Tafseer-e-Usmani - Al-Furqaan : 46
ثُمَّ قَبَضْنٰهُ اِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا
ثُمَّ : پھر قَبَضْنٰهُ : ہم نے سمیٹا اس کو اِلَيْنَا : اپنی طرف قَبْضًا : کھینچنا يَّسِيْرًا : آہستہ آہستہ
پھر کھینچ لیا ہم نے اس کو اپنی طرف سہج سہج سمیٹ کر8
8 صبح سے طلوع شمس تک سب جگہ سایہ رہتا ہے اگر حق تعالیٰ سورج کو طلوع نہ ہونے دیتا تو یہ ہی سایہ قائم رہتا، مگر اس نے اپنی قدرت سے سورج نکالا جس سے دھوپ پھیلنی شروع ہوئی اور سایہ بتدریج ایک طرف کو سمٹنے لگا۔ اگر دھوپ نہ آتی تو سایہ کو ہم سمجھ بھی نہ سکتے۔ کیونکہ ایک ضد کے آنے سے ہی دوسری ضد پہچانی جاتی ہے۔ (قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيْكُمُ الَّيْلَ سَرْمَدًا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ يَاْتِيْكُمْ بِضِيَاۗءٍ ۭ اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ ) 28 ۔ القصص :71) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ " اول ہر چیز کا سایہ لمبا پڑتا ہے۔ پھر جس طرف سورج چلتا ہے اس کے مقابل سایہ ہٹا جاتا ہے جب تک کہ جڑ میں آلگے۔ " اپنی طرف کھینچ لیا کا یہ مطلب ہے کہ اپنی اصل کو جا لگتا ہے۔ سب کی اصل اللہ ہے۔ " (موضح القرآن) پھر زوال کے بعد سے ایک طرف سے دھوپ سمٹنا شروع ہوتی ہے اور دوسری طرف سایہ لمبا ہونے لگتا ہے حتی کہ آخر نہار میں دھوپ غائب ہوجاتی ہے۔ یہ ہی مثال دنیا کی ہستی کی سمجھو۔ اول عدم تھا، پھر نور وجود آیا، پھر آخرکار کتم عدم میں چلی جائے گی۔ اور اسی جسمانی نوروظل کے سلسلہ پر روحانی نوروظلمت کو قیاس کرلو۔ اگر کفر و عصیان اور جہل و طغیان کی ظلمات میں آفتاب نبوت کی روشنی اللہ تعالیٰ نہ بھیجتا تو کسی کو معرفت صحیحہ کا راستہ ہاتھ نہ آتا۔
Top