Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 46
ثُمَّ قَبَضْنٰهُ اِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا
ثُمَّ : پھر قَبَضْنٰهُ : ہم نے سمیٹا اس کو اِلَيْنَا : اپنی طرف قَبْضًا : کھینچنا يَّسِيْرًا : آہستہ آہستہ
پھر ہم اسے آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹتے چلے جاتے ہیں
58 سائے کے سمٹنے سکڑنے میں دعوت غور و فکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " پھر اس کو ہم آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹتے چلے جاتے ہیں "۔ اپنی طرف سمیٹنے سے مراد ہے کہ اسے ہم مٹاتے رہتے ہیں۔ کیونکہ جو چیز مٹ جاتی ہے وہ اسی کی طرف لوٹتی ہے کہ مرجع و منتہٰی سب کا وہی وحدہ لاشریک ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا ۔ { وَاِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجْعٰی } ۔ (العلق : 8) ۔ ورنہ اللہ پاک کی ذات جہت و مکان سے پاک ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور سایہ کے اس بتدریج سمیٹنے میں بھی کئی حکمتیں کار فرما ہیں۔ سو تمہارے پیش افتادہ اس سائے میں ایک طرف تو پیدا ہونے اور مٹتے رہنے اور فنا وزوال کا درس عظیم ہے اور دوسری طرف یہ اپنے خالق ومالک کے حضور جھکنے اور سر بسجود ہونے اور عجز و انکسار کا درس عظیم بھی ہوتا ہے۔ تیسری طرف یہ سایہ سورج کی الٹی سمت جھک کر شرک کی تردید اور توحید خدا وندی کا درس بھی دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور ہم نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے سورج کو اس کی دلیل بنایا۔ سو جس طرح کسی چیز کی دلیل سے وہ چیز کھلتی اور واضح ہوتی ہے اسی طرح سورج اور اس کی روشنی سے سائے کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ اس کے کم و کیف کا پتہ چلتا ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتنا چھوٹا یا بڑا ہے۔ پھر اسی سائے کی ایک بڑی اور کامل شکل رات کا وہ مہیب اندھیرا ہے جو ایک دنیا کی دنیا پر چھا اور پھیل جاتا ہے۔ پھر یہ سورج کا کرہ اور اس کی تیز روشنی ہی ہے جو رات کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے کو چیر کر اس سے سپیدئہ سحر کی چمک لاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا کیلئے طرح طرح کی راہیں کھلتی ہیں اور ان کی انواع و اقسام کی ضرورتوں کی تکمیل کا سامان ہوتا ہے۔ ورنہ اگر دنیا تاریکیِ شب کے اسی ہولناک اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبی رہتی تو اس کا کیا بنتا ؟ اس کو بےدر کے اس گنبد میں کوئی راہ نہ سوجھتی۔ سو یہ سب کچھ ایک طرف تو اس قادر مطلق کی قدرت مطلقہ، حکمت بالغہ اور رحمت شاملہ کا ایک عظیم الشان مظہر و ثبوت ہے اور دوسری طرف یہ عظیم الشان درس عبرت و بصیرت بھی ہے کہ سورج اور چاند وغیرہ کے یہ عظیم الشان کرے انسان کے خادم ہیں نہ کہ اس کے مخدوم و معبود۔ سو کس قدر بہکے بھٹکے اور اندھے اور اوندھے ہیں وہ لوگ جو اپنے ان خادموں کو اپنا معبود قرار دے کر ان کی پوجا کرتے ہیں اور اس طرح وہ اپنی تذلیل و تحقیر اور ہلاکت و بربادی کا سامان خود اپنے ہاتھوں سے کر رہے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظم -
Top