Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 6
وَ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌؕ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے يٰٓاَيُّھَا : اے وہ الَّذِيْ نُزِّلَ : وہ جو کہ اتارا گیا عَلَيْهِ : اس پر الذِّكْرُ : یاد دہانی (قرآن) اِنَّكَ : بیشک تو لَمَجْنُوْنٌ : دیوانہ
اور یہ کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس پر یہ ذکر اتارا گیا ہے تم تو ایک مجنون ہو۔
وَقَالُوْا یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ اِنَّکَ لَمَجْنُوْنٌ۔ لَوْمَا تَاْتِیْنَا بِالْمَلٰٓئِکَۃِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ۔ (سورۃ الحجر : 6۔ 7) (اور یہ کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس پر یہ ذکر اتارا گیا ہے تم تو ایک مجنون ہو۔ اگر تم سچے ہو تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لاتے۔ ) قریش کی گری ہوئی حرکت کی حقیقت یہ قریش مکہ کے بگاڑ کی انتہا ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کو کسی مناسب طریقے سے خطاب کرنے کی بجائے طنزیہ انداز میں اور کسی حد تک حقارت کے ساتھ کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس پر یہ قرآن نازل کیا گیا یہ وہی انداز ہے جو عام طور پر کسی ناقابلِ ذکر آدمی سے کوئی بڑا آدمی بات کرتا ہوا اختیار کرتا ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اپنی ذاتی وجاہت، اپنے حسب نسب اور اپنی ہر دلعزیزی کے باعث مکہ بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور بعثت سے پہلے کوئی آدمی اس طرح آپ سے بات کرنے کی جرأت نہ کرسکتا تھا لیکن دعوت الی اللہ کا کام اس قدر مشکل اور تکلیف دہ کام ہے کہ اس کے لیے داعی کو سب کچھ دائو پر لگانا پڑتا ہے۔ اس کام کی کٹھن ذمہ داریاں اسے ہر ناگوار سے ناگوار بات بھی سننے پر مجبور کرتی ہیں۔ رسالت کا فریضہ اسے ہر ایک کی بات سننے اور ہر ایک سے ہمدردی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ گالیاں سنتا ہے اور دعائیں دیتا ہے، وہ ہلکا کیا جاتا ہے لیکن شکایت نہیں کرتا۔ لوگ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن اس کے سامنے کلمۃ الحق کی سربلندی کے سوا کوئی فکر نہیں ہوتی۔ اسی صورتحال نے ان کو یہ جرأت دلائی جو اس ہلکے انداز میں طنز کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ تم تو ہمیں مجنون اور دیوانے معلوم ہوتے ہو کہ تم نے جس طرح اپنی ذات کو اس کام میں گم کردیا ہے اور اپنا نفع و ضرر کا پیمانہ توڑ چکے ہو اور اپنی تکلیفوں کو محسوس کرنے کی بجائے صرف اسلام کا مستقبل تمہیں عزیز ہو کے رہ گیا ہے، یہ رویہ کسی عقلمند آدمی کا نہیں ہوتا۔ مشکل یہ ہے کہ جب اقدار بدل جاتی ہیں اصول اور نظریات قدرومنزلت کھو دیتے ہیں تو ہر چیز میں ایک انقلاب برپا ہوتا ہے۔ خوب ناخوب ہوجاتا ہے اور ناخوب، خوب بن جاتا ہے۔ قیمتی چیزیں بےقیمت ہوجاتی ہیں اور بےقیمت چیزوں کی قیمت لگنے لگتی ہے۔ قریش بھی اسی بیماری کا شکار تھے۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ پیغمبر جس کام کی سربلندی کے لیے ہر چیز برداشت کررہا ہے وہ کام کتنا عظیم ہے اور اس کے مقابلے میں ذاتی احترام، مالی نقصانات، مستقبل کے اندیشے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ جنوں کی دلیل آپ کو مجنون ثابت کرتے ہوئے انھوں نے یہ دلیل دی کہ تم اپنے جس دعوے کے لیے ہر طرح کی قربانی دے رہے ہو، اگر اس دعوے میں کوئی سچائی ہوتی تو یقینا اس کی تائید و نصرت کے لیے آسمان سے فرشتے اترتے، کیونکہ تم اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ ہو۔ اور رسالت کا فیصلہ آسمان پر ہوتا ہے۔ تم پر آسمان ہی سے کتاب اتر رہی ہے تو تمہاری تائید بھی آسمانی مخلوق فرشتوں کو کرنی چاہیے۔ وہ تمہارے دائیں بائیں ہٹو بچو کہتے ہوئے نظر آئیں، تمہاری حفاظت کریں اور جو آدمی دست درازی کرے اس کے ہاتھ کاٹ دیں۔ تمہارے راستے میں رکاوٹ بننے والی ہر طاقت کو کچل ڈالیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بات بھی نظر نہیں آتی تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ نہیں ہو۔
Top