Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 152
فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠   ۧ
فَاذْكُرُوْنِيْٓ : سو یاد کرو مجھے اَذْكُرْكُمْ : میں یاد رکھوں گا تمہیں وَاشْكُرُوْا لِيْ : اور تم شکر کرو میرا وَلَا : اور نہ تَكْفُرُوْنِ : ناشکری کرو میری
سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد کیا کرونگا اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا
ذکر اللہ کے وجوب کا بیان قول باری ہے : فاذکرونی اذکرکم ( لہٰذا تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا) یہ آیت اللہ کی یاد کے امر اور حکم کو متضمن ہے۔ ہم اللہ کو کئی طریقوں سے یاد کرسکتے ہیں، اس بارے میں سلف سے کئی اقوال منقول ہیں۔ ایک قول کے مطابق آیت کا مفہوم یہ ہے تم مجھے میری اطاعت کے ذریعے یاد رکھو میں تمہیں اپنی رحمت کے ذریعے یاد رکھوں گا۔ ایک اور قول ہے تم مجھے میری نعمتوں پر حمد و ثناء کے ذریعے یاد رکھو میں تمہیں تمہاری اطاعت کو سراہنے کے ذریعے یاد رکھوں گا۔ ایک اور قول ہے تم مجھے شکر کے ذریعے یاد رکھو میں تمہیں ثواب کے ذریعے یاد رکھوں گا۔ ایک اور قول کے مطابق تم مجھے دعا کے ذریعے یاد رکھو میں تمہیں دعا کی قبولیت کے ذریعے یاد رکھوں گا۔ تاہم آیت کے الفاظ ان تمام معانی کا احتمال رکھتے ہیں۔ آیت کے الفاظ ان سب کوش امل اور ان سب کو متحمل ہیں۔ اگر یہاں کہاجائے کہ یہ جائز نہیں ہے کہ ایک ہی فقط سے تمام معانی کو اللہ کی مراد قرار دیاجائے کیونکہ مذکورہ لفظ مختلف معانی میں مشترک ہیں، تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے اس لئے کہ یاد الٰہی کی یہ تمام مختلف صورتیں ایک ہی معنی کی طرف راجع ہوتی ہیں ذکر کا لفظ ایسا ہی ہے جیسے انسان کا اسم جو مذکر اور مونث سب کو شامل ہے یا اخواہ کا لفظ جو عینی، علاتی اور اخیانی تمام بھائیوں کو شامل ہے۔ اسی طرح لفظ شراکت اور اس جیسے دیگر الفاظ ہیں ان کا اطلاق اگرچہ مختلف معانی پر ہوتا ہے لیکن جس وجہ سے ان سب کو ایک نام دیاجاتا ہے وہ ہم معنی ہوتا ہے۔ یہی کیفیت ذکر اللہ کے لفظ کی ہے اس میں چونکہ طاعت کا معنی ہے اور اللہ کی طاعت کبھی ذکر باللسان سے کی جاتی ہے کبھی اعضاء وجو اروح سے صادر ہونے والے افعال و اعمال کے ذریعے کبھی اعتقاد قلب کے ذریعے، کبھی اس کی ذات کی نشاندہی کرنے والے دلائل سے، کبھی اس کی عظمت کے بارے میں غور و فکر کے ذریعے اور کبھی اس کے سامنے دست و عادرازکر نے اور اسے پکارنے سے، اس لئے ایک لفظ کے اندر ان تمام معانی کا ارادہ کرلیناجائز ہے جس طرح خود لفظ طاعت ہے کہ اس کے ذریعے مختلف قسموں کی تمام طاعات کا ارادہ کرنا درست ہے جبکہ طاعت کا حکم علی الاطلاق وارد ہو مثلاً یہ قول باری : اطیعو اللہ واطیعو الرسول ( اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو) ۔ اسی طرح لفظ معصیت ہے شریعت میں مذکور نہی کا لفظ معصیت کی تمام تر صورتوں کو شامل ہے۔ اس بنا پر قول باری : فاذکرونی ذکر الٰہی کی تمام صورتوں کے امرا ور حکم کو متضمن ہے ذکر کی ایک صورت تو اللہ کی اطاعت کی تمام شکلیں ہیں اور اطاعت ذکر الٰہی کی سب سے بڑھ کر عمومی صورت ہے۔ ذکر کی دوسری صورت یہ ہے کہ زبان سے اللہ کی ذات کی تعظیم کے لئے حمد و ثناء کی جائے۔ نیز شکر کے طورپر اور اس کی نعمتوں کے اعتراف کے طورپر اس کا نام لیاجائے اور ذکر الٰہی کی تیسری صورت یہ ہے کہ لوگوں کو اس کی ذات کی طرف بلا کر اس کی ذات کی نشاندہی کرنے والے دلائل و براہین سے آگاہ کرکے انہیں ان میں غورو فکر کی دعوت دی جائے اور اس کا ذکر کیا جائے۔ اسی طر ح لوگوں کے سامنے اللہ کی واحدانیت اور اس کی حکمت و قدرت ثابت کرکے نیز اس کی آیات و بنیات کی طرف توجہ دلا کر اس کا ذکر کیا جائے۔ ذکر الٰہ کی یہ تیسری قسم ذکر کی سب سے افضل قسم ہے اور ذکر کی دیگر تمام صورتیں اس پر مبنی اور اسی کی تابع ہیں اس کے ذریعے ہی یقین و طمانیت قلب حاصل ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ( آگاہ رہو اللہ ہی کی یاد سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے) اس سے ذکر قلب مراد ہے جو اللہ کی ذات کی نشاندہی کرنے والے دلائل و براہین نیز اس کی ایات و بنیات پر غور و فکر کا دوسرا نام ہے) ۔ ان دلائل و براہین نیز آیات و بینات پر غور و فکر میں جس قدر اضافہ ہوگا اسی قدر قلوب کو زیادہ اطمینان اور سکون نصیب ہوگا۔ یہی وہ افضل ذکر ہے جس کے ثبوت پر تمام اذکار درست ہوئے اور ان کا حکم ثابت ہوتا ہے ۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : بہترین ذکر وہ ہے جو خفی ہو یعنی دل میں کیا جائے۔ ابن قانع نے روایت بیان کی ہے کہ ان سے عبدالمالک بن محمد نے، ان سے مسدد نے، ان سے یحییٰ نے اسامہ بن زید سے، انہوں نے محمد بن عبدالرحمن سے انہوں نے حضرت سعد بن مالک ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : بہترین ذکر وہ ہے جو خفی ہو اور بہترین رزق وہ ہے جو کافی ہو۔
Top