Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 126
وَ هٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِیْمًا١ؕ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّذَّكَّرُوْنَ
وَھٰذَا : اور یہ صِرَاطُ : راستہ رَبِّكَ : تمہارا رب مُسْتَقِيْمًا : سیدھا قَدْ فَصَّلْنَا : ہم نے کھول کر بیان کردی ہیں الْاٰيٰتِ : آیات لِقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يَّذَّكَّرُوْنَ : جو نصیحت پکڑتے ہیں
اور یہی تمہارے پروردگار کا سیدھا رستہ ہے جو لوگ غور کرنے والے ہیں ان کے لیے ہم نے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کر دی ہیں
وہذا صراط ربک مستقیما . اور یہ ہی (یعنی جس کو اللہ ہدایت کرنا چاہے اس کا سینہ ایمان کے لئے کھول دینا اور جس کو گمراہ رکھنا چاہے اس کے سینہ کو بہت تنگ کردینا) تیرے رب کا سیدھا راستہ ہے۔ رب کے راستہ سے مراد ہے وہ راستہ جو تقاضائے حکمت اور اللہ کے مقررہ ضابطہ کے مطابق ہے۔ بعض نے کہا یہ راستہ جس پر اے محمد ﷺ آپ چل رہے ہیں اور قرآن نے جس کو پیش کیا ہے یعنی اسلام آپ کے رب تک پہنچانے والا راستہ ہے ومستقیما : حال ہے اول الذکر تفسیر پر اس کا معنی ہوگا۔ معتدل ہموار اور مؤثر الذکر تفسیر پر اس کا معنی ہوگا سیدھا جس میں کوئی کجی نہ ہو۔ قد فصلنا الایت لقوم یذکرون . نصیحت پذیر لوگوں کے لئے ہم نے آیات صاف صاف بیان کردیں۔ قوم سے مراد اہل السنت والجماعت ہیں کیونکہ آیات قرآنیہ سے یہی جماعت نفع اندوز ہے جو عقیدہ رکھتی ہے کہ اللہ ہی قادر ہے کسی اور میں (حقیقی) قدرت نہیں عالم میں جو کچھ اچھا برا ہوتا ہے وہ اللہ کے ازلی فیصلہ کے مطابق اور اسی کے زیر تخلیق ہوتا ہے وہ بندوں کے احوال سے بخوبی واقف ہے اس کا ہر فعل پُر حکمت ہے وہ عادل ہے کسی کو مجال نہیں کہ اس پر اعتراض کرسکے۔
Top