Tafseer-e-Usmani - Al-An'aam : 156
اَنْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰى طَآئِفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا١۪ وَ اِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِیْنَۙ
اَنْ : کہ تَقُوْلُوْٓا : تم کہو اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اُنْزِلَ : اتاری گئی تھی الْكِتٰبُ : کتاب عَلٰي : پر طَآئِفَتَيْنِ : دو گروہ مِنْ قَبْلِنَا : ہم سے پہلے وَاِنْ : اور یہ کہ كُنَّا : ہم تھے عَنْ : سے دِرَاسَتِهِمْ : ان کے پڑھنے پڑھانے لَغٰفِلِيْنَ : بیخبر
اس واسطے کہ کبھی تم کہنے لگو کہ کتاب جو اتری تھی سو ان ہی فرقوں پر جو ہم سے پہلے تھے اور ہم کو تو ان کے پڑھنے پڑھانے کی خبر نہ تھی4
4 یعنی اس مبارک کتاب (قرآن کریم) کے نزول کے بعد عرب کے امین کے لئے یہ کہنے کا بھی موقع نہیں چھوڑا گیا کہ پیشتر جو آسمانی کتابیں شرائع الہٰیہ کو لے کر اتریں وہ تو ہمارے علم کے موافق انہی دو فرقوں (یہود و نصاریٰ ) پر اتریں بیشک وہ لوگ آپس میں اسے پڑھتے پڑھاتے تھے اور بعضے اس کا ترجمہ بھی عربی میں کرتے تھے مثلاً ورقہ بن نوفل وغیرہ اور بہت سے مدت تک اس دھن میں لگے رہے کہ عرب کو یہودی یا نصرانی بنالیں لیکن ہمیں ان کی تعلیم و تدریس سے کوئی سروکار نہیں رہا۔ اس سے بحث نہیں کہ یہود نصاریٰ جو کچھ پڑھتے پڑھاتے تھے وہ چیز کہاں تک اپنی اصلی سماوی صورت میں محفوظ تھی۔ مطلب صرف اس قدر ہے کہ ان شرائع و کتب کی اصلی مخاطب فقط قوم بنی اسرائیل تھی۔ خواہ اس تعلیم کے بعض اجزاء مثلاً توحید اور اصول دینیہ کی دعوت کو وسعت دے کر بنی اسرائیل کے سوا دوسری اقوام کے حق میں بھی عام کردیا گیا ہوتا ہم جو شریعت اور کتاب سماوی بہیئت مجموعی کسی خاص قوم پر اسی کے مخصوص فائدہ کے لئے اتری ہو اس کے درس و تدریس سے اگر دوسری اقوام خصوصاً عرب جیسی غیور و خوددار قوم کو دلچسپی اور لگاؤ نہ ہو تو کچھ مستبعد نہیں، بنا بریں وہ کہہ سکتے تھے کہ کوئی آسمانی کتاب و شریعت ہماری طرف نہیں آئی اور جو کسی مخصوص قوم کے لئے آئی اس سے ہم نے چنداں واسطہ نہیں رکھا پھر ہم ترک شرائع پر کیوں ماخوذ ہوں گے۔ مگر آج ان کے لئے اس طرح کے حیلے حوالوں کا موقع نہیں رہا۔ خدا کی حجت اس کی روشن کتاب اور ہدایت و رحمت عامہ کی بارش خاص ان کے گھر میں اتاری گئی۔ تاکہ وہ اولاً اس سے مستفید ہوں، پھر اس امانت الہٰیہ کو تمام احمرو اسود اور مشرق و مغرب کے باشندوں تک حفاظت و احتیاط کے ساتھ پہنچا دیں۔ کیونکہ یہ کتاب کسی خاص قوم و ملک کے لئے نہیں اتاری گئی۔ اس کا مخاطب تو سارا جہان ہے۔ چناچہ خدا کے فضل و توفیق سے عرب کے ذریعہ سے خدا کا یہ عام اور آخری پیغام آج دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچ گیا۔ والحمدللّٰہ علیٰ ذٰلک۔
Top