Aasan Quran - Al-Furqaan : 46
ثُمَّ قَبَضْنٰهُ اِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا
ثُمَّ : پھر قَبَضْنٰهُ : ہم نے سمیٹا اس کو اِلَيْنَا : اپنی طرف قَبْضًا : کھینچنا يَّسِيْرًا : آہستہ آہستہ
پھر ہم اسے تھوڑا تھوڑا کر کے اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں۔ (16)
16: یہاں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کی کئی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے جن پر انسان غور کرے تو ان میں سے ہر چیز اللہ تعالیٰ کی توحید پر واضح دلیل ہے۔ سب سے پہلے یاد دلایا گیا ہے کہ دھوپ چھاؤں کی تبدیلیاں انسان کی زندگی کے لیے کتنی ضروری ہیں۔ اگر دنیا میں ہمیشہ دھوپ رہتی تب بھی زندگی دو بھر ہوجاتی، اور اگر ہر وقت سایہ ہی سایہ رہتا تو بھی انسان کا کاروبار زندگی معطل ہو کر رہا جاتا۔ اللہ تعالیٰ ہر روز ان دونوں کا حسین امتزاج اس طرح پیدا فرماتا ہے کہ صبح کے وقت سایہ زمین پر پھیلا ہوا ہوتا ہے، پھر جوں جوں سورج چڑھتا جاتا ہے، اس کا سایہ سمٹتا رہتا ہے۔ سورج کو سائے کا رہنما بنانے۔ کا مطلب یہی ہے کہ سورج کے چڑھنے کے ساتھ ساتھ سایہ گھٹنا شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ عین دوپہر کے وقت وہ کالعدم ہوجاتا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سمیٹنے سے تعبیر فرمایا ہے، پھر جوں جوں سورج مغرب کی طرف ڈھلتا ہے، سایہ پھر رفتہ رفتہ بڑھنا شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ غروب کے وقت پورے افق کو گھیر لیتا ہے۔ اور اس طرح انسانوں کو دھوپ چھاؤں کی یہ تبدیلی دھیرے دھیرے حاصل ہوتی ہے، اور ناگہانی تبدیلی کے نقصانات سے بچاؤ ہوتا رہتا ہے۔
Top