Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 156
اَنْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰى طَآئِفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا١۪ وَ اِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِیْنَۙ
اَنْ : کہ تَقُوْلُوْٓا : تم کہو اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اُنْزِلَ : اتاری گئی تھی الْكِتٰبُ : کتاب عَلٰي : پر طَآئِفَتَيْنِ : دو گروہ مِنْ قَبْلِنَا : ہم سے پہلے وَاِنْ : اور یہ کہ كُنَّا : ہم تھے عَنْ : سے دِرَاسَتِهِمْ : ان کے پڑھنے پڑھانے لَغٰفِلِيْنَ : بیخبر
(اور اس لئے اتاری ہے) کہ (تم یوں نہ) کہو کہ ہم سے پہلے دوہی گروہوں پر کتابیں اتری تھیں۔ اور ہم ان کے پڑھنے سے (معذور اور) بیخبر تھے۔
(156 ۔ 157) ۔ اوپر ذکر تھا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل فرمائی اسی طرح اس نے نبی آخرالزمان ﷺ پر یہ قرآن نازل فرمایا ہے ان آیتوں میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن عربی زبان میں نازل فرمایا ہے تاکہ اہل عرب کو قیامت کے دن کسی عذاب کے پیش کرنے کا موقع باقی نہ رہے اور ان لوگوں کے دل میں یہ ہوس بھی نہ رہے کہ ان پر کوئی آسمانی کتاب نازل ہوتی تو یہ لوگ یہودو نصاریٰ سے زیادہ راہ راست پر آجاتے۔ قرآن شریف کے نازل ہونے سے پہلے قریش یہ ہوش کیا کرتے تھے جس کا ذکر آیت کے اس ٹکڑے میں ہے او یہ لوگ اور قوموں کی بہ نسبت اپنے آپ کو عقلمند زیادہ سمجھتے تھے اس واسطے آسمانی کتاب کی ہوس کے ساتھ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر ہم لوگوں پر آسمانی کتاب نازل ہوئی تو اور قوموں سے بڑھ کر ہم راہ راست پر آجاویں گے۔ آگے فرمایا اگر یہ لوگ اپنی اس تمنا اور ہوس میں سچے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تمنا اور ہوش کے موافق اپنی رحمت سے ان پر ان کی زبان میں یہ قرآن نازل فرمایا ہے جس میں حلال حرام جزا وسزا جنت و دوزخ نجات کے راستے کی ہدایت سب کچھ ہے پھر فرمایا جو کوئی اللہ کی اس رحمت کی قدر نہ کرے گا اور قرآن کی نصیحت پر عمل کرنے سے خود بھی کنی کی اور لوگوں کو بھی اس نیک راستہ سے روکے گا وہ کسی کا کچھ نہ بگاڑے گا بلکہ ایسا شخص اپنے ہی نفس پر بڑا ظلم کرنے کی جرأت کر رہا ہے کیونکہ قیامت کے دن ایسے لوگوں کو سخت سزا بھگتنی پڑے گی صحیح بخاری اور مسلم میں عبداللہ بن مسعود ؓ اور مغیرہ بن شعبہ ؓ سے جو روایتیں ہیں ان میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا صاحب عذر کا عذر اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابیں نازل فرمائی رسولوں کو بھیجا تاکہ کسی شخص کو نجات کے راستہ کی انجانی کا عذر باقی نہ رہے صحیح مسلم کے حوالہ سے جریر بن عبداللہ ؓ کی حدیث گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا دین میں جو شخص ایسا راستہ نکالے گا جس سے لوگ بد راہ پر لگ جاویں تو ایسے شخص کو قیامت کے دن اس طرح دوسری سزا ملے گی کہ اس کی ذاتی بدعملی کی سزا جدا اور لوگوں کو بہکانے کی سزا جدا۔ یہ حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں حاصل مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو صاحب عذر کے عذر کا سننا بہت پسند رہے اس لئے اس نے عربی میں قرآن نازل فرما کر اہل عرب کی انجانی کا عذر رفع کردیا اب جو کوئی قرآن کو نصیحت خود بھی نہ مانے گا اور لوگوں کو بھی ایسے نیک راہ سے روکے گا تو اس پر قیامت کے دن دہرا عذاب ہوگا :۔
Top