Asrar-ut-Tanzil - Al-An'aam : 156
اَنْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰى طَآئِفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا١۪ وَ اِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِیْنَۙ
اَنْ : کہ تَقُوْلُوْٓا : تم کہو اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اُنْزِلَ : اتاری گئی تھی الْكِتٰبُ : کتاب عَلٰي : پر طَآئِفَتَيْنِ : دو گروہ مِنْ قَبْلِنَا : ہم سے پہلے وَاِنْ : اور یہ کہ كُنَّا : ہم تھے عَنْ : سے دِرَاسَتِهِمْ : ان کے پڑھنے پڑھانے لَغٰفِلِيْنَ : بیخبر
کہ تم (یوں نہ) کہو کہ ہم سے پہلے دو گروہوں پر کتابیں اتاری گئی تھیں اور ہم ان کے پڑھنے سے بیخبر ہی رہے
رکوع نمبر 20 ۔ آیات 156 تا 166 ۔ اسرار و معارف : اور اب یہ کتاب ہے یعنی قرآن حکیم جسے ہم نے بہت برکت کے ساتھ نازل فرمایا ہے یعنی کتب سابقہ کا دور ختم ہوا پہلی کتابوں کا انکار نہ کیا جائے گا کہ وہ بھی اللہ کی نازل کردہ تھیں مگر ان پر عمل کا زمانہ بیت چکا اب ساری برکات قرآن کا اتباع کرنے سے ہی نصیب ہوسکتی ہیں اور اللہ کی عظمت کا احساس کرو تاکہ اللہ تم پر رحم فرمائے اور تمہاری کوتاہیوں اور کمزوریوں کو معاف فرمائے کہیں یہ نہ کہنا کہ اللہ کی کتابیں تو صرف یہود و نصاری پہ ہی نازل ہوئی تھیں جنہیں ہم سمجھنے سے قاصر تھے ان کا پڑھنا پڑھانا ہمارے بس میں ہی نہ تھا زبان اور تھی یا اصل کتب نہ رہیں اور ردوبدل کردیا گیا یا پھر یہ کہو کہ اگر ہمیں اللہ کی کتاب نصیب ہوتی تو عمل کرنے کا حق ادا کردیتے اب تمہارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے جو بہت واضح اور روشن ہے دلائل کے ساتھ بھی اور زندگی کے سوال کا جواب رکھتی ہے درست اور حق اور رحمت الہی کو پانے کا بہت بڑا سبب بھی ہے۔ یعنی خود کتاب کے حق ہونے پر دلائل موجود ساری انسانیت کے لیے اور سب زمانوں کے لیے راہنمائی موجود ہے اور پھر یہی رحمت الہی کا خزانہ بھی ہے بھلا خود سوچ لو کہ جو انسان اس کتاب سے بھی پھرجائے اور نہ مانے تو اس سے بھی بڑا ظالم بھی کوئی ہوگا۔ یاد رکھو کسی کا کچھ نہیں بگڑے گا مگر اللہ کی کتاب کو نہ مان کر خود نہ ماننے والے اپنی تباہی کا سامان کر رہے ہیں اور عنقریب بہت بڑے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ اعاذنا اللہ منھا۔ ختم نبوت : نزول قرآن اور بعثت آقا سے نامدار اس قدر واضح اور روشن دلائل رکھتے ہیں کہ اب مزید کوئی نئی نشانی نازل تہ ہوگی جن بدنصیبوں کو اس پر بھی ایمان نصیب نہیں ہوا تو کیا وہ قیام قیامت کا انتظار کر رہے ہیں یعنی آپ ﷺ کی بعثت کے بعد قیامت تک کوئی نئی نبوت یا کتاب نہ آئے گی آپ پر ایمان نہ لانے والوں کو یا تو موت سے سابقہ پڑے گا جس پر فرشتے اور برزخ نظر آنے لگتے ہیں یا قیام قیامت کا جب فرشتے جنت و دوزخ ہر چیز سامنے ہوگی حتی کہ ذات باری تعالیٰ خود میدان حشر میں تشریف فرما ہوں گے تو ایسے وقت میں اگر کفار نے مان بھی لیا تو کیا فائدہ کہ اس وقت ایمان لانا نفع نہ دے گا۔ جب سب کچھ سامنے ہوگا تو کون نہیں مانے گا مگر اب ماننے سے کیا حاصل ماننا تو دنیا کا تھا کہ عقل و شعور کو کام میں لاتے اور اللہ کے نبی کی اطاعت میں یا صاف لفظوں میں اگ رکہا جائے تو رسول اللہ ﷺ پر اعتماد کرکے مانتے اب موت نے پردے اٹھا دیتے تو انکار کی گنجائش کہاں یا میدان حشر میں پہنچ گئے تو انکار کیسے کرسکیں گے اللہ کریم میدان حشر میں تشریف فرما ہوں گے یہ ہمارا ایمان ہے مگر کیسے یہ سمجھنا عقل و شعور کی رسائی سے باہر لہذا ایمان ضروری اور کیفیت میں بحث ممنوع ہے۔ یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ توبہ کا وقت آخرت سے انکشاف سے پہلے ہے یا بعض نشان دنیا میں بھی ظاہر ہوں گے جیسے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا گویا نظام عالم کی رفتار الٹ جائے گی اور توبہ کا دروازہ بند ہوجائیگا۔ نبی رحمت ﷺ نے متعدد نشانیاں ارشاد فرمائی ہیں جو قیامت سے پہلے ظاہر ہوں گی مگر جب طلوع آفتاب مغرب سے ہوگا تو توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا صرف وہ ایمان کام دے گا جو اس سے پہلے نصیب ہوا یا وہ نیکی جو ایمان کے ساتھ کرلی کہ اس کے اگر کسی نے مانا بھی تو اللہ کے رسول پر اعتماد کرکے نہ مانا بلکہ ایسے نشانات سامنے آگئے تو اب انکار کی کوئی صورت باقی نہ رہی یہی حال موت کے انکشافات کا ہے۔ تو آپ نہ مانئے والوں سے فرما دیجئے انتظار کرو ہم بھی تو انتظار ہی کر رہے ہیں جب وقت آئیگا تو تمہیں میری دعوت کی عظمت اور اپنے انکار کی مصیبت کا پتہ چل جائیگا۔ شیعان علی : نبی کریم ﷺ کو ارشاد فرمایا گیا کہ لوگ دین کے معاملے میں بکھر کر گروہ گروہ بن گئے آپ ﷺ کا ان سے کوئی تعلق نہیں جس کی واضح مثال یہود و نصاری اور مشرکین ہیں کہ اپنی پسند سے رسومات ایجاد کرکے انہیں مذہبی تقدس کا لبادہ اوڑھا دیا گیا جب انسانی پسند آئی تو لازما اس میں فرق بھی تھا لہذا مختلف آراء کو ماننے والے مختلف مذہب گروہ بن گئے جو سب دین حق سے دور ہوگئے ایسے راہ گم کردہ گروہوں سے آپ ﷺ کا کوئی تعلق نہیں کتاب اللہ کا انداز یہ ہے کتاب اللہ کا انداز یہ ہے کہ گمراہ گروہوں کو شیعہ کہا گیا ہے لہذا یہ گمان کرن ادرست نہیں کہ حضرت علی ؓ نے کوئی گروہ بنا کر اس کا نام شیعان علی رکھا ہوگا یہ خلاف اسلما تحریک کی دسیسہ کاری ہے لفظ شیعہ کا لغوی ترجمہ گروہ ہے مگر قرآن کریم کی اصطلاح میں گمراہ مذہبی فرقے یا گروہ کو شیعہ کہا گیا ہے۔ بدعت کی مصیبت : یہ حاسل صرف ان سے پہلے لوگوں کا ہی نہیں اس امت میں بھی قبول اسلام سے بعد جن لوگوں نے اصول دین میں اپنی رائے اختیار کی اور سنت خیر الانام ﷺ یا تعامل صحابہ کو چھوڑا انہیں شیعہ کہا جانا چاہئے اس سے کمتر وہ لوگ ہیں جو رسومات کو باعث ثواب جان کر اختیار کرلیتے ہیں تو ایسے سب لوگ جو بدعت میں مبتلا ہو کر گروہ بندی کا شکار ہوتے ہیں اس ضلالت کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کی شفقت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں اور یہ اتنی بڑی مصیبت ہے کہ اس سے زیادہ کا تصور بھی ممکن نہیں۔ ہاں تشریح احکام میں حدود شرعی کے اندر رہ کر خلوص کے ساتھ رائے کا اختلاف باعث برکت ہے کہ بات یا حکم کی ہر پہلو سے تعمیل ہوجاتی ہے مگر اغراض فاسدہ کے لیے سلف صالحین کی بابرکت آراء کو ٹھکرا محض حصول شہرت یا دولت کوئی فائدہ نہیں رکھتی کہ اس پر بہت بڑی محرومی مرتب ہوتی ہے کہ ایسا کرنے والوں پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے۔ لہذا ایسے لوگوں کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے جب اس کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تو انہیں ان کے کرتوتوں سے باخبر فرمائے گا۔ ہاں اس کا کرم کتنا وسیع ہے کہ ہر نیکی پر کم از کم دس گنا اجر عطا فرماتا ہے زیادہ جس قدر چاہئے اور یاد رہے ہر وہ کام جو حضور اکرم صلی اللہ علی ہوسلم کی اطاعت میں کیا جائے نیکی ہے ذاتی گھریلو معاشرتی قوم یا بین الاقوامی کسی بھی نوعیت کا ہو نیکی ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خلاف سنت تو جا سنت کے تابع ہو تو کم از کم دس گنا اجر پائے گا اور گناہ کرنے والا صرف اپنے جرم کے مطابق سزا کا مستحق ہوگا کسی پر کوئی زیادتی نہ کی جائے گی کہ نیکی کا اجر ضائع ہو یا برائی پر زائد بوجھ لاد دیا جائے۔ آپ یہ فرما دیجئے کہ مجھے تو میرے رب نے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرما دی ہے یعنی نزول وحی سے زندگی کی بہترین راہ متعین فرما دی عقائد سے لے کر اعمال تک اور زندگی سے موت تک ہر بات کا صحیح ترین انداز سکھا دیا اس لیے کہ یہ اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے زندگی وجود اور روح سے عبارت ہے انسان دنیا میں عقل و خرد سے ایسے کام تو کرسکتا ہے جن سے وجود سلامت رہے مگر روح تک مادی نگاہ کی رسائی ہے نہ مادی عقل کی تو عین ممکن ہے کہ جسم کی ضروریات پوری کرتے کرتے روح کی تباہی کا سامان پیدا کرلے اللہ کریم جس طرح جسموں کے رب ہیں ارواح کے رب بھی وہی ہیں لہذا وحی نازل فرما کر ایسا روشن طرز حیات متعین فرما دیا کہ جسم کی ضرورتیں بطریق احسن پوری ہوں اور ساتھ روح کی بہتری کے اسباب ازخود مہیا ہوتے چلے جائیں مضبوط ترین اللہ کا پسندیدہ راستہ اور یہی راستہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بھی تھا ملت ابراہیم سے مراد یہ نہیں کہ شریعت مصطفوی ان کی شریعت کے تابع تھی بلکہ مقصد ایک تھا جس پر ان کی ساری زندگی کی کوشش نچھاور ہوئیں اور وہی مقصد حیات دین محمدی میں ہے یہ جو یہودونصاری اپنی اپنی جگہ اور مشرکین عرب اپنی جگہ حضرت ابراہیم کا متبع ہونے کا دعوی کرتے ہیں بلکل غلط اور باطل ہے کہ وہ ہرگز شرک میں مبتلا ہونے والوں میں سے نہ تھے بلکہ اللہ کی راہ پر سیدھے چلنے والوں میں سے تھے۔ آپ فرما دیجئے کہ میری جسمانی عبادتیں میری سب مالی قربانیاں غرض میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے کہ وہی تمام جہانوں کا خالق مالک رازق اور سب ضرورتیں پوری کرنے والا ہے کوئی اس کا شریک نہیں نہ کو مجال دم زدن ہے اور مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں ہی سب سے پہلا مسلمان یعنی مان کر چلنے والا بھی ہوں کہ وحی الہی سب سے پہلے آپ ﷺ تک پہنچی اور چشم فلک نے دیکھا کہ روئے زمین پر اللہ کا ایک بندہ کس شدت سے اللہ کی بات کو مان رہا ہے کہ اس کفر کو جس کی ظلمت روئے زمی پر چھا رہی ہے للکار کہہ رہا ہے کہ تیرے دن گنے جا چکے اب انسانوں کے دلوں کو تجلیات باری سے منور کرنے کے لیے میں مبعوث ہوا ہوں اور بلحاظ کیفیت بھی ہمیشہ حضور ہی اول ہیں کہ جس درجہ آپ کا یقین ہے وہ صرف آپ ﷺ ہی کا ہے۔ اور اگر ازل سے لیا جائے تو بھی اول آپ ﷺ ہی ماننے والے ہیں نادانوں اس عظمت کے ساتھ میں کسی دوسرے کے پاس اپنی حاجات لے جاؤں گا بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ رب جلیل کے مقابلے میں کسی نفع کی امید پر یا کسی نقصان کے خوف سے کسی اور سے امید وابستہ کرلوں ہرگز نہیں اس لیے اس کی ذات یکتا ہے اور اس کے علاوہ جو کوئی بھی ہے وہ اس کی مخلوق ہے اور وہ اکیلا سب کا رب ہے پھر کسی دوسرے کو کیسے امیدوں کا مرکز مانا جائے۔ اور یہ بھی یاد رکھو ہر جرم کرنے والا اپنے فعل کے لیے جوابدہ ہوگا یہ جو تمہارے راہب اور مذہبی بیشوا تمہیں یقین دلاتے ہیں کہ جو جی میں آئے کرو ہم تمہیں بخشوا لیں گے دھوکہ کرتے ہیں یہ تمہارے حصے کی برائیاں ہرگز نہیں بانٹیں گے اور نہ کوئی دوسرا کسی کے حصے کا بوجھ اٹھا سکتا ہے کہ یہودونصاری میں آج تک رواج ہے جو اس دور میں بھی تھا کہ مذہبی پیشوا ہی فیس لے کر گناہ بخش دیا کرتے تھے بلکہ آج تو ان سے مسلمانوں میں بھی یہ مرض داخل ہوگیا ہے اور نام نہاد پیر لوگوں سے نذرانے لینے کے لیے ناجائز امور میں بھی ان کی پیٹھ ٹھونکتے رہتے ہیں مگر یہ نہ بھولو کہ تمہیں آخرت کا حساب ان لوگوں کے سامنے نہیں دینا بلکہ اللہ کریم کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے اور وہ ایسا قادر ہے کہ تم اپنے بعض گناہ بھول چککے ہوگے مگر اس کے علم میں موجود ہوں گے اور تمہارا سارا عمل تمہارے سامنے کر دے گا پھر تمہیں اپنے اختلافات کی حیثیت کا پتہ چل جائے گا جو تمہیں دین حق کے ساتھ ہیں خواہ تم نے خود گھڑ لیے ہیں یا تمہارے مذہبی پیشواؤں نے تمہیں ان میں مبتلا کردیا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ زمین پر آباد ہونے والے پہلے لوگ تم نہیں ہو تم سے پہلے بھی لوگ آباد تھے مگر چلے گئے اور تمہیں یہاں ان کا جانشین بنا دیا پھر تم میں مختلف درجے مقرر فرما دئیے کوئی پڑھا لکھا ہے تو کوئی ان پڑھ کوئی مزدور اور کوئی مالک کسی کو حکومت بخشی اور کسی کو خدمت پہ لگا دیا اس سب سے تمہاری آزمائش ہی تو مراد ہے کہ کون اپنی ذمہ داری کس طرح پوری کرتا ہے پھر تمہیں بھی یہاں سے جانا ہے دوسرے لوگ آجائیں گے یہ صرف اللہ کا کام ہے جو اکیلا رب ہے اور باقی سب اس کے بندے۔ یاد رکھو اللہ کریم عذاب میں گرفتار کرنا چاہے تو کوئی دیر نہیں لگتی مگر وہ بہت بڑا معاف کرنے والا اور رحم کرنیوالا بھی ہے لہذا وقت کو غنیمت جانو توبہ کرو کہ تمہارے گناہ معاف فرمائے اور اطاعت اختیار کرو کہ تم پر رحم فرمائے۔ الحمدللہ سورة انعام بتوفیق الہی تمام ہوئی۔
Top