق کے طور پر تھا۔ یعنی اے وہ شخص جو اپنے اوپر قرآن کے اترنے کا دعویدار ہے (صفوۃ، محاسن، جامع ور مراغی وغیرہ) اور اس طرح انہوں نے اپنی ذلت میں اضافے اور اپنی سیاہ بختی کو مزید پختہ کرنے کا سامان کیا کہ آسمان پر تھوکا جو خود تھوکنے والے انسان کے اپنے ہی منہ پر آلگتا ہے اور حق اور داعی حق کی جناب میں گستاخی کا نتیجہ دولت حق و ہدایت سے محرومی میں اضافہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف ان کا آنحضرت ﷺ سے یہ کہنا طنز و مذاق کے طور پر تھا، کیونکہ وہ نہ تو اس ذکر کو مانتے تھے۔ سو ان کا یہ قول ویسے ہی تھا جیسا کہ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اپنے درباریوں سے کہا تھا (ان رسولکم الذی ارسل الیکم لمجنون) یعنی " تمہارے یہ صاحب جو اپنے تئیں رسول ہونے کے مدعی ہیں، پرلے درجے کے دیوانے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 8۔ کفار ناہنجار کا حضرت امام الانبیاء ﷺ کو مجنون قرار دینا۔ والعیاذ باللہ : اس استہزاء و تحقیر اور حضرت رسالت مآب ﷺ کی شان اقدس میں ان کی گستاخی اور اس کی تاکید ملاحظہ ہو کہ جملیہ اسمیہ جو دوام استمرار پر دلالت کرتا ہے۔ " ان " حرف تاکید اور پھر لام تاکید کا۔ اور اس سب گستاخی اور بےہودگی کا ارتکاب ان ظالموں نے حضرت رسالت پناہ ﷺ کی جناب اقدس میں اس پیغام اور دعوت حق کی بناء پر کیا تھا جو کہ سراسر پیغام حق و صداقت ہے۔ اور جو خود انہی کے بھلے کے لیے تھی، مگر کفر و شرک کی نحوست کی ماری ہوئی ان کی کھوپڑیوں میں اس کی حقانیت بیٹھ ہی نہیں رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ان بیشمار خود ساختی خداؤں کی نفی کرکے ایک ہی خدائے واحد پر ایمان کی بات کیسے مانی جائے۔ (اجعل الالہۃ الھا واحدا ان ھذا لشیء عجاب) (ص : 5) نیز یہ کہ اس دنیائے دوں کی ان حاضر ونقد لذتوں کو ہم آخرت کی ادھار اور ان دیکھی نعمتوں پر کیسے اور کیوں قربان کردیں ؟ وغیرہ وغیرہ۔ سو یہاں سے یہ عظیم درس بھی ہمیں ملتا ہے کہ جب اللہ پاک کی مخلوق میں سے سب بڑی اور پاکیزہ ہستی کو بھی لوگوں نے معاف نہیں کیا۔ تو کون ہوسکتا ہے جس کو سب اچھا کہیں ؟ سو ایسا نہ کبھی ہوانہ ہوسکتا ہے کہ دعوت حق کا تقاضا اور اس کا خاصہ ہی یہ ہے کہ جب اس کو صاف وصریح انداز میں پیش کیا جائے تو اہل باطل اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے لاؤلشکر سمیت اس کے مقابلے میں نکل جائیں۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔ اور جب حضرت امام الانبیاء ﷺ کو بھی ابنائے کفر وباطل نے معاف نہیں کیا اور ان کے حق میں بھی اس حد تک غلیظ اور نارواجملے استعمال کئے گئے تو پھر اور کون ہوسکتا ہے جو حق بھی بیان کرے اور حق کی بات بلا کسی لاگ لپٹ کے کہے۔ اور ابنائے کفر وباطل اور اہل زیغ وضلال اس کے خلاف کچھ بولیں بھی نہ ؟ اس لئے داعی حق کے دل میں یہ بات کبھی آنی ہی نہیں چاہیے کہ سب لوگ مجھے اچھا کہیں۔ بلکہ اس کو فکرودھن صرف اس بات کی ہونی چاہئے کہ میرا معاملہ میرے رب سے صحیح ہو۔ اور وہ مجھ سے راضی رہے اور بس۔ اس کے بعد دنیا کیا کہتی ہے اس کی کوئی فکروپرواہ نہیں ہونی چاہئے۔ وباللہ التوفیق۔ بہرکیف کفار ناہنجار نے حضرت امام الانبیاء ﷺ کو مجنون قرار دے کر اپنی سیاہ بختی کو اور گہرا اور پکا کردیا۔ والعیاذ باللہ العظیم من کل زیغ وضلال وسوء وانحراف۔
Top