Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 46
ثُمَّ قَبَضْنٰهُ اِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا
ثُمَّ : پھر قَبَضْنٰهُ : ہم نے سمیٹا اس کو اِلَيْنَا : اپنی طرف قَبْضًا : کھینچنا يَّسِيْرًا : آہستہ آہستہ
پھر ہم اس کو آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں
(25:46) قبضنہ : قبضنا ماضی جمع متکلم ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع الظل ہے۔ ہم اس کو سمیٹ لیتے ہیں۔ کھینچ لیتے ہیں۔ پکڑ لیتے ہیں۔ قبضہ کرلیتے ہیں (ماضی بمعنی حال قبض مصدر) ۔ یسیرا۔ صفت مشبہ واحد مذکر۔ منصوب یسر مادہ۔ آہستہ آہستہ (غیر محسوس طور پر) تھوڑا ۔ آسان ۔ سہل۔ فائدہ : آیات 45 - 46 کا ترجمہ : کیا تو نے اپنے رب (کی کاریگری) کو نہیں دیکھا کہ کس کس طرح سائے کو پھیلا دیتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا (دائمی) بنا دیتا ۔ پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل بنایا۔ (کہ آفتاب کی پوزیشن کے لحاظ سے گھٹتا بڑھتا ہے) پھر اس سایہ کو اپنی طرف آہستہ آہسۃ سمیٹتے چلے جاتے ہیں۔ صاحب تفہیم القرآن نے اس کی تشریح یوں کی ہے :۔ اس آیت کے دوزخ ہیں۔ ایک ظاہری اور ایک باطنی۔ ظاہر کے اعتبار سے یہ غفلت میں پڑے ہوئے مشرکین کو بتارہی ہے کہ اگر تم دنیا میں جانوروں کی طرح نہ جیتے اور کچھ عقل و ہوش کی آنکھوں سے کام لیتے تو یہی سایہ جس کا تم ہر وقت مشاہدہ کرتے ہو تمہیں یہ سبق دینے کے لئے کافی تھا کہ نبی جس توحید کی تعلیم دے رہا ہے وہ بالکل برحق ہے تمہاری ساری زندگی اسی سائے کے مدوجزر سے وابستہ ہے ۔ ابدی سایہ ہوجائے تو زمین پر کوئی مخلوق جاندار بلکہ نباتات تک باقی نہ رہ سکے۔ کیونکہ سورج کی روشنی و حرارت اسی پر ان سب کی زندگی موقوف ہے۔ سایہ بالکل نہ رہے یب بھی زندگی محال ہے کیونکہ ہر وقت سورج کے سامنے رہنے اور اس کی شعاعوں سے کوئی پناہ نہ پاسکنے کی صورت میں نہ جاندار زیادہ دیر تک باقی رہ سکتے ہیں اور نہ نباتات بلکہ پانی تک کی خیر نہیں دھوپ اور سائے میں یک لخت تغیرات ہوتے رہیں تب بھی زمین کی مخلوقات ان جھٹکوں کو زیادہ دیر نہیں سہار سکتی۔ مگر ایک صانع حکیم قادر مطلق ہے جس نے زمین اور سورج کے درمیان ایسی مناسبت قائم کر رکھی ہے جو دائما ایک لگے بندھے طریقے سے آہستہ آہستہ سایہ ڈالتی اور بڑھاتی گھٹاتی ہے اور بدریج دھوپ نکالتی اور چڑھاتی اور اتارتی رہتی ہے یہ حکیمانہ نظام نہ اندھی فطرت کے ہاتھوں خود بخود قائم ہوسکتا تھا اور نہ بہت سے با اختیار خدا اسے قائم کرکے یوں ایک مسلسل باقاعدگی کے ساتھ چلا سکتے تھے۔ مگر ان ظاہری الفاظ کی بین السطور سے ایک اور لفط اشارہ بھی جھلک رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ کفر و شرک کی جہالت کا یہ سایہ جو اس وقت چھایا ہوا ہے کوئی مستقل چیز نہیں ہے۔ آفتاب بدایت قرآن اور محمد ﷺ کی صورت میں طلوع ہوچکا ہے۔ بظاہر یہ سایہ دور دور تک پھیلا نظر آتا ہے مگر جوں جوں یہ آفتاب چڑھے گا یہ سایہ سمٹتا جائے گا۔ البتہ ذرا صبر کی ضرورت ہے۔ خدا کا قانون کبھی یک لخت تغیر نہیں لاتا۔ مادی دنیا میں جس طرح سورج آہستہ آہستہ ہی چڑھتا ہے اور سایہ آہستہ آہستہ ہی سکڑتا ہے اسی طرح فکر و اخلاق کی دنیا میں بھی آفتاب ہدایت کا عروج اور سایہ ضلالت کا زوال آہستہ آہستہ ہی ہوگا ۔
Top