Dure-Mansoor - Al-Baqara : 250
وَ لَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِهٖ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَؕ
وَلَمَّا : اور جب بَرَزُوْا : آمنے سامنے لِجَالُوْتَ : جالوت کے وَجُنُوْدِهٖ : اور اس کا لشکر قَالُوْا : انہوں نے کہا رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اَفْرِغْ : ڈال دے عَلَيْنَا : ہم پر صَبْرًا : صبر وَّثَبِّتْ : اور جمادے اَقْدَامَنَا : ہمارے قدم وَانْصُرْنَا : اور ہماری مدد کر عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور جب یہ لوگ جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ کے لئے نکلے تو عرض کیا کہ اے ہمارے رب ! ہم پر صبر ڈال دے اور ہمیں ثابت قدم رکھ، اور کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما
(1) فریابی، عبد بن حمید، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ طالوت لشکر پر امیر تھے داؤد کے باپ نے اسے بھائیوں کی طرف سے کوئی چیز دے کر بھیجا۔ اور داؤد نے طالوت سے فرمایا میرے لئے کیا انعام ہوگا اگر میں جالوت کو قتل کر دوں ؟ طالوت نے کہا تیرے لئے میری ملکیت میں سے ایک تہائی حصہ ہوگا۔ اور میں تجھ سے اپنی بیٹی کا نکاح بھی کر دوں گا۔ داؤد نے تو برہ اٹھایا اور اس میں تین پتھر رکھے پھر انہوں نے نام لیا ابراہیم، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) کا اور پھر اپنے ہاتھ کو اس میں داخل کرتے فرمایا اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں جو میرا اور میرے آباؤ اجداد ابراہیم، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) کا معبود ہے۔ پھر ابراہیم کے نام سے پتھر نکالا تو اسے اپنی غلیل میں رکھا اور جالوت کو مارا اس نے جالوت کے سر پر خود کو چیر دیا اور جالوت کے علاوہ تیس ہزار آدمیوں کا قتل کردیا۔ داؤد (علیہ السلام) اور طالوت میں مکالمہ (2) عبد الرزاق، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ جب طالوت، جالوت (سے لڑنے) کے لئے سامنے آیا تو جالوت نے (طالوت سے) کہا مجھ سے مقابلہ کرنے والا سامنے لاؤ اگر وہ مجھ کو قتل کر دے تو میرا ملک تمہارے لئے ہوگا۔ اور اگر میں نے اس کو قتل کردیا تو تمہارا ملک میرا ہوگا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو طالوت کے پاس لایا گیا۔ داؤد نے مطالبہ کیا کہ اگر اس نے (یعنی داؤد) نے اس (جالوت) کو قتل کردیا۔ تو میں اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کردوں گا اور اس کے بارے میں فیصلہ کروں گا اپنے مال میں سے طالوت نے ان کو ہتھیار پہنا دئیے مگر داؤد (علیہ السلام) نے اس بات کو ناپسند کیا کہ وہ اس ہتھیار سے لڑے اور فرمایا اگر اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد نہ کی تو ہتھیار ذرا بھی کام نہیں آئے گا تو داؤد اس کی طرف نکلے گوبھن اور پتھر پھینکنے کا آلہ لے کر کہ اس میں پتھر رکھے ہوئے تھے پھر ان کے سامنے جالوت نکلا اور کہا کیا تو مجھے قتل کرے گا۔ داؤد نے فرمایا ہاں اس نے کہا تیرے لئے ہلاکت ہو تو اس طرح (میرے مقابلہ کے لئے) نکلا ہے جس طرح کتے کے لئے گوبھن اور پتھر لے کر نکلا جاتا ہے۔ میں تیرے بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے پرندوں اور درندوں کو کھلاؤں گا۔ داؤد نے فرمایا بلکہ تو اللہ کا دشمن کتے سے زیادہ بدتر ہے۔ داؤد نے پتھر اٹھایا اور گوبھن کے ذریعہ اس پر پھینکا وہ پتھر اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان پہنچا یہاں تک کہ اس کے دماغ کے پار ہوگیا۔ جالوت چیخا اور اس کے ساتھی شکست کھا گئے اور اس کا سرکٹ گیا۔ (3) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے بیان فرمایا کہ جس دن داؤد کے باپ نے طالوت کے ساتھ نہر کو عبور کیا تو اس کے ساتھ اس کے تیرہ بیٹے بھی تھے اور داؤد اس کے بیٹوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ ایک دن وہ اپنے باپ کے پاس آیا اور کہا اے میرے باپ جو چیز میں اپنی منجنیق سے پھینکتا ہوں تو وہ اس کو پچھاڑ دیتی ہے۔ یہ سن کر انہوں نے فرمایا تجھ کو خوشخبری ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تیرا رزق تیری منجنیق میں رکھ دیا ہے۔ دوسرے دن پھر داؤد آئے اور عرض کیا اے میرے باپ ! میں پہاڑوں کے درمیان داخل ہوا میں نے وہاں ایک شیر کو پناہ لیتے ہوئے پایا میں اس پر سوار ہوگیا اور اس کے کان پکڑ لئے تو اس نے مجھے کچھ بھی نہ کہا انہوں نے فرمایا تجھ کو خوشخبری ہو۔ اے میرے بیٹے ! بلاشبہ یہ خیر ہے اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمائی ہے پھر ایک دن آئے اور عرض کیا اے میرے باپ ! میں پہاڑوں کے درمیان چلتا ہوں۔ اور میں نے تسبیح بیان کی تو سب پہاڑوں نے میرے ساتھ تسبیح بیان کی۔ فرمایا اے میرے بیٹے تجھ کو خوشخبری ہو بلاشبہ یہ خیر ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے تجھے عطا فرمائی اور داؤد (علیہ السلام) بکریاں چرایا کرتے تھے۔ اور اس کا والد اس کے پیچھے اس کے پاس اور اس کے بھائیوں کے پاس کھانا لے کر آتے تھے (اس وقت کے) نبی کے پاس ایک سینگ لایا گیا اس میں تیل تھا اور لوہے کا لباس تھا۔ انہوں نے طالوت کے پاس یہ چیزیں بھیج دیں۔ اور عرض کیا بلاشبہ تمہارا ساتھی جو جالوت کو قتل کرے گا۔ یہ سینگ اس کے سر پر رکھا جائے گا۔ یہ سینگ اس کے سر پر رکھا جائے گا۔ جب وہ اس میں سے تیل لگائے گا وہ جوش مارے گا۔ اور اس کے چہرہ پر نہیں بہے گا۔ وہ اس کے سر پر تاج کی طرح ہوگا۔ اور وہ اس زرہ میں داخل ہوگا۔ تو اس کو پوری آئے گی طالوت نے بنی اسرائیل کو بلایا اور اس کا تجربہ کیا تو ان میں سے کسی کو زرہ پوری نہ آئی اور کسی کے سر سے تیل نہ ابلا جب فارغ ہوئے تو طالوت نے کہا اور اس کے باپ سے کہا کیا کوئی تیرا لڑکا باقی ہے۔ جو ہمارے پاس نہ آیا ہو۔ اس نے کہا ہاں ! میرا بیٹا داؤد باقی ہے۔ اور وہ ہمارے پاس کھانا لاتا ہے۔ جب داؤد طالوت کے پاس تھا تو وہ راستے میں تین پتھروں کے پاس سے گزرے ان پتھروں نے اس نے بات کی اور ان سے کہا اے داؤد ! ہم کو اٹھا لو تو ہمارے ساتھ جالوت کو قتل کرے گا انہوں نے ان (پتھروں) کو اٹھالیا۔ اور اس کو اپنے تو برے میں رکھ دیا اور طالوت نے کہا جس آدمی نے جالوت کو قتل کیا میں اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کروں گا اپنے ملک میں اس کا حکم نافذ کروں گا جب داؤد آگئے تو لوگوں نے سینگ اس کے سر پر رکھا اس کا تیل ابلنے لگا یہاں تک کہ اس میں سے تیل لگایا۔ اور وہ زرہ پہنی تو وہ بھی پوری آگئی وہ ایک بیمار آدمی تھا۔ اور جو آدمی بھی اس زرہ کو پہنتا تھا۔ تو وہ اس حرکت کرتا (یعنی وہ زرہ کھل جاتی) جب داؤد نے اس کو پہنا تو وہ اس پر تنگ ہوگئی۔ یہاں تک کہ ٹوٹ بھی گئی پھر داؤد جالوت کی طرف چلے۔ جالوت لوگوں میں سے بڑی جسارت والا اور سخت طبیعت والا آدمی تھا۔ جب اس نے داؤد کی طرف دیکھا تو اس کے دل میں رعب پڑگیا۔ اور اس سے کہنے لگا۔ اے نوجوان ! واپس لوٹ جا۔ میں تجھ کو قتل کرنے کی بجائے تجھ پر رحم کروں گا۔ داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں بلکہ میں تجھ کو قتل کروں گا۔ اور انہوں نے پتھر نکالا اور اس کو گابھن میں رکھا۔ جب بھی پتھر کو اٹھایا تو اس کا نام رکھا اور کہا یہ میرا باپ ابراہیم (علیہ السلام) کے نام کے ساتھ ہے اور دوسرا ابو اسحاق کے نام کے ساتھ ہے۔ اور تیسرا ابو اسرائیل کے نام کے ساتھ ہے۔ پھر گابھن کو گھمایا اور وہ تینوں پتھر ایک بن گئے پھر اس کو پھینکا تو وہ جالوت کو دا آنکھوں کے درمیان جاکر لگا جس نے اس کے سر میں سوراخ کردیا اور اسے قتل کردیا پھر وہ پتھر ہر انسان کو قتل کردیتا تھا جس کو پہنچتا تھا وہ پتھر گزرتا گیا یہاں تک کہ کوئی بھی اس کے سامنے نہ رہا پس طالوت کے ساتھیوں نے جالوت اور اس کے ہمراہ آنے والوں کو شکست دیدی۔ داؤد نے جالوت کو قتل کردیا پھر طالوت کے پاس لوٹ آیا تو اس نے داؤد سے اپنی بیٹی کا نکاح کردیا اور اس کو اپنی ملک میں شریک کرلیا۔ (یہ دیکھ کر) لوگ داؤد کی طرف مائل ہوگئے اور اس سے محبت کرنے لگے۔ داؤد (علیہ السلام) کی سلطنت جب طالوت نے یہ منظر دیکھا تو داؤد سے حسد کرنے لگا اور اس کے قتل کا ارادہ کیا اس بات کو داؤد نے بھی جان لیا اور اپنی خوابگاہ میں ایک مشکیزہ شراب کا رکھ دیا اور خود چلے گئے طالوت جب داؤد کی نیند کرنے کی جگہ میں داخل ہوا تو داؤد جا چکے تھے۔ طالوت نے مشکیزہ کو ایک ضرب لگائی اور اسے پھاڑ دیا۔ تو اس میں شراب بہہ گئی۔ اور طالوت کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے داؤد پر رحم فرمائے کتنی زیادہ شراب پیتا تھا۔ پھر داؤد آئندہ شب اس کے گھر آئے تو وہ سو رہا تھا تو انہوں نے دو تیر اس کے سر کے پاس اور اس کے پاؤں کے پاس رکھے اور دائیں جانب اور بائیں جانب بھی دو دو تیر رکھے جب طالوت نیند سے بیدار ہوا تو تیروں کو دیکھا تو سمجھ گیا اور کہنے لگا اللہ تعالیٰ داؤد پر رحم فرمائے وہ مجھ سے بہتر ہے (اگر) میں اس پر کامیاب ہوتا تو اس کو قتل کردیتا اور وہ مجھ پر کامیاب ہوا تو مجھ سے رک گیا (قتل نہیں کیا) پھر وہ ایک دن سوار ہوا داؤد کو دیکھا کہ وہ جنگل میں پیدل چل رہا تھا اور طالوت گھوڑے پر سوار تھا طالوت نے کہا آج میں داؤد کو قتل کر دوں گا۔ داؤد جب بھاگتا تھا تو اس کو کوئی نہیں پاسکتا تھا۔ طالوت نے داؤد کے نشانات قدم پر گھوڑے کو دوڑایا داؤد سخت گھبرایا اور ایک غار میں داخل ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مکڑیکو حکم فرمایا تو اس نے (غار کے منہ پر) اپنا گھر بنا لیا (یعنی جالا بن دیا) جب طالوت غارع پر پہنچا تو مکڑی کے جالے کو دیکھا اور کہا اگر وہ اس میں داخل ہوتا تو مکڑی کا جالا پھٹ جاتا تو اس نے داؤد کا پیچھا چھوڑ دیا ہے طالوت کے قتل ہوجانے کے بعد داؤد بادشاہ بن گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو نبی بھی بنا دیا۔ اور اس کو فرمایا لفظ آیت ” واتہ اللہ الملک والحکمۃ “ فرمایا کہ حکمت سے مراد نبوت ہے۔ داؤد (علیہ السلام) کو شمعون کو نبوت عطا فرمائی اور طالوت کو بادشاہت عطا فرمائی۔ (4) ابن المنذر نے ابن اسحاق اور ابن عساکر دونوں حضرات مکحول (رح) سے روایت کرتے ہیں کہ اہل کتاب (یعنی یہودی اور نصرانی لوگوں نے گمان کیا کہ طالوت نے جب بنی اسرائیل کو داؤد کی طرف مائل ہوتے ہوئے دیکھا تو داؤد (علیہ السلام) سے حسد کرنے لگا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کی حسد کی بیماری پھیر دی اور (جب) طالوت نے اپنی غلطی کو پہچان لیا تو اس سے کسی طرح نکل جانے کا اور توبہ کرنے کا راستہ ڈھونڈا۔ وہ ایک بڑھیا کے پاس آئے جو ایسا اسم جانتی تھی کہ جس سے (اللہ تعالیٰ ) کو پکارا جاتا تھا۔ اس بڑھیا سے کہا میں نے ایک غلطی کی ہے۔ اس کا کفارہ ہرگز مجھے کوئی نہیں بتاسکتا۔ مگر یسع (علیہ السلام) کیا تو میرے ساتھ اس کی قبر تک جائے گی پھر تو اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے وہ اپنی قبر سے انھیں اور زمین ان سے اپنی غلطی کا کفارہ پوچھوں بڑھیا کہنے لگی ہاں (میں تیرے ساتھ چلوں گی) وہ اس کے ساتھ قبر تک گئی اور دو رکعت پڑھ کر دعا مانگی یسع (علیہ السلام) اس کی طرف قبر سے نکلے تو انہوں نے اس سے سوال کیا انہوں نے فرمایا تیری غلطی کا کفارہ یہ ہے کہ تو اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ جہاد کرو یہاں تک کہ تم میں سے کوئی ایک بھی باقی نہ رہے پھر یسع (علیہ السلام) اپنی جگہ پر چلے گئے طالوت نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ وہ بھی اور اس کے گھر والے بھی سب ہلاک ہوگئے بنی اسرائیل داؤد (علیہ السلام) پر جمع ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی نازل فرمائی۔ اور ان کے لوہے کی صفت سکھائی۔ اور ان کے لئے لوہا نرم کردیا۔ اور پرندوں اور پہاڑوں کو حکم فرمایا کہ ان کے ساتھ تسبیح بیان کریں جب وہ تسبیح پڑھیں اور مخلوق میں سے کسی کو بھی ایسی خوبصورت آواز نہیں دی گئی ان کی آواز کی طرح زبور پڑھتے تھے تو وحشی جانور آپ کے قریب آجاتے۔ یہاں تک کہ ان کی گردنوں کو پکڑا جاسکتا۔ کیونکہ وہ جھکی ہوئی ہوتی تھیں ان کے آواز سننے کے لئے اور شیاطین نے گانے بجانے کے آلات اور طنبور سے اور نوح کے ساز آپ کی آواز کی اصاف پر بنائے۔ وأما قولہ تعالیٰ : ولولا دفع اللہ : (الآیہ) صالح مسلمان کی برکات (6) ابن جریر، ابن عدی نے صعیف سند کے ساتھ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایک صالح مسلمان کی وجہ سے اس کے پڑوسی میں سے سو گھرانوں کی مصیبت کو دور فرما دیتے ہیں۔ ابن عمر ؓ نے یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض، لفسدت الارض “ (7) ابن جریر نے ضعیف سند کے ساتھ جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمان آدمی کی نیکی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی اولاد کی اولاد۔ اس کے گھر والے اور اس کے اردگرد کے گھرانوں کی خیر اور اصلاح فرما دیتے ہیں اور وہ برابر اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہتے ہیں جب تک وہ ان میں رہتا ہے۔ (8) ابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نماز پڑھنے کی وجہ سے بےنمازیوں کے مصائب دور فرماتا ہے اور حج کرنے والوں کی وجہ سے حج نہ کرنے والوں کی بلاؤں کو دور فرماتے ہیں اور زکوٰۃ دینے والوں کی وجہ سے زکوٰۃ نہ دینے والوں سے تکلیفوں کو دور کرتا ہے۔ (9) عبد بن حمید، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولولا دفع اللہ الناس “ (الآیہ) سے مراد ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نیک آدمی کے ذریعہ بدکار کو معاف نہ فرماتے اور خوش اخلاق لوگوں کی وجہ سے ان کے بعض کو بعض سے دفع نہ فرماتے تو زمین اپنے رہنے والوں کی ہلاکت کی وجہ سے فاسد ہوجاتی۔ (10) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤمن کو (آزمائش میں) مبتلا فرماتے ہیں کافر کی وجہ سے اور کافر کو معاف کردیتے ہیں مؤمن کی وجہ سے۔ (11) ابن جریر نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لفسدت الارض “ سے مراد ہے کہ ہلاک ہوجائیں جو زمین پر رہنے والے ہیں۔ (12) ابن جریر نے ابو مسلم (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حضرت علی ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تم میں سے مسلمان کے نیک لوگ نہ ہوتے تو ہم ہلاک ہوجاتے۔ (13) احمد، ترمذی اور ابن عساکر نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا ابدال شام میں ہوں گے اور وہ چالیس آدمی ہیں جب (ان میں سے) کوئی آدمی مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے آدمی کو ابدال بنا دیتے تھے۔ ان کی وجہ سے بارش سے (لوگ) سیراب ہوتے ہیں۔ اور ان کی وجہ سے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ اور ان کی وجہ سے شام والوں سے عذاب کو ہٹا لیا جاتا ہے۔ اور ابن عساکر کے الفاظ ہیں اور زمین والوں سے بلاؤں اور (پانی میں) غرق ہوجانے کا ہٹا دیا جاتا ہے۔ (14) خلال نے کرامات اولیاء میں حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کسی بستی والوں سے (بلاؤں کو) دور فرماتے ہیں ان سات مؤمنین کی وجہ سے جو ان میں ہوتے ہیں۔ (15) طبرانی نے الاوسط میں حسن سند کے ساتھ حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہرگز زمین ایسے چالیس آدمیوں سے خالی نہیں رہتی جو رحمن کے خلیل کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے (لوگوں کو) پانی پلایا جاتا ہے (یعنی بارشیں ہوتی ہیں) اور ان کی وجہ سے (دشمنوں پر) تمہاری مدد کی جاتی ہے جب کوئی ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے آدمی کو مقرر فرما دیتے ہیں۔ (16) طبرانی نے الکبیر میں عبادہ بن صامت ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت میں تیس ابدال ہوں گے ان کی وجہ سے زمین قائم ہے۔ ان کی وجہ سے بارش ہوتی ہے۔ اور ان کی وجہ سے (دشمنوں پر) تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (17) احمد نے الزہد میں الخلال نے کرامات اولیاء میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) کے بعد زمین ساتھ آدمیوں سے خالی نہیں رہتی جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ زمین والوں کا دفاع فرماتے ہیں۔ (18) الخلال نے ضعیف سند کے ساتھ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت میں ہمیشہ ایسے چالیس آدمی رہیں گے کہ جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ زمین کی حفاظت فرماتا ہے۔ جب ان میں سے کوئی آدمی مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے آدمی کو بدل دیتے ہیں اور وہ چالیس افراد ساری زمین میں ہوتے ہیں۔ (19) طبرانی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت میں چالیس ایسے افراد ہمیشہ رہیں گے کہ ان کے دل ابراہیم (علیہ السلام) کے دل کی مثل ہوں گے ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ زمین والوں کا دفاع فرماتا ہے۔ ان کو ابدال کہا جاتا ہے۔ بیشک وہ ہرگز اس (مرتبہ) کو نہیں پاتے نماز کے ذریعہ سے اور نہ روزہ کے ذریعہ سے اور نہ صدقہ کے ذریعہ سے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اس مرتبہ کو انہوں نے کیسے پایا ؟ آپ نے فرمایا سخاوت اور مسلمانوں کو نصیحت کے ذریعہ سے۔ (20) ابو نعیم نے الحلیہ میں اور ابن عساکر نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے لئے مخلوق میں سے تین سو افراد ایسے ہیں جن کے دل آدم (علیہ السلام) کے دل کی طرح ہیں اور اللہ کی مخلوق میں سے چالیس بندے ایسے ہیں جن کے دل موسیٰ (علیہ السلام) کے دل کی طرح ہیں اور اللہ کی مخلوق میں سے سات سو افراد ایسے ہیں جن کے دل ابراہیم (علیہ السلام) کے دن کی طرح ہیں اور اللہ کے لئے مخلوق میں سے پانچ افراد ایسے ہیں جن کے دل جبرئیل (علیہ السلام) کے دل کی طرح ہیں۔ اور اللہ کے لئے مخلوق میں سے تین افراد ایسے ہیں جن کے دل میکائیل (علیہ السلام) کے دل کی طرح ہیں۔ اور اللہ کے لئے مخلوق میں سے ایک بندہ ایسا ہے جس کا دل اسرافیل (علیہ السلام) کے دل کی طرح ہے۔ جب ایک مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ تین میں سے ایک کو مقرر فرما دیتے ہیں اور جب تین میں سے کوئی فوت ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ پانچ میں سے ایک کو مقرر فرما دیتے ہیں اور جب پانچ میں سے کوئی فوت ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ سات میں سے ایک کو مقرر فرما دیتے ہیں اور جب سات میں سے کوئی فوت ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ چالیس میں سے ایک کو مقرر فرما دیتے ہیں اور جب چالیس میں سے کوئی فوت ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ تین سو میں سے ایک کو مقرر فرما دیتے ہیں اور جب تین سو میں سے کوئی ایک فوت ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ عام لوگوں میں سے ایک کو مقرر فرما دیتے ہیں ان کی وجہ سے زندگی اور موت واقع ہوتی ہے۔ اور (ان کی وجہ سے) بارش ہوتی ہے اور کھیتیاں اگتی ہیں۔ اور بلائیں دور ہوتی ہیں عبد اللہ بن مسعود ؓ سے پوچھا گیا ان کی وجہ سے کیسے زندگی اور موت ہوتی ہے َ تو انہوں نے فرمایا اس وجہ سے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے امت کے زیادہ ہونے کا سوال کرتے ہیں تو (لوگ) زیادہ کر دئیے جاتے ہیں اور ظالم اور جابر لوگوں کے لئے بددعا کرتے ہیں تو ان کی گردنیں توڑ دی جاتی ہیں اور وہ بارش مانگتے ہیں تو بارش ہوتی ہے اور وہ سوال کرتے ہیں تو ان کے لئے زمین سبزہ اگاتی ہے اور دعا کرتے ہیں تو ان کی دعا سے ہر قسم کی بلائیں مصیبتیں دور ہوتی ہیں۔ (21) طبرانی اور ابن عساکر نے عوف بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ شام والوں کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ان میں ابدال ہیں ان کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے اور ان کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے۔ (22) ابن حبان نے اپنی تاریخ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہرگز زمین ایسے تیس افراد سے خالی نہ ہوگی جو ابراہیم خلیل اللہ کی مثل ہیں۔ ان کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے ان کی وجہ سے تم کو رزق دیا جاتا ہے اور ان کی وجہ سے تم پر بارش ہوتی ہے۔ (23) ابن عساکر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہرگز زمین چالیس آدمیوں سے خالی نہیں رہتی ان کی وجہ سے لوگوں کی مدد کی جاتی ہے۔ اور ان کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے جب ان میں کوئی ایک مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ ایک اور آدمی کو مقرر فرماتے ہیں۔ قتادہ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں امید رکھتا ہوں کہ حسن (رح) انہیں میں سے ہیں۔ (24) عبد الرزاق نے المصنف میں اور ابن المنذر نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ زمین پر ہر زمانہ میں سات مسلمان یا اس سے زیادہ ہمیشہ رہے ہیں اگر وہ نہ ہوتے تو زمین اور جو کچھ اس پر ہے سب ہلاک ہوجائے۔ (25) ابن جریر نے شھر بن حوشب ؓ سے روایت کیا کہ زمین نہیں باقی رہے گی مگر یہ کہ اس میں چودہ آدمی ایسے ہوں گے جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ زمین والوں کا دفاع کرتا ہے اور ان کی وجہ سے زمین کی برکت کو نکالتا ہے۔ سوائے ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے کے کیونکہ وہ اکیلے تھے۔ (26) احمد بن حنبل نے الزہد میں اور الخلال نے کرامات اولیاء میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) کے بعد زمین سات ایسے آدمیوں سے خالی نہیں رہتی جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ زمین والوں کا دفاع فرماتا ہے۔ (27) احمد نے زھد میں کعب ؓ سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) کے بعد زمین میں ہمیشہ چودہ افراد ایسے رہے جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ عذاب کو دفع فرماتے ہیں۔ (28) الخلال نے کرامات اولیاء میں زاذان (رح) سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) کے بعد بارہ یا اس سے زیادہ افراد سے زمین خالی کبھی نہیں رہتی کہ جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ زمین والوں کا دفاع کرتا ہے۔ (29) الجندی نے فضائل میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ زمین میں ساتھ مسلمان یا اس سے زیادہ ہمیشہ رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین اور جو کچھ اس کے اوپر ہے سب ہلاک ہوجائے۔ (30) الازرقی نے تاریخ مکہ میں زہیر بن محمد (رح) سے روایت کیا کہ زمین پر ہمیشہ سات مسلمان یا اس سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو زمین اور جس اس پر ہے سب ہلاک ہوجائیں۔ ملک شام میں تیس ابدال ہوتے ہیں (31) ابن عساکر نے ابو الزاھریہ (رح) سے روایت کیا کہ تیس آدمی شام میں ابدال ہیں ان کی وجہ سے تم کو پناہ دی جاتی ہے۔ اور ان کی وجہ سے رزق دئیے جاتے ہیں جب ان میں سے کوئی ایک آدمی مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے آدمی کو مقرر فرماتے ہیں۔ (32) الخلال نے کرامات اولیاء میں ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ کوئی بستی یا کوئی شہر ایسا نہیں ہے جس میں کوئی ایسا آدمی نہ ہو کہ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان سے (بلائیں) دفع فرماتے ہیں۔ (33) ابن ابی الدنیا نے کتاب اولیاء میں ابو الزناد (رح) سے روایت کیا کہ جب نبوت ختم ہوگئی جو زمین کی میخیں تھیں۔ ان کی جگہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کی امت میں سے چالیس آدمیوں کو خلیفہ بنا دیا جن کو ابدال کہا جاتا ہے کوئی شخص ان میں سے (جب) مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے آدمی کو مقرر فرما دیتے ہیں جو اس کی جگہ لیتا ہے۔ اور وہ زمین کی صحتیں ہوتی ہیں ان میں سے تیس آدمیوں کے دل ابراہیم (علیہ السلام) کے یقین کی مثل ہیں۔ یہ لوگ فضیلت نہیں دئیے گئے کثرت نماز اور روزوں کی کثرت سے لیکن (فضیلت دئیے گئے) پرہیزگاری کی سچائی، اچھی نیت، دلوں کی سلامتی اور سارے مسلمانوں کی نصیحت کی وجہ سے۔ (34) بخاری، مسلم، ابن ماجہ نے معاویہ بن ابی سفیان ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ اللہ کے حکم کے ساتھ قائم رہے گی۔ نہیں ضرر دے گا ان کو وہ شخص جو ان کو رسوا کرے گا یا ان کی حفاظت کرے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم (یعنی قیامت) آجائے گی اور وہ لوگوں پر غلبہ کرنے والے ہوں گے۔ (35) مسلم، ترمذی، ابن ماجہ نے ثوبان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی۔ ان کو ضرر نہیں دے گا وہ آدمی جو ان کو رسوا نہیں کرے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے گا (یعنی قیامت) اور وہ اسی پر (قائم) ہوں گے۔ (36) بخاری، مسلم نے مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا میری امت میں سے ایک قوم ہمیشہ لوگوں پر غالب رہے گی۔ یہاں تک کہ ان کے پاس اللہ کا حکم آئے گا (یعنی قیامت آئے گی) اور وہ غالب ہونے والے ہوں گے۔ (37) ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی ان کو ضرر نہیں پہنچائے گا جو ان کی مخالفت کرے گا۔ (38) حاتم نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ (39) مسلم و حاکم نے جابر بن سمرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ہمیشہ یہ دین قائم رہے گا۔ اس پر مسلمان (کافروں سے) قتال کریں گے۔ یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ (40) ابو داؤد، حاکم نے عمران بن حصین ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت میں ایک جماعت ہمیشہ ایسی رہے گی جو حق پر قتال کرتے رہیں گے اور اپنے دشمنوں پر غالب رہیں گے۔ یہاں تک کہ ان کے آخری لوگ مسیح و جال سے قتال کریں گے۔ (41) ترمذی اور ابن ماجہ نے معاویہ بن قرہ (رح) سے روایت کیا کہ اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ غالب رہے گا۔ ان کو وہ شخص نقصان نہیں پہنچائے گا جو ان کو رسوا کرے گا۔ یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ (42) ابن جریر، حکیم تر مذی نے نوادر الاصول میں ابو خولانی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اور دوسرے لفظ میں یوں ہے اللہ تعالیٰ اس دین میں ہمیشہ کچھ ایسے پودے اگاتا رہے گا۔ جن سے اپنی تابعداری کے کام لے گا۔ یعنی ہر دور میں کچھ صالحین اور مجدددین پیدا ہوتے رہیں گے جو دین اسلام کے احیاء کے لئے کام کرتے رہیں گے۔ مجاہدین کی ایک جماعت قیامت تک قائم رہے گی (43) عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا میری امت میں ایک جماعت ایسی رہے گی جو اللہ کے حکم پر قتال کرتی رہے گی۔ (جو) دشمن پر غالب رہے گی۔ نہیں نقصان پہنچائے گا ان کو جو ان کی مخالفت کرے گا۔ یہاں تک کہ ان کے پاس قیامت آجائے گی اور وہ اسی اللہ کے حکم پر قائم ہوں گے۔ (44) سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اہل مغرب ہمیشہ حق پر قائم رہیں گے۔ یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ (45) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے سو سال کے آغاز پر ایسا شخص پیدا فرمایا ہے جو دین کی تجدید کرتا ہے۔ (46) حاکم نے مناقب شافعی میں زہری (رح) سے روایت کیا کہ جب سو سال کا آغاز تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس امت پر عمر بن عبد العزیز (رح) کے ذریعہ احسان فرمایا۔ (47) ابوبکر المروزی (رح) سے روایت کیا کہ احمد بن حنبل (رح) نے فرمایا جب کوئی مسئلہ پوچھا جاتا ہے اور میں اس کو نہیں جانتا تو میں اس میں امام شافعی کے قول بتاتا ہوں کیونکہ نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر سو سال کے آغاز پر ایک ایسے آدمی کو مقرر فرما دیتے ہیں جو لوگوں کو سنتیں سکھاتا ہے۔ اور نبی اکرم ﷺ سے (منسوب کردہ) جھوٹ کو دور کردیتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ سو سال کے آغاز پر عمر بن عبد العزیز (رح) آئے اور دو سو سال کے آغاز پر شافعی (رح) آئے۔ (48) سفیان بن عینیہ (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات حسرت آیات کے بعد ہر سو سال میں ایک عالم پیدا ہوتا ہے۔ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دین کو تقویت دیتا ہے۔ اور بلاشبہ یحییٰ بن آدم (رح) میرے نزدیک انہیں میں سے ہیں۔ (49) حاکم نے مناقب شافعی میں ابو الولید حسان بن محمد الفقیہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں نے اہل علم میں سے ایک ایک شیخ کو ابو العباس بن سریج (رح) سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اے قاضی خوش ہوجائے بیشک اللہ تعالیٰ نے عمر بن عبد العزیز (رح) کے ذریعہ سو سال کے آغاز پر مسلمانوں پر احسان فرمایا کہ انہوں نے ہر سنت کو غالب کیا اور ہر بدعت کو مٹایا اور دو سو سال کے آغاز پر شافعی (رح) کے ذریعہ احسان فرمایا یہاں تک کہ انہوں نے سنت کو ظاہر کیا اور بدعت کو مٹایا اور تین سو سال کے آغاز پر اللہ تعالیٰ نے تیرے ذریعہ سے (ایمان والوں پر) احسان فرمایا۔ یہاں تک کہ تو نے ہر سنت کو قوی کردیا اور ہر بدعت کو کمزور کردیا۔
Top