Kashf-ur-Rahman - Al-Furqaan : 46
ثُمَّ قَبَضْنٰهُ اِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا
ثُمَّ : پھر قَبَضْنٰهُ : ہم نے سمیٹا اس کو اِلَيْنَا : اپنی طرف قَبْضًا : کھینچنا يَّسِيْرًا : آہستہ آہستہ
پھر ہم نے اس سایہ کو آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹ لیا
(46) پھر اس سائے کو آہستہ آہستہ اور سہج سہج اپنی طرف کھینچ لیا ظل اس سائے کو کہتے ہیں جو طلوع شمس سے لیکر دوپہر تک ہوتا ہے اور دوپہر سے لیکر شام تک سائے کوفے کہتے ہیں سایہ شروع میں ہر چیز کا طویل ہوتا ہے پھر گھٹتے گھٹتے ہر چیز کا سایہ برابر ہوجاتا ہے اور زوال کے بعد پھر بڑھتا ہے اور آخر آفتاب کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے اور چونکہ یہ حضرت حق کی قدرت کاملہ سے ہوتا ہے اس لئے فرمایا کہ ہم نے اس سائے کو سمیٹ لیا آفتاب کو دلیل بنانے کا مطلب یہ ہے کہ سائے کو شناخت کرنے کی دلیل آفتاب کو ٹھہرایا کیونکہ سایہ آفتاب سے ہی پہچانا جاتا ہے بعض حضرات جن میں حضرت ابن عباس ؓ حضرت ابن عمر ؓ ابو مالک، ابو العالیہ حضرت مسروق اور مجاہد سعید بن جبیر اور نحفی اور ضحاک اور قتادہ رضوان اللہ علیہم اجمعین شامل ہیں یہ فرماتے ہیں کہ اس سائے وہ سایہ مراد ہے جو پوٹھنے سے لیکر طلوع آفتاب تک ہوتا ہے اس وقت میں بیمار کے دل کو چین ہوتا ہے مسافر اور ہر بیمار کے سکون کا وقت بھی ہوتا ہے۔ (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اول ہر چیز کا سایہ لینا پڑتا ہے پھر جس طرف سورج چلتا ہے اس کے مقابل سایہ ہٹتا ہے جب تک جڑ میں آلگے اپنی طرف کھینچ لیا کہ اپنی اصل کو جالگتا ہے سب کی اصل اللہ ہے 12 بہرحال ! کوئی صورت مراد ہو صنعت قدرت سے خالی نہیں اور نہ اور کسی کے بس میں ہے یہی اس کی وحدانیت اور یکتائی کی دلیل ہے حضرت حق تعالیٰ نے اپنے موجد حقیقی اور قادر مختار ہونے کی تین باتیں فرمائیں سایہ کا پھیلانا، آفتاب کا سایہ کے لئے راہ نما ہونا تیسرے سہج سہج اس سائے کو سمیٹ لینا۔
Top