Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 156
اَنْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰى طَآئِفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا١۪ وَ اِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِیْنَۙ
اَنْ : کہ تَقُوْلُوْٓا : تم کہو اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اُنْزِلَ : اتاری گئی تھی الْكِتٰبُ : کتاب عَلٰي : پر طَآئِفَتَيْنِ : دو گروہ مِنْ قَبْلِنَا : ہم سے پہلے وَاِنْ : اور یہ کہ كُنَّا : ہم تھے عَنْ : سے دِرَاسَتِهِمْ : ان کے پڑھنے پڑھانے لَغٰفِلِيْنَ : بیخبر
ہم نے یہ کتاب اس لیے نازل کی کہ تم یہ نہ کہو کہ اللہ نے صرف دو جماعتوں پر ہی کتاب نازل کی ہے جو ہم سے پہلے تھیں اور ہمیں ان کے پڑھنے پڑھانے کی خبر نہ تھی
نزول قرآن کا مقصد یہ ہے کہ کل تم عذر نہ کرو کہ ہم پہلی کتابیں پڑھ نہ سکے تھے : 247: اس میں خطاب اس وقت کے لوگوں سے بھی ہے اور ان کے بعد آنے والوں کو بھی اور اسی طرح قیامت تک آنے والوں کے لئے۔ ان سب کو کہا جا رہا ہے کہ تمہاری ہدایت کے لئے یہ بےنظری کتاب نازل کی گئی ہے تاکہ قیامت کے روز تم اپنی گمراہی اور ضلالت کے لئے یہ عذر نہ پیش کرو کہ ہمارے لئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی کتاب نازل ہی نہیں کی گئی تھی جسے پڑھ کر ہم شرک وکفر سے تائب ہوتے اور توحید کو قبول کرتے اور یہود ونصاریٰ پر بلاشبہ کتابیں نازل ہوئی تھیں لیکن ہم ان کے پڑھنے سے قاصر تھے اس لئے اگر ہم ایمان نہیں لائے تو ہم معذور تھے۔ یعنی اگر قرآن کریم تمہاری طرف نازل نہ کیا جاتا تو تم بڑی شیخی بگھارتے اور کہتے کہ جس طرح یہود ونصاریٰ کو کتابیں دی گئیں تھیں اسی طرح اگر ہمیں بھی کتاب دی جاتی تو دنیا دیکھتی کہ ہم اس کو کس طرح سینہ سے لگاتے اور کس طرح اس کی ہدایت کے مطابق عمل کرتے۔ لو اب وہ کتاب آگئی ہے جو روشن دلائل پر مشتمل ہے جو سراپا ہدایت اور مجسم رحمت ہے اب اس پر عمل کر دکھائو۔ ممکن ہے کسی دل میں یہ سوال ابھرآئے کہ جس طرح مکہ کے لوگ تورات وانجیل کو نہیں پڑھ اور سمجھ سکتے تھے اسی طرح عربوں کے علاوہ دوسری قومیں اور لوگ قرآن کریم کو بھی نہین پڑھ اور سمجھ سکتے اگر مکہ والوں کو وہ عذر تھا تو آج دوسرے لوگوں کے لئے کیوں ایسا عذر نہیں ہو سکتا ؟ بلاشبہ ایسا سوال پیدا ہو سکتا ہے لیکن قرآن کریم نے اس کا جواب اس آیت کے اندر رکھ دیا ہے۔ زیر نظر آیت کے آخری الفاظ پر غور کرو فرمایا عن دراستھم لغفلین کہ ہم ان کے پڑھنے سے بیخبر تھے ، کیوں ؟ اس لئے کہ وہ دونوں کتابیں بلکہ دوسرے سارے آسمانی صحیفے بھی اپنی اصلی حالت ؟ ؟ ؟ ہی سے بیخبر ی کا اظہار ہے جب وہ سب کتابیں اپنی اصل حالت پر موجود ہی نہ رہنے دی گئیں تو بعد میں آنے والے ان کو کیا خاک پڑھتے اور رہا قرآن کریم تو اس کی ذمہ داری خود اس کے بھیجنے والے نے اٹھائی کہ اس میں ہم کسی طرح کی تحریف نہیں ہونے دیں گے اور قرآن کریم کا ایک ایک حرف اور ایک ایک شوشہ بھی ادھر ادھر نہیں ہوگا یہ کتاب اپنی اصلی حالت میں تا قیامت باتی رہے گی اس لئے اس کے پڑھنے سے کسی کو اگر غفلت ہو تو اس کا وہ عذر قابل قبول نہیں ہوگا۔ مطلب بالکل صاف ہوگیا کہ ان کتابوں کے نہ پڑھنے کی وجہ سے دوسری زبان نہیں بلکہ اصل وجہ ان کتابوں کا اصل حالت پر موجود نہ رہنا ہے۔ اس لئے قرآن کریم کا اگر صرف ترجمہ کردیا جائے خواہ وہ ہر زبان میں اس کا ترجمہ موجود ہو تو وہ اپنی اصل حالت پر موجود نہ رہے پھر یہ عذر ہو سکتا ہے جبکہ قرآن کریم کا اصل حالت پر موجود نہ رہنا محالات سے بلکہ ناممکنات میں سے ہے اور یہی قرآن کریم کا زندہ وجاوید معجزہ ہے کہ کیا زمانے گزر گئے مخالف وموافق حالات پیدا ہوئے بحمدا للہ قرآن کریم پر ان کا کچھ اثر نہ ہوا اور اس سے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ تا قیامت حالات کچھ بھی ہوں قرآن کریم اپنی اصلی حالت پر قائم رہے گا اور بعد میں آنے والی قومیں بھی اس کی ہدایات سے اس طرح مستفید ہوں گی جس طرح صدر اول کے لوگ مستفید ہوئے اور زمانے میں جو نئی نئی ترقایں ہوئیں اور سائنسی دور آیا قرآن کریم کا مطلب اتنا ہی واضح اور صاف ہوا اور اب بھی جوں جوں ترقیاں ہوں گی اور سائنس آگے بڑھتی جائے گی قرآن کریم کے وہ استعارات جو ابھی تک نہیں کھل سکے یقیناً کھل جائیں گے اور انجام کار وہ دور آئے گا کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اپنے خیرو شر ہونے کے لحاظ سے واضح ہوجائے گا اور اس وقت بھی قرآن کریم کا قاری الحمد للہ رب العالمین کہنے پر مجبور ہوگا ابھی کتنے حجاب ہیں جن کا کھلنا باقی ہے اور کتنے ہیں جو کھل چکے ہیں کاش کہ قوم مسلم بھی بینا آنکھ رکھتی اور قرآن کریم کو پڑھنے کے باوجود غافل نہ رہتی۔
Top