Mufradat-ul-Quran - Al-Furqaan : 46
ثُمَّ قَبَضْنٰهُ اِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا
ثُمَّ : پھر قَبَضْنٰهُ : ہم نے سمیٹا اس کو اِلَيْنَا : اپنی طرف قَبْضًا : کھینچنا يَّسِيْرًا : آہستہ آہستہ
پھر ہم اس کو آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں
ثُمَّ قَبَضْنٰہُ اِلَيْنَا قَبْضًا يَّسِيْرًا۝ 46 قبض القَبْضُ : تناول الشیء بجمیع الکفّ. نحو : قَبَضَ السّيفَ وغیرَهُ. قال تعالی: فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] ، فَقَبْضُ الید علی الشیء جمعها بعد تناوله، وقَبْضُهَا عن الشیء جمعها قبل تناوله، وذلک إمساک عنه، ومنه قيل لإمساک الید عن البذل : قَبْضٌ. قال : يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ [ التوبة/ 67] ، أي : يمتنعون من الإنفاق، ويستعار الْقَبْضُ لتحصیل الشیء وإن لم يكن فيه مراعاة الكفّ ، کقولک : قَبَضْتُ الدّار من فلان، أي : حزتها . قال : تعالی: وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] ، أي : في حوزه حيث لا تمليك لأحد . وقوله : ثُمَّ قَبَضْناهُ إِلَيْنا قَبْضاً يَسِيراً [ الفرقان/ 46] ، فإشارة إلى نسخ الظّلّ الشمس . ويستعار القَبْضُ للعدو، لتصوّر الذي يعدو بصورة المتناول من الأرض شيئا، وقوله : يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] ، أي : يسلب تارة ويعطي تارة، أو يسلب قوما ويعطي قوما، أو يجمع مرّة ويفرّق أخری، أو يميت ويحيي، وقد يكنّى بِالْقَبْضِ عن الموت، فيقال : قَبَضَهُ الله، وعلی هذا النّحو قوله عليه الصلاة والسلام : «ما من آدميّ إلّا وقلبه بين أصبعین من أصابع الرّحمن» «2» أي : اللہ قادر علی تصریف أشرف جزء منه، فكيف ما دونه، وقیل : راعٍ قُبَضَةٌ: يجمع الإبلَ والِانْقِبَاضُ : جمع الأطراف، ويستعمل في ترک التّبسّط . ( ق ب ض ) القبض ( ض ) کے معنی چٹکی سے کوئی چیز لینے کے ہیں اور جو چیز چٹکی سے لی گئی ہو اسے قبض وقبیصۃ کہا جاتا ہے اس لئے قمیص حقیر چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] تو میں نے ایک مٹھی بھر لی ۔ میں ایک قرات فقبضت قبصۃ ( صاد مہلہ ) کے ساتھ بھی ہے ۔ قبوص سبک رفتار اور چست گھوڑا جو دوڑتے وقت صرف سم ہی زمین پر لگائے ۔ اور تیز رفتار گھوڑے پر اس کا اطلاق مجازی سرعت رفتاری کے لئے قبض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ ( ق ب ض ) القبض کے معنی کسی چیز کو پورے پنجے کے ساتھ پکڑنے کے ہیں جیسے قبض السیف وغیرہ تلوار کو پکڑنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] تو میں نے فرشتے کے نقش پا سے مٹی کی ایک مٹھی میں لے لینے کے ہیں اور قبضھا عن الشئی کے منعی کسی چیز کو پکڑنے سے ہاتھ سکیڑ لینے کے ہیں اسی مفہوم کے لحاظ سے مال خرچ کرنے سے ہاتھ روک لینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ [ التوبة/ 67] اور خرچ کرنے سے ہاتھ بند کئے رہتے ہیں ۔ یعنی خرچ نہیں کرتے ۔ اور استعارہ کے طور پر کیس چیز کے حاصل کرلینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے اگر چہ اسے ہاتھ سے نہ پکڑا جائے جیسے محاورہ ہے : ۔ قبضت الدر من فلان یعنی اسے اپنے تصرف میں لے لیا قرآن میں ہے ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی یعنی اللہ تعالیٰ کے تصرف میں ہوگی اور کسی کا ملک نہیں ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ قَبَضْناهُ إِلَيْنا قَبْضاً يَسِيراً [ الفرقان/ 46] پھر ہم اس کو آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں ۔ میں سورج کے سایہ کو نقل کرنے کی طرف اشارہ ہے اور استعارہ کے طور پر قبض کے معنی تیز دوڑنے کے بھی آتے ہیں اس لحاظ سے کہ گویا دوڑ نے والا زمین سے کسی چیز کو پکڑتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] اور خدا ہی روزی کو تنگ کرتا اور اسے وہی کشادہ کرتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ کبھی چھین لیتا ہے اور کبھی عطا کردیتا ہے ۔ یا ایک قوم سے چھین لیتا ہے اور دوسری کو عطا کردیتا ہے اور یا اس کے معنی زندہ کرنے اور مارنے کے ہیں کیونکہ کبھی قبض موت سے کنایہ ہوتا ہے چناچہ محاورہ ہے : ۔ قبضہ اللہ اللہ نے اس کی روح قبض کرلی اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا " ما من آدميّ إلّا وقلبه بين أصبعین من أصابع الرّحمن»کہ ہر آدمی کا دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان میں ہے یعنی انسان کے سب سے اشرف جزء پر اللہ تعالیٰ کو تصرف حاصل ہے تو دوسرے اعضاء پر بالا ولٰی تصرف حاصل ہوگا ۔ راعی قبضۃ منتظم چرواہا الا نقباض کے معنی اطراف یعنی ہاتھ پاؤں سمیٹ لینے کے ہیں اور ترک تبسط یعنی بےتکلفی چھوڑ دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ يسير واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] الیسیر والمیسور سہل اور آسان قرآن میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] تو ان سے نر می سے بات کہدیا کرو ۔ اور کبھی یسیر کے معنی حقیر چیز بھی آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] اس کو دونی سزا دی جائیگی اور یہ بات خدا کو آسان ہے میں لفظ یسیرا کے معنی آسان اور سہل کے ہیں اور آیت وما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں میں اس کے معنی بہت کم عرصہ کے ہیں
Top