Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 152
فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠   ۧ
فَاذْكُرُوْنِيْٓ : سو یاد کرو مجھے اَذْكُرْكُمْ : میں یاد رکھوں گا تمہیں وَاشْكُرُوْا لِيْ : اور تم شکر کرو میرا وَلَا : اور نہ تَكْفُرُوْنِ : ناشکری کرو میری
تو تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا، میری شکر گزاری کرتے رہنا، میری ناشکری نہ کرنا۔
اللہ تعالیٰ اور امت مسلمہ کے درمیان ایک عظیم معاہدہ : تحویل قبلہ کے حکم کے بعد یہ امت ایک بالکل ممتاز امت کی حیثیت سے سامنے آگئی۔ یہود امامت کے منصب سے معزول ہوئے اور شہادت علی الناس کی ذمہ داری قیامت تک کے لیے اس امت کے سپرد ہوئی۔ اس اہم موقع پر یہ یاد دہانی کی گئی ہے کہ تم مجھے یاد رکھو گے تو میں تمہیں یاد رکھوں گا، میری شکر گزاری کرتے رہنا، ناشکری نہ کرنا، اس یاد دہانی کی نوعیت اللہ تعالیٰ اور اس امت کے درمیان ایک عظیم معاہدے کی ہے اور خدا کو یاد رکھنے سے مقصود ان تمام ذمہ داریوں اور فرائض کو یاد رکھنا اور ان کی بجا آوری ہے جو اس امت کے سپرد کیے جا رہے ہیں۔ ان ذمہ داریوں اور فرائض کی بجا آوری کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ ہے کہ میں تمہیں یاد رکھوں گا، یعنی دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی، نصرت، فتح مندی اور سرخروئی کے جو وعدے میں نے اس امت سے کیے ہیں وہ پورے کروں گا " میری شکر گزاری کرتے رہنا " سے مراد ان تمام نعمتوں کا صحیح صحیح حق ادا کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں اور آئندہ ملنے والی ہیں، ان نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت خود وہ شریعت تھی جو اب اپنی کامل شکل میں اس امت کو منتقل ہو رہی تھی، آخر کے الفاظ وَلَا تَكْفُرُوْنِ (اور میری ناشکری نہ کرنا) میں تنبیہ ہے کہ اگر تم نے ناشکری کی تو جس طرح یہود ناشکر کر کے کیفر کردار کو پہنچے تم بھی خدا کے اس قانون کی زد سے نہ بچ سکو گے۔ بعینہ اسی طرح کی یاد دہانی بنی اسرائیل کو بھی کی گئی تھی لیکن انہوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی۔ قرآن مجید میں اس کا حوالہ اس طرح دیا گیا ہے، اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ (بقرہ :40) ، میری اس نعمت کو یاد رکھو جو میں نے تم پر کی ہے اور میرے عہد کو پورا کرو، میں اس عہد کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا ہے اور مجھی سے ڈرو۔
Top