Madarik-ut-Tanzil - Al-An'aam : 156
اَنْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰى طَآئِفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا١۪ وَ اِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِیْنَۙ
اَنْ : کہ تَقُوْلُوْٓا : تم کہو اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اُنْزِلَ : اتاری گئی تھی الْكِتٰبُ : کتاب عَلٰي : پر طَآئِفَتَيْنِ : دو گروہ مِنْ قَبْلِنَا : ہم سے پہلے وَاِنْ : اور یہ کہ كُنَّا : ہم تھے عَنْ : سے دِرَاسَتِهِمْ : ان کے پڑھنے پڑھانے لَغٰفِلِيْنَ : بیخبر
(اور اس لئے اتاری ہے) کہ (تم یوں نہ) کہو کہ ہم سے پہلے دوہی گروہوں پر کتابیں اتری تھیں۔ اور ہم ان کے پڑھنے سے (معذور اور) بیخبر تھے۔
ناخواندگی کے عذر کا خاتمہ : آیت 156: اَنْ تَقُوْلُوْا اس کراہت سے کہ تم کہو یا تاکہ تم یہ نہ کہو۔ اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْکِتٰبُ عَلٰی طَآپفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا یعنی اہل تورات اور اہل انجیل۔ اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ مجوس اہل کتاب نہیں ہیں۔ وَاِنْ کُنَّا عَنْ دِرَاسَتِہِمْ ان کتابوں کی تلاوت سے لَغٰفِلِیْنَ ۔ اس میں سے کسی چیز کا ہمیں علم نہ تھا۔ اِنْ مخففہ من المثقلہ ہے۔ اور لام اس لیے لائی گئی کہ اِنْ نافیہ سے یہ الگ معلوم ہو۔ اصل عبارت یہ ہے : انہ کنا عن دراستہم غافلین۔ ہٗ ضمیر شان ہے۔ خطاب اہل مکہ کو ہے اور مراد اس سے یہ ہے کہ ان پر کتاب اتار کر حجت تام کی گئی۔ تاکہ قیامت کے دن یہ عذر نہ کریں کہ تورات و انجیل تو ہم سے پہلے لوگوں کو دی گئی اور ہمیں تو ان کے مضامین کی خبر نہ تھی۔ (پس کس طرح ہم ایمان لاتے)
Top