Urwatul-Wusqaa - Al-Faatiha : 7
لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ١٘ یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ١ۚ تَعْرِفُهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ١ۚ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا١ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ۠   ۧ
لِلْفُقَرَآءِ : تنگدستوں کے لیے الَّذِيْنَ : جو اُحْصِرُوْا : رکے ہوئے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : وہ نہیں طاقت رکھتے ضَرْبًا : چلنا پھرنا فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں يَحْسَبُھُمُ : انہیں سمجھے الْجَاهِلُ : ناواقف اَغْنِيَآءَ : مال دار مِنَ التَّعَفُّفِ : سوال سے بچنے سے تَعْرِفُھُمْ : تو پہچانتا ہے انہیں بِسِيْمٰھُمْ : ان کے چہرے سے لَا يَسْئَلُوْنَ : وہ سوال نہیں کرتے النَّاسَ : لوگ اِلْحَافًا : لپٹ کر وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو گے مِنْ خَيْرٍ : مال سے فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب معاش کے لئے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے ۔ ان کی خودداری دیکھ کر ناواقف آدمی یہ گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں ۔ تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو۔ مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں۔ ان کی اعانت میں جو مال تم خرچ روگے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا۔ “
یہ پر تأثیر صفت مہاجرین کی ایک جماعت پر پوری طرح منطبق تھی ۔ وہ اپنے پیچھے اپنی دولت اور اپنا خاندان چھوڑ آئے ہوئے تھے وہ مدینہ میں قیام پذیر تھے اور انہوں نے اپنے آپ کو جہاد فی سبیل اللہ کے لئے وقف کرلیا تھا ۔ یہ لوگ ہر وقت رسول اللہ ﷺ کے باڈی گارڈ تھے ۔ مثلاً اہل صفہ جو رسول اللہ ﷺ کی اقامت گاہوں کے محافظ بھی تھے ۔ کوئی دشمن ان سے آنکھ چراکر رسول اللہ ﷺ کی اقامت گاہوں تک نہ پہنچ سکتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کے لئے وقف تھے اور کسب معاش یا تجارتی مقاصد کے لئے ادہر ادہر نہ جاسکتے تھے ۔ اس صورت حال کے باوجود وہ لوگوں سے کچھ مانگتے بھی نہ تھے ۔ وہ اس قدر خوددارانہ رویہ اختیار کئے ہوئے تھے کہ جو شخص ان کے حالات سے وقف نہ ہوتا ، وہ سمجھتا کہ یہ تو بہت خوش حال اور فارغ البال لوگ ہیں ۔ نہ کسی سے کچھ مانگتے ہیں اور نہ ہی کوئی کاروبار کرتے ہیں ۔ صرف اصحاب عقل و دانش ان کی اصل صورت حال وکیفیت کو سمجھ پاتے تھے۔ لیکن اس ابتدائی مصداق کے باوجود ، یہ آیت عام ہے ۔ اس کا اطلاق ہر دور اور ہر زمانے میں پائے جانے والے لوگوں پر ہوتا ہے جو شرفاء میں سے ہوں جو ایسے حالات میں محبوس ہوں کہ وہ ان میں تلاش معاش نہ کرسکتے ہوں ۔ اور ان کی شرافت نفس انہیں اس بات سے روک رہی ہو کہ وہ کسی سے سوال کریں ۔ وہ بظاہر ایسا رویہ رکھتے ہوں جس سے ان کی اصل حالت کا اندازہ نہ ہوسکتا ہو اور ان کی اس ظاہری حالت کے پس پردہ جو صورت حال ہو ، ناواقف آدمی ان کی اس خودداری کی وجہ سے اس کا صحیح اندازہ نہ کرسکتا ہو ، ہاں ایک حساس اور سمجھ دار شخص ہی ان کی اصل صورت حال سے واقف ہوسکتا ہو۔ اس لئے کسی بھی شخص کے اندرونی تیز احساسات چہرے پر آہی جاتے ہیں۔ اگر چہ وہ شخص حیاء اور خودداری کی وجہ سے انہیں چھپانے کی بہتیری کوشش کرتا ہو۔ یہ ایک ایسی تصویر ہے جو گہرے اشارات کی مظہر ہے ۔ یہ مختصر آیت ان شرفاء کی ایسی تصویر بناتی ہے ۔ یہ ایک مکمل تصویر ہے اور خودداری اور حیا چشمی کے رنگوں سے بنی ہوئی ہے ۔ اس آیت کا ہر جملہ گویا نقاش کی قلم کی نوک ۔ جو ان لوگوں کے خدوخال کو کاغذ پر منتقل کرتی چلی جارہی ہے اور اس تصویر سے ان کے تأثرات اور احساسات کا پوری طرح اظہار ہوتا ہے ۔ جو نہی ایک انسان ان آیات کی تلاوت کرتا ہے ، اس کی لوح دماغ پر ان حضرات کی تصاویر منقش ہوجاتی ہیں ۔ اس طرح کہ گویا وہ شخصیات نظروں کے سامنے کھڑی ہیں ۔ وہ چہرے صاف نظر آرہے ہیں ۔ انسانیت کے مختلف نمونوں کی تصویر کشی میں قرآن کریم کا یہی انداز ہے ۔ مختلف قسم کے انسان یوں نظر آتے ہیں کہ گویا وہ زندہ اور متحرک شخصیات ہیں ۔ ان شرفاء اور فقراء کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ ضروریات اور حاجات کو یوں چھپاتے ہیں ۔ جس طرح ایک انسان اپنے ستر کو چھپاتا ہے ۔ ایسے لوگوں کو اگر کچھ دیا جائے تو وہ صرف تنہائی میں دیا جائے تاکہ ان کی خودداری اور عزت نفس کو ٹھیس نہ لگے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کے آخر میں ایک قسم کا اشارہ دیا جاتا ہے کہ ایسے لوگوں کی امداد بھی نہایت ہی خفیہ طریقے سے کی جانی چاہئے ۔ چناچہ انفاق کنندہ کو یقین دہائی کرائی جاتی ہے کہ اللہ خوب جانتا ہے ۔ اور اس کی پوری پوری جزا دینے والا ہے۔ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ............... ” ایسے لوگوں کی اعانت میں جو مال تم خرچ کروگے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا۔ “ یہ صرف اللہ ہی ہے جو خفیہ بھیدوں کا جانتا ہے اور اس کے ہاں کوئی بھلائی بغیر اجر کے ضائع نہیں ہوتی ۔ سب سے آخر میں اس ضابطہ انفاق فی سبیل اللہ کا خاتمہ ایک عام اور ایک کلیہ پر مشتمل آیت پر ہوتا ہے ۔ جو ہر قسم کے انفاق اور صدقات کو شامل ہے ۔ اور اس کا حکم بھی عام ہے اور ہر اس چیز کو شامل ہے جو اللہ کے لئے دی جائے ۔
Top