Dure-Mansoor - Al-Baqara : 152
فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠   ۧ
فَاذْكُرُوْنِيْٓ : سو یاد کرو مجھے اَذْكُرْكُمْ : میں یاد رکھوں گا تمہیں وَاشْكُرُوْا لِيْ : اور تم شکر کرو میرا وَلَا : اور نہ تَكْفُرُوْنِ : ناشکری کرو میری
سو تم مجھ کو یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا، اور میرا شکر کرو، اور میری ناشکری نہ کرو۔
(1) عبد بن حمید، ابن جریر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاذکرونی اذکرکم “ سے مراد ہے کہ مجھ کو یاد کرو میری اطاعت سے میں تم کو یاد کروں گا اپنی مغفرت سے۔ (2) ابو الشیخ اور دیلمی نے جویبر سے انہوں نے ضحاک سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لفظ آیت ” فاذکرونی اذکرکم “ یعنی اے میرے بندوں کی جماعت مجھے یاد کرو میری اطاعت سے میں تم کو یاد کروں گا اپنی مغفرت سے۔ (3) ابن لا، دیلمی، ابن عساکر نے ابو ھند الداری ؓ سے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے یاد کرو میری اطاعت کے ساتھ میں تم کو یاد کرو کروں گا اپنی مغفرت کے ساتھ جو مجھے یاد کرے وہ میرا فرمانبردار ہے اور مجھ پر حق ہے کہ میں اس کو اپنی مغفرت کے ساتھ یاد کروں اور جو مجھے یاد کرے اس حال میں کہ میری نافرمانی کرنے والا ہو تو مجھ پر حق ہے کہ میں اس کو ناراضگی کے ساتھ یاد کروں۔ (4) عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاذکرونی اذکرکم “ کے بارے میں حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ میرا ذکر کرنا تمہارے لئے بہتر ہے میرے تمہارے ذکر کرنے سے۔ (5) امام طبرانی نے الاوسط میں اور ابو نعیم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے ابن آدم جب تو مجھے یاد کرتا ہے تو (گویا) تو مجھے میرا شکر ادا کرتا ہے اور جب تو مجھے بھول جاتا ہے تو (گویا) تو میری ناشکری کرتا ہے۔ (6) ابن ابی الدنیا، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعب الایمان میں زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب مجھ کو بتائیے کہ میں کیسے آپ کا شکر ادا کروں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے یاد کرتا رہے اور مجھے نہ بھول جب تو مجھے یاد کرے گا تو (گویا) تو میرا شکر ادا کرے گا اور جب تو مجھے بھول جائے گا تو (گویا) تو میری ناشکری کرے گا۔ (7) امام طبرانی، ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن مسعود ؓ علیہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص کو چار چیزیں عطا کی گئیں اسے چار چیزیں ہی عطا کی گئیں اور اس کی تفسیر اللہ کی کتاب میں ہے۔ جس کا ذکر عطا کیا گیا۔ تو اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ نے (خود) اس کا ذکر فرمایا کیونکہ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” فاذکرونی اذکرکم “ (اور) جس شخص کو دعا عطا کی گئی اس کو دعا کی قبولیت بھی عطا کی گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ادعونی استجب لکم “ (المؤمن آیت 6) اور جس کو شکر عطا کیا گیا اس کو زیادہ عطا کیا گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” لئن شکرتم لازیدنکم “ (اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو زیادہ دوں گا) اور جس کو استغفار دیا گیا اس کو مغفرت عطا کی گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” استغفرو ربکم انہ کان غفارا “ (نوح آیت 10) اپنے رب سے مغفرت طلب کرو وہ بہت زیادہ مغفرت کرنے والا ہے۔ (8) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاذکرونی اذکرکم “ سے مراد ہے کہ کوئی بندہ (جب) اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کا ذکر فرماتے ہیں مؤمن اس کو یاد نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمت کے ساتھ یاد فرماتے ہیں اور کافر اس کو یاد نہیں کرتے مگر اللہ تعالیٰ اس کو عذاب کے ساتھ یاد فرماتے ہیں۔ (9) ابن ابی شیبہ نے المصنف میں احمد نے الزہد میں اور بیہقی نے الشعب میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت (داؤد) (علیہ السلام) کو وحی بھیجی کہ ظالموں کو کہہ دو کہ وہ مجھے یاد نہ کریں کیونکہ یہ مجھ پر حق ہے کہ وہ مجھے یاد کرے میں اس کو یاد کروں اور میرا یاد کرنا ظالموں کو ان پر لعنت کرتا ہے۔ (10) عبد بن حمید، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ آپ بتائیے (اگر) کسی جان کو (ناحق) قتل کرنے والا، شراب پینے والا اور زنا کرنے والا اللہ کو یاد کرتا ہے (اس کا کیا حکم ہے) جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فاذکرونی اذکرکم “ (کہ مجھے یاد کرے گا میں اس کو یاد کروں گا تو کیا ان لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ یاد فرماتے ہیں) حضرت ابن عمر ؓ نے جواب میں فرمایا کہ (جب ان میں سے کوئی آدمی) اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی لعنت کے ساتھ یاد کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ خاموش ہوجاتا ہے۔ (11) سعید بن منصور، ابن المنذر، بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت خالد بن ابی عمران ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کو یاد کیا اگرچہ اس کی نمازیں اس کے روزے اور تلاوت قرآن تھوڑی ہو اور جس نے اللہ کی نافرمانی کی تو اس نے اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا اگرچہ اس کی نمازیں اس کے روزے اور قرآن کی تلاوت زیادہ ہو۔ (12) امام احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور بیہقی نے الشعب میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں اپنے بندہ کے گمان کے ساتھ ہوں اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور وہ مجھے کسی مجمع میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس سے بہتر (یعنی فرشتوں کے) مجمع میں اس کو یاد کرتا ہوں اگر وہ ایک بالشت میری طرف قریب آتا ہے تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ قریب آتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میری طرف آتا ہے تو میں دو ہاتھ اس کی طرف قریب آتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو یاد کرتا ہے (13) امام احمد اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے ابن آدم اگر تو مجھے اپنے دل میں یاد کرے گا تو میں بھی تجھے اپنے دل میں یاد کروں گا اور اگر تو مجھے کسی مجمع میں یاد کرے گا تو میں بھی تجھے فرشتوں کے مجمع میں یاد کروں گا یا فرمایا کہ اس سے بہتر مجمع میں یاد کروں گا اگر تو ایک بالشت میرے قریب ہوگا تو میں ایک ہاتھ تیرے قریب ہوں گا اور اگر تو میرے پاس چل کر آئے گا تو میں تیرے پاس دوڑ کر آؤں گا۔ (14) امام طبرانی نے حضرت معاذ بن انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جب کوئی شخص مجھے دل سے یاد کرتا ہے تو میں اس کو اپنے فرشتوں کی جماعت میں یاد کرتا ہوں اگر وہ مجھے کسی مجمع میں یاد کرتا ہے تو میں رفیق اعلیٰ میں اس کو یاد کرتا ہوں۔ (15) ابن ابی الدنیا نے البزار اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابن آدم اگر تو مجھے اکیلا یاد کرے گا تو میں بھی تجھ کو اکیلا یاد کروں گا اور اگر تو مجھے کسی مجمع میں یاد کرے گا تو میں بھی تجھے ایسے مجمع میں یعنی فرشتوں کے مجمع میں یاد کروں گا جو ان لوگوں سے بہتر ہیں جن میں تو نے مجھے یاد کیا تھا ان سے زیادہ ہیں۔ (16) ابن ماجہ، ابن حبان اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں میں بندہ کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر سے حرکت کرتے رہتے ہیں۔ (17) ابن ابی شیبہ، احمد، ترمذی (انہوں نے اسے حسن کہا ہے) ابن ماجہ، ابن حبان، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے عبد اللہ بن بسر ؓ ونہ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ اسلام کے احکام بہت زیادہ ہیں آپ مجھے ایسا عمل (یعنی ایسا وظیفہ) بتا دیجئے جس کو میں اپنا مشغلہ بنالوں ؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ کے ذکر سے تو ہر وقت رطب اللسان رہے۔ (18) ابن ابی الدنیا، البزار، ابن حبان، طبرانی اور بیہقی نے مالک بن یخامر سے روایت کیا کہ ان کو معاذ بن جبل ؓ نے فرمایا کہ آخری کلام جس پر رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے جدا ہوئے وہ یہ تھا میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سے اعمال محبوب ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اس حال میں تیری موت آئے کہ اللہ کے ذکر میں رطب اللسان ہو۔ (19) ابن ابی الدنیا نے ابو المخارق ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ معراج کی رات میں ایک ایسے آدمی پر گزرے جو عرش کے نور میں بیٹھا ہوا تھا میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون ہے کیا یہ فرشتہ ہے ؟ کہا گیا نہیں میں نے پھر پوچھا کیا یہ نبی ہے ؟ کہا گیا نہیں میں نے (پھر) پوچھا یہ کون ہے ؟ جبرائیل نے جواب دیا کہ یہ وہ آدمی تھا جو دنیا میں اللہ کے ذکر سے رطب اللسان تھا اور اس کا دل مساجد کے ساتھ لگا ہوا تھا اور اپنے والدین کو برا بھلا نہیں کہتا تھا۔ ہمیشہ ذکر اللہ میں مصروف رہنا (20) ابن ابی شیبہ، احمد (الزہد میں) اور ابن ابی الدنیا نے سالم بن ابی الجعد (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابو درداء ؓ سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی نے سو غلام آزاد کئے انہوں نے فرمایا آدمی کے مال میں سے سو غلام آزاد ہونا بڑا نیک عمل ہے اور اس سے افضل عمل اور افضل ایمان جو دن اور رات کے ساتھ لازم ہو (وہ یہ ہے) کہ تم میں سے (ہر) ایک اللہ کے ذکر میں رطب اللسان رہے۔ (21) امام احمد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن ابی الدنیا، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے حضرت ابو درداء ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو بہترین اعمال کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ جو تمہارے مالک کے نزدیک زیادہ پاکیزہ ہو اور تمہارے درجوں کو زیادہ بلند کرنے والا ہو اور (اللہ کے راستے میں) سونے اور چاندی کو خرچ کرنے سے بہتر ہو اور اس سے بھی تمہارے لئے بہتر ہو کہ تم اپنے دشمنوں سے لڑو اور تم ان کی گردنوں کو مارو ؟ صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں (ایسا عمل ضرور بتائیے) آپ نے فرمایا وہ اللہ کا ذکر ہے (جو ان سب اعمال سے بڑھا ہوا ہے) ۔ (22) ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ یوں فرمایا کرتے تھے کہ ہر چیز کی صفائی کا ایک آلہ ہے اور دلوں کی صفائی کا آلہ اللہ کا ذکر ہے اور کوئی چیز اللہ کے ذکر سے بڑھ کر اللہ کے عذاب سے نجات دینے والی نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا اللہ کے راستہ میں جہاد بھی (اس سے بڑھا ہوا یا نہیں ہے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا اگرچہ وہ اپنی تلوار سے (تنا لڑے) کہ اس کی تلوار بھی ٹوٹ جائے (تب بھی اللہ کا ذکر اس سے افضل ہے) (23) البزار، طبرانی اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو تم میں سے عاجز ہو راتوں کو محنت کرنے سے اور بخل کی وجہ سے مال بھی خرچ نہ کیا جاتا ہو اور بزدلی کی وجہ سے جہاد میں شرکت نہ کرسکتا ہو تو اس کو چاہئے کہ اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرے۔ (24) امام طبرانی نے الاوسط میں حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ کے ذکر سے بڑھ کر کسی آدمی کا کوئی عمل عذاب قبر سے زیادہ نجات دینے والا نہیں۔ کہا گیا کیا اللہ کے راستہ میں جہاد بھی (اس کے برابر نہیں) آپ نے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد بھی (اس کے برابر نہیں) مگر یہ کہ اپنی تلوار سے (اتنا لڑے) یہاں تک کہ (اس کی تلوار) ٹوٹ جائے۔ (25) ابن ابی الدنیا نے کتاب الشکر میں طبرانی اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا چار چیزیں ایسی ہیں کہ جس شخص کو یہ مل جائیں اس کو دنیا اور آخرت کی بھلائی مل جائے وہ دل جو شکر کرنے والا ہو وہ زبان جو ذکر کرنے والی ہو وہ بدن جو مصیبتوں پر صبر کرنے والا ہو چوتھے وہ بیوی جو اپنے نفس میں اور خاوند کے مال میں خٰانت نہ کرے۔ (26) ابن حبان نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ دنیا میں نرم نرم بستروں پر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں جس کی وجہ سے حق تعالیٰ شانہ ان کو جنت کے اعلی درجوں میں پہنچا دیتا ہے۔ (27) بخاری، مسلم اور بیہقی نے ابو موسیٰ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے اور جو نہیں کرتا ان دونوں کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے کہ ذکر کرنے والا زندہ اور ذکر نہ کرنے والا مردہ ہے۔ (28) ابن ابی الدنیا نے ابوذر ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کوئی دن اور رات ایسی نہیں گرزتی مگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے صدقہ فرماتا ہے اور بندے پر اللہ کی طرف اس سے افضل صدقہ یہ ہے کہ اسے اپنے ذکر کا الہام فرماتے ہیں۔ (29) ابن ابی شیبہ نے خالد بن معدان ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ ہر دن صدقہ فرماتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر صدقہ فرماتا ہے اس میں سے اللہ کے ذکر سے افضل کوئی چیز نہیں۔ (30) امام طربانی نے ابو موسیٰ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر ایک شخص کے کمرے میں بہت سے درہم ہوں اور وہ ان کو تقسیم کر رہا ہو اور دوسرا شخص اللہ کے ذکر میں مشغول ہو تو ذکر کرنے والا افضل ہے۔ (31) طبرانی اور بیہقی نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت میں جانے کے بعد اہل جنت کو دنیا کی کسی چیز کا بھی افسوس نہ ہوگا بجز اس گھڑی کے جو دنیا میں اللہ کے ذکر کے بغیر گزر گئی ہو۔ (32) ابن ابی الدنیا اور امام بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ابن آدم کی جو گھڑی اس حال میں گزر گئی کہ اس میں اس نے اللہ کا ذکر خیر کے ساتھ نہیں کیا تو (یہ گھڑی) اس پر قیامت کے دن حسرت اور افسوس کا باعث بنے گی۔ (33) ابن ابی شیبہ، احمد، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ دونوں حضرات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ارشاد فرماتے تھے کہ جو جماعت اللہ کے ذکر میں مشغول ہو فرشتے اس جماعت کو سب طرف سے گھیر لیتے ہیں اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور سکینہ ان پر نازل ہوتی ہے۔ اور اللہ جل شانہ ان کا تذکرہ اپنی مجلس میں (تفاخر کے طور پر) فرماتے ہیں۔ ذکر کرنے والوں کے لئے چار انعامات (34) ابن ابی الدنیا نے حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ دونوں حضرات سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں کے لئے چار انعامات ہیں (1) سکینہ ان پر نازل ہوتی ہے۔ (2) رحمت ان کو ڈھانک لیتی ہے (3) فرشتے ان کو ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں (4) اور ان کا رب ان کا تذکرہ ایسی جماعت (یعنی فرشتوں کی جماعت میں) بطور تفاخر کے فرماتے ہیں جو ان کے پاس ہیں۔ (35) امام حاکم (انہوں نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) نے ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندہ کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے اور اس کے ہونٹ میری یاد میں حرکت کرتے رہتے ہیں۔ (36) امام حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) حضرت انس ؓ سے مرفوعا روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے میرے بندے ! میں تجھ سے ایسا سلوک کرتا ہوں جو تو میرے ساتھ گمان کرتا ہے اور میں تیرے ساتھ ہوتا ہوں جب تو مجھے یاد کرتا ہے۔ (37) ابن ابی شیبہ نے المصنف میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ صبح و شام اللہ کا ذکر کرنا افضل ہے۔ اللہ کے راستہ میں (لڑتے ہوئے) تلوار توڑنے سے۔ اور سخاوت کرتے ہوئے مال کو عطا کرنے سے (بھی افضل ہے) (38) ابن ابی شیبہ نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ اگر دو آدمی میں سے ایک اللہ کے راستہ میں گھوڑے پر سوار ہوا اور دوسرا اللہ کا ذکر کرے تو ذکر کرنے والا بڑھا ہوا ہے اور افضل ہے اجر کے لحاظ سے۔ (39) ابن ابی شیبہ اور احمد نے (الزہد میں) سلمان الفارسی ؓ سے روایت کیا کہ اگر ایک آدمی (دشمن سے قتال کرنے کا ارادہ کرتے ہوئے) سفید نیزے دیتے ہوئے رات گزارتا ہے اور مسند احمد میں لفظ اس طرح ہے کہ ” یطاعن الا قرآن “ یعنی مد مقابل پر نیزے سے ضرب لاگاتا ہے اور دوسرا آدمی قرآن پڑھتے ہوئے یا اللہ کا ذکر کرتے ہوئے رات گزارے تو دیکھے گا کہ اللہ کا ذکر کرنے والا افضل ہے۔ (40) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ اگر دو آدمی ایک ان میں سے مشرق سے آئے اور دوسرا مغرب سے آئے (پھر) ان دونوں میں سے ایک کے پاس سونا ہو اور وہ حق میں خرچ کرے اور دوسرا اللہ کا ذکر کرے حتی کہ دونوں راستے میں ملاقات کریں تو ان دونوں میں اللہ کا ذکر کرنے والا افضل ہے۔ ذاکرین کی تلاش کرنے والی فرشتوں کی جماعت (41) امام بکاری، مسلم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ فرشتوں کی ایک جماعت ہے جو راستوں میں گشت کرتی رہتی ہے اور ذکر والوں کو تلاش کرتی ہے۔ جب وہ ایسی قوم پالیتے ہیں جو اللہ کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں تو وہ آواز دیتے ہیں کہ اپنی حاجت کی طرف آجاؤ اور ان کو اپنے پروں کے ساتھ آسمان تک گھیر لیتے ہیں جب وہ لوگ متفرق ہوجاتے ہیں تو وہ آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں ان کا رب ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ تم کہاں سے آئے ہو وہ عرض کرتے ہیں کہ تیرے بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو تیری تسبیح اور تیری تکبیر اور تیری حمد بیان کر رہے تھے ارشاد ہوتا ہے کیا ان لوگوں نے مجھے دیکھا ہے عرض کرتے ہیں یا اللہ دیکھا تو نہیں ارشاد ہوتا ہے اگر وہ مجیھے دیکھ لیتے تو کیا حال ہوتا عرض کرتے ہیں کہ وہ اور بھی زیادہ عبادت میں مشغول ہوتے اور اس سے بھی زیادہ تیری تعریف اور تسبیح میں منہمک ہوتے ارشاد ہوتا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں ؟ عرض کرتے ہیں کہ وہ جنت چاہتے ہیں ارشاد ہوتا ہے کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے ؟ عرض کرتے ہیں کہ دیکھا تو نہیں ارشاد ہوتا ہے اگر دیکھ لیتے تو کیا ہوتا ؟ عرض کرتے ہیں کہ اس سے بھی زیادہ اس کی حرص میں اس کی طلب میں اور اس کی رغبت میں لگ جاتے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ کس چیز سے پناہ مانگ رہے تھے ؟ عرض کرتے ہیں جہنم سے پناہ مانگ رہے تھے ارشاد ہوتا ہے کیا انہوں نے جہنم کو دیکھا ہے ؟ عرض کرتے ہیں کہ دیکھا تو نہیں ارشاد ہوتا ہے اگر دیکھتے تو کیا ہوتا ؟ عرض کرتے ہیں اور بھی زیادہ اس سے بھاگتے اور زیادہ اس سے ڈرتے۔ ارشاد ہوتا ہے اچھا تم گواہ رہو کہ میں نے ان کو بخش دیا۔ ایک فرشتہ عرض کرتا ہے یا اللہ فلاں شخص ان میں سے نہیں تھا وہ کسی حاجت کے لئے آیا تھا ارشاد ہوتا ہے کہ وہ ایسی (مبارک) قوم ہے کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم نہیں ہوتا۔ (42) ابن ابی شیبہ، احمد، مسلم، ترمذی اور نسائی نے حضرت معاویہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ صحابہ کی ایک جماعت کے پاس تشریف لے گئے اور دریافت فرمایا کہ کسی بات نے تم لوگوں کو یہاں بٹھایا ہے عرض کیا اللہ جل شانہ کا ذکر کر رہے ہیں اور اس بات پر اس کی حمد و ثنا کر رہے ہیں کہ اس نے ہم لوگوں کو اسلام کی ہدایت دی اور اس کے ذریعہ ہم پر احسان فرمایا آپ ﷺ نے فرمایا کیا خدا کی قسم صرف اسی وجہ سے بیٹھے ہو ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی بدگمانی کی وجہ سے میں نے تم لوگوں کو قسم نہیں دی۔ بلکہ جبرئیل ابھی آئے تھے اور یہ خبر سنا گئے کہ اللہ جل شانہ تم لوگوں کی وجہ سے ملائکہ پر فخر فرما رہے ہیں۔ (43) امام احمد، ابو یعلی، ابن حبان اور بیہقی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے آج اہل محشر جان لیں گے کہ کرم والے کون ہیں۔ کہا گیا یا رسول اللہ ! کرم والے کون ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ذکر کی مجلسوں والے۔ (44) امام احمد نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ عبد اللہ بن رواحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے تھے جب کسی کو ملتے تھے تو اس سے فرماتے کہ آجاؤ ہم اپنے رب کے ساتھ ایک گھڑی ایمان لے آئیں ایک دن جب انہوں نے ایک آدمی سے کہا تو وہ ناراض ہوگیا اور وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ آپ ابن رواحہ کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ آپ کے ایمان سے انحراف کرکے (دوسرے) ایمان کی طرف ایک گھڑی (کے لئے) رغبت دلاتا ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ابن رواحہ پر رحم فرمائے وہ ایسی مجالس کو پسند فرماتے ہیں جن پر فرشتے بھی فخر فرماتے ہیں۔ (45) امام احمد، البزار، ابو یعلی اور طبرانی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو قوم اللہ کے ذکر کے لئے اکٹھی ہوتی ہے اور اس سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا ارادہ کرتے ہیں تو ایک آواز دینے والا آسمان سے آواز دیتا ہے کہ تم لوگ کھڑے ہوجاؤ تمہارے گناہوں کو بخش دیا گیا اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا گیا۔ (46) امام طبرانی نے سہل بن حنظلہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو قوم اللہ کے ذکر کے لئے جمع ہوتی ہے تو ایک منادی آسمان سے ندا دیتا ہے۔ کہ کھڑے ہوجاؤ تم کو بخش دیا گیا اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا گیا۔ (47) بیہقی نے عبد اللہ بن مغفل ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی قوم اکٹھی ہو کر اللہ کا ذکر کرتی ہے تو ایک پکار نے والا ان کو آسمان سے پکارتا ہے کھڑے ہوجاؤ اس خیال میں کہ (سب کو) بخش دیا گیا اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا گیا اور جو قوم اکٹھی ہو کر اللہ کا ذکر نہیں کرتی بغیر اللہ کے ذکر کہ ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں تو یہ چیز ان کے لئے قیامت کے دن حسرت کا باعث بنے گی۔ قبر کے عذاب سے نجات دینے والا عمل (48) امام احمد نے معاد بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ذکر اللہ سے بڑھ کر آدمی کا کوئی عمل بھی قبر کے عذاب سے زیادہ بجات دینے والا نہیں اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو بہترین اعمال نہ بتاؤ جو تمہارے مالک کے نزدیک بہت پاکیزہ اور تمہارے درجوں کو زیادہ بلند کرنے والے۔ اور اس سے بھی بہتر کہ تم (اللہ کے راستہ میں) سونا اور چاندی خرچ کرو اور اس سے بھی بہتر کہ تم دشمنوں سے لڑو اور تم ان کی گردنیں مارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیوں نہیں (ایسا عمل تو ضرور بتائیے) آپ نے فرمایا وہ اللہ کا ذکر ہے۔ (49) امام احمد نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے افضل ایمان کے بارے میں پوچھا پھر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو لوگوں کے لئے محبت کرے اور اللہ کے لئے بعض رکھے اور تو اپنی زبان کو اللہ کے ذکر میں مصروف رکھے انہوں نے پوچھا پھر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو لوگوں کے لئے وہ چیز پسند کرے جو تو اپنے لئے پسند کرے اور ان کے لئے وہ چیز ناپسند کر جو تو اپنے ناپسند کرے اور جو خیر کی بات کر یا خاموش رہے۔ (50) ابن ابی شیبہ، عبد اللہ بن احمد نے زوائد میں ابو برزہ اسلمی ؓ سے روایت کیا کہ اگر ایک آدمی کمرے میں اور وہ ان کو بانٹ رہا ہے اور دوسرا آدمی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا ہو تو ذکر کرنے والا افضل ہے۔ (51) امام عبد اللہ بن احمد درداء ؓ سے روایت کیا تو اللہ تعالیٰ کو یاد کر ہر پتھر درخت اور مٹی کے ڈھیلے کے پاس (تاکہ یہ قیامت کے دن تیرے لئے گواہ بن جائیں) اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرو اپنی مسرتوں اور خوشیوں کے اوقات میں تکالیف میں تمہارا ذکر کیا جائے گا۔ (52) امام احمد نے الزہد میں، ابن ابی شیبہ نے ؤبو درداء ؓ سے روایت کیا کہ جن لوگوں کی زبانیں اللہ کے ذکر سے تروتازہ رہتی ہیں وہ جنت میں ہنستے ہوئے داخل ہوں گے۔ (53) امام احمد نے الزہد میں ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ سو مرتبہ اللہ اکبر کہنا مجھے زیادہ محبوب ہے سو دینا صدقہ کرنے سے۔ (54) عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ جو لوگ اللہ کے ذکر کے لئے جمع ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو ایسی جماعت میں یاد فرماتے ہیں جو ان سے زیادہ عزت والی ہے۔ (یعنی فرشتوں کی جماعت) اور جو قوم آپس میں جدا ہوتی ہے جبکہ انہوں نے اپنی مجلس میں اللہ تعالیٰ کو یاد نہیں کیا ہوتا تو یہ مجلس قیامت کے دن ان کے لئے حسرت اور افسوس کا باعث ہوگی۔ (55) ابن ابی شیبہ نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک مرتبہ تکبیر (یعنی اللہ اکبر کہنا) دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ان سب سے بہتر ہے۔ ذکر اللہ جہنم سے نجات کا سبب ہے (56) ابن ابی شیبہ نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابن آدم کا کوئی عمل بھی آگ سے زیادہ بجات دینے والا نہیں ذکر اللہ سے بڑ کر عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ کے راستے میں جہاد بھی (نجات دینے والا نہیں) آپ نے فرمایا اور جہاد بھی اللہ کے راستہ میں (نجات دینے والا ہے) نہیں مگر یہ کہ تو مارتا رہے اپنی تلوار کے ساتھ یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جائے پھر تو اپنی تلوار کے ساتھ مارتا ہے یہاں کہ تکہ ٹوٹ جائے پھر تو اپنی تلوار کے ساتھ مارتا رہے یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جائے۔ (57) ابن ابی شیبہ نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ میں صبح سے لے کر سورج طلوع ہونے تک اللہ تعالیٰ کو یاد کروں یہ مجھے زیادہ محبوب ہے کہ میں اللہ کے راستہ میں گھوڑے پر سوار ہو کر جہاد کروں صبح سے لے کر سورج طلوع ہونے تک۔ (58) ابن ابی شیبہ نے عبادہ بن صامت ؓ سے روایت کیا کہ میں اس قوم میں سے ہوجاؤں جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں صبح کی نماز سے سورج کے طلوع ہونے تک یہ مجھے زیادہ محبوب ہے کہ میں ہوجاؤں گھوڑوں کی پیٹھوں پر اور اللہ کے راستے میں جہاد کروں سورج کے طلوع ہونے تک اور میں عصر کی نماز سے لے کر سورج غروب ہونے تک ایسی قوم کے ساتھ ہوجاؤں جو اللہ کے ذکر میں لگی رہتی ہے یہ مجھے زیادہ محبوب ہے کہ میں ہوجاؤں گھوڑوں کی پیٹھوں پر اور اللہ کے راستے میں جہاد کروں سورج کے غروب ہونے تک۔ (59) ابن ابی شیبہ نے حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت کیا کہ جب بندہ خوشی اور راحت کے اوقات میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتا ہے پھر اس کو کوئی تکلیف پہنثے تو فرشتے کہتے ہیں کہ مانوس آواز ہے جو ضعیف بندہ کی ہے پھر اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کی سفارش کرتے ہیں اور جو شخص خوشی اور راحت کے اوقات میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان نہ کرے پھر کوئی تکلیف اس کو پہنچے اور وہ اس وقت اللہ کو پکارتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں یہ ناپسندیدہ آواز ہے۔ (60) ابن ابی شیبہ نے جعفر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سخت امعال تین ہیں ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا، اپنی ذات کے بارے میں انصاف کرنا، مال میں مواسات کرنا۔ (61) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ آسمان والے اہل ذکر کے گھروں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ان کے لئے اسی طرح روشنی دیتے ہیں جیسے ستاروے زمین والوں کے لئے روشنی دیتے ہیں۔ (62) البزار نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ کے کچھ فرشتے گھومتے رہتے ہیں جو ذکر کے حلقوں کو تلاش کرتے ہیں جب وہ ان کے پاس آتے ہیں تو ان کو گھیر لیتے ہیں پھر وہ اپنے آگے جانے والوں کو آسمان کی طرف رب عزت تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں بھیجتے ہیں وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب ہم آپ کے ان بندوں سے آئے ہیں جو تیری نعمتوں کی تعظیم کر رہے تھے اور تیری کتاب کی تلاوت کر رہے تھے اور تیرے بنی محمد ﷺ پر درود پڑھ رہے تھے اور آپ سے اپنی آخرت اور اپنی دنیا کی خیر کا سوال کر رہے تھے تو (اس کے جواب میں) اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں ان کو میری رحمت کے ساتھ ڈھانک دو یہ ایسے بیٹھنے والے ہیں کہ ان کے ستاھ بیٹھنے والا بھی بدبخت نہیں ہوتا۔ (63) امام احمد نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجالس ذکر سے کیا فائدہ ہے ؟ آپ نے فرمایا مجالس ذکر کا فائدہ جنت ہے۔ (64) ابن ابی الدنیا، البزار، ابو یعلی، طبرانی، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے الدعوات میں حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے لوگو ! بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے چلنے والے سب فرشتے ہیں جو ذکر کی مجلسوں پر اترتے ہیں اور ٹھہرتے ہیں تم جنت کے باغوں میں چر لیا کرو۔ صحابہ نے عرض کیا جنت کے باغ کہاں ہیں ؟ فرمایا ذکر کی مجلسیں صبح کو اور شام کو اللہ کے ذکر میں جایا کرو اور اپنے دلوں سے اس کو یاد کرو جو شخص اس بات کو محبوب رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا کیا مقام ہے ؟ تو اس کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا کیا مقام ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو وہی مرتبہ عطا فرماتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کا مرتبہ اس کے دل میں ہوتا ہے۔ (65) امام احمد اور ترمذی نے (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرو تو خوب چرو۔ عرض کیا جنت کے باغ کیا ہیں ؟ فرمایا ذکر کے حلقے۔ (66) طبرانی نے عمرو بن عبسہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا رحمن کے داہنے ہاتھ کی طرف اور اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں ایسے لوگ ہوں گے جو انبیاء اور شہداء نہیں ہوں گے۔ ان کے چہروں کی سفیدی دیکھنے والوں کی نظر کو ڈھانک لے گی (یعنی ان کو خیرہ کر دے گی) انبیاء اور شہداء ان پر رش کرتے ہوں گے ان کے بیٹھنے کی جگہوں کو اور ان کے قرب الٰہی کو دیکھ کر پوچھا گیا یا رسول اللہ وہ کون لوگ ہوں گے ؟ فرمایا وہ لوگ جو مختلف خاندانوں سے جمع ہو کر اللہ کے ذکر میں اکٹھے ہوتے ہیں اور وہ اچھی اچھی کلام کو چنتا جیسے کھجور کھانے والا عمدہ کھجوروں کو چنتا ہے۔ (67) امام طبرانی نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ جل شانہ بعض قوموں کا حشر ایسی طرح فرمائیں گے کہ ان کے چہروں میں نور چمکتا ہوا ہوگا۔ وہ موتیوں کے ممبروں پر ہوں گے لوگ ان پر رشک کرتے ہوں گے وہ انبیاء اور شہداء نہیں ہوں گے۔ ایک اعرابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ان کی صفات بیان کر دیجئے کہ ہم ان کو پہچان لیں آپ نے فرمایا وہ لوگ ہیں گے جو اللہ کی محبت میں مختلف جگہوں سے اور مختلف خاندانوں سے آکر ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ (68) امام الخرائطی نے الشکر میں خلید عقری (رح) سے روایت کیا کہ ہر گھر کے لئے زینت ہوتی ہے اور مساجد کی رینت وہ لوگ ہیں جو اللہ کا ذکر کرنے والے ہیں۔ شکر نعمت کے لئے دعاء (69) امام بیہقی نے الدعوات میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا اے لوگو ! کیا تم دعا میں اجتہاد کرنے کو پسند کرتے ہو ؟ عرض کیا ہاں۔ فرمایا (تو) یوں کہو۔ اللہم اعنا علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک ترجمہ : اے اللہ ! ہماری مدد فرما اپنے ذکر پر اپنے شکر پر اور اپنی اچھی عبادت پر۔ (70) امام احمد نے الزہد میں عمرو بن قیس (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ اگر تو مجھے یاد کرے گا تو میں بھی تجھے یاد کروں گا اور اگر تو مجھے بھول جائے گا تو میں بھی تجھے بھول جاؤں گا اور تو ڈر اس بات سے کہ اگر میں تجھ کو اس حال میں پاؤں کہ اس حالت میں تیری طرف نظر نہ کروں۔ (71) امام عبد اللہ نے اپنی زوائد میں معاویہ بن قرہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ان کو فرمایا اے میرے بیٹے اگر تو ایسی قوم میں (بیٹھا ہو) جو اللہ کو یاد کر رہی ہو اور تجھے (وہاں سے جانے کا) کوئی تقاضا ہوجائے تو (وہاں سے) کھڑا ہونے کے وقت ان کو السلام کرلینا (ایسا کرنے سے) تو ان میں برابر شریک رہے گا جب تک وہ مجلس ذکر میں بیٹھے رہیں گے۔ (72) ابن ابی شبیہ نے ابو جعفر (رح) سے روایت کیا کہ ذکر اور شکر سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی چیز زیادہ محبوب نہیں۔ وأما قولہ : واشکرولی ولا تکفرون (73) ابن ابی الدنیا نے کتاب الشکر میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابن المنکدر (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں میں (ایک) یہ دعا تھی۔ اللہم اعنا علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک ترجمہ : اے اللہ ! ہماری مدد فرما اپنے ذکر پر اپنے شکر پر اور اپنی اچھی عبادت پر۔ (74) امام احمد ابو داؤد، نسائی، ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے حضرت معاذ ؓ سے روایت کیا کہ مجھ کو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا میں تیرے لئے اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ تو ہر نماز کے بعد اس دعا کو ہرگز نہ چھوڑو لفظ آیت ” اللہم اعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک “۔ (75) امام احمد نے الزہد میں ابن ابی الدنیا اور امام بیہقی نے أبو الجعد (رح) سے روایت کیا کہ میں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے سوال میں پڑھا انہوں نے عرض کیا اے میرے رب ! کسی طرح میں آپ کا شکر کروں اور چھوٹی سی نعمت جو آپ نے اپنی نعمتوں میں سے مجھے دی ہے میرے سارے اعمال اس کے برابر نہیں ہوسکتے۔ ان کے پاس وحی آئی کہ اے موسیٰ ! اب تو نے میرا شکر ادا کیا ہے۔ (76) ابن ابی الدنیا اور بیہای نے سلمان تیمی (رح) سے روایت کیا کہ اللہ جل شانہ نے بندوں پر اپنی شان کے لائق انعام فرمایا ہے اور ان کی طاقت کے مطابق ان کو شکر کرنے کا مطلف بنایا ہے۔ (77) ابن ابی الدنیا نے عبد الملک من مروان (رح) سے روایت کیا کہ کس بندے نے ایسا کلمہ نہیں کہا جو اللہ کی طرف زیادہ محبوب ہو اور شکر کرنے میں زیادہ مبالغہ والا ہو ان کے نزدیک۔ مگر ان نے جس نے یہ کہا الحمدللہ الذی انعم علینا وھدانا للاسلام ترجمہ : یعنی سب تعریفیں اس ذات کے لئے ہیں جس نے ہم پر انعام فرمایا اور ہم کو اسلام کی طرف ہدایت دی۔ (78) ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے اصبغ بن نباتہ (رح) سے روایت کیا کہ حضرت علی ؓ جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو یوں فرماتے ” بسم اللہ الحافظ من الموذی “ (یعنی اللہ کے نام کے ساتھ جو ہر تکلیف دینے والی چیز سے حفاظت کرنے والا ہے) اور جب باہر نکلتے تو اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے اور یہ فرماتے اے وہ ذات جس کے لئے اپنی نعمت ہے اگر بندے اس کے شکر کو جان لیتے۔ (79) ابن ابی الدنیا نے حضرت حسن ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ ضرور روک لیتا ہے۔ اپنی نعمت کو جو چاہے اسے عذاب میں بدل دیتا ہے جب اس کا شکر ادا نہ کیا جائے۔ (80) ابن ابی الدنیا اور الخرائطی دونوں نے کتاب الشکر میں حاکم بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی بندہ پر اپنی نعمت کرتا ہے اور بندہ اس بات کو جان لیتا ہے کہ یہ نعمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس کا شکر لکھ دیتے ہیں پہلے اس سے کہ بندہ اس کی حمد کرے اور جب اللہ تعالیٰ اپنے بندہ سے گناہ پر ندامت کو جان لیتے ہیں تو اس کو اس کے استغفار کرنے سے پہلے ہی بخش دیتے ہیں ایک آدمی دینار سے کپڑا خریدتا ہے (پھر) اس کو پہنتا ہے اور اللہ کی حمد کرتا ہے تو وہ کپڑا اس کی گھٹنوں پر نہیں پہنچتا کہ اللہ اس کی مغفرت فرما دیتے ہیں۔ (81) امام بیہقی نے الشعب میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص صبح اٹھ کر یہ کہتا ہے : الحمدللہ علی حسن المساء، والحمدللہ علی حسن المبیت، والحمدللہ علی حسن الصباح ترجمہ : سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اچھی شام ہونے پر۔ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اچھی رات گزارنے پر۔ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اچھی صبح ہونے پر۔ تو اس نے اپنی رات کو اپنی دن کا شکریہ ادا کردیا۔ (82) ابن ابی شیبہ، ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے حضرت عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ (جس نے اوپر والی دعا پڑھ لی) تو (گویا) اس نے اپنی رات اپنے دن کا شکر ادا کردیا۔ (83) ابن ابی شیبہ، ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے عبد اللہ بن سلام ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب ! وہ شکر جو تیری ذات کے لائق ہے وہ کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے ذکر سے تو ہمیشہ رطب اللسان رہے۔ پھر عرض کیا یا رب ! ہم کبھی ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ ذکر کرنا ادب کے خلا سمجھتے ہیں۔ فرمایا وہ کیا حالت ہے ؟ عرض کیا قضاء حاجت کے وقت جنابت سے غسل کے وقت اور غیر وضو کی حالت میں ہوتے ہیں فرمایا یقیناً تم میرا ذکر کیا کرو پھر عرض کیا اے میرے رب کیسے تیرا شکر ادا کروں ؟ فرمایا تو اس طرح کیا کرو : سبحانک اللہم وبحمدک لا الہ الا انت الا ذی فجنبنی سبحانک وبحمدک لا الہ الا انت وفقنی الاذی۔ (84) ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور ان پر سلام کیا اور نبی اکرم ﷺ لیہ وسلم نے اس کے لئے یہ دعا فرمائی ایک دن پھر وہ آیا تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا اے فلاں تو کیسا ہے ؟ اس نے کہا میں خیر سے ہوں اگر میں شکر ادا کروں نبی اکرم ﷺ خاموش ہوگئے۔ اس آدمی نے کہا اے اللہ کے نبی ! آپ مجھ سے سوال کرتے تھے اور میرے لیے دعا کرتے تھے اور آج آپ نے مجھ سے سوال فرمایا مگر میرے لئے دعا نہیں فرمائی آپ نے فرمایا میں تجھ سے سوال کرتا تھا اور تو (اس پر) اللہ کا شکر ادا کرتا تھا۔ اور آج میں نے تجھ سے سوال کیا مگر تو نے شکر (کرنے میں) شک کیا۔ (85) ابن ابی الدنیا نے ابو قلابہ (رح) سے روایت کیا کہ تم کو دنیا میں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی اگر تم اس کا شکر ادا کرو گے۔ (86) ابن ابی الدنیا نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کیا کہ وہ اپنی دعا میں یوں فرمایا کرتے تھے : اسئلک تمام النعمۃ فی الاشیاء کلہا، والشکر لک علیہا حتی ترضی وبعد الرضا ترجمہ : میں آپ سے تمام چیزوں میں پوری نعمت کا سوال کرتا ہوں۔ اور شکر تیرے لئے ہے اس پر یہاں تک کہ تو راضی ہوجائے اور بعد رضا کے بھی انہیں چیزوں کا طلب گار ہوں۔ (87) ابن ابی الدنیا اور امام بیہقی نے أبو حازم (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے اس سے کہا آنکھوں کا شکر کیا ہے ؟ فرمایا اگر تو ان دونوں کے ساتھ خیر کو دیکھے تو اس کا علان کر، اور اگر ان دونوں کے ساتھ شر کو دیکھے تو اس کو چھپا دے۔ پھر پوچھا کانوں کا شکر کیا ہے ؟ فرمایا گر تو خیر کو سنے تو اس کو ذہن میں رکھ اور اگر تو ان دونوں کے ساتھ شر کو سنے تو اس کو چھپا دے۔ پھر پوچھا ہاتھوں کا شکر کیا ہے ؟ فرمایا جو چیز ان دونوں کے لائق نہیں ہے اس کو نہ پکڑ اور اللہ تعالیٰ کے حق کو نہ روک جو ان دونوں میں ہے۔ پھر پوچھا پیٹ کا شکر کیا ہے فرمایا کہ اس کا نچلہ حصہ میں کھانا ہو اور اس کے اوپر والے میں علم ہو۔ پھر پوچھا شرم گاہ کا شکر کیا ہے ؟ فرمایا جس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” الا علی ازواجھم اوما ملکت ایمانھم، ذلک فارلئک ہم العدون “ (المعارج آیت 30) پھر پوچھا قدموں کا شکر کیا ہے ؟ فرمایا اگر تو کسی ایسے زندہ کو دیکھے جس پر رشک کرتا ہے تو ان قدموں کے ساتھ ان جیسے اعمال کر اور اگر تو کسی ایسے مردہ کو دیکھے جس سے تو ناراض ہے اور روک دے ان دونوں قدموں کو اس کے (برے) اعمال سے اور تو اس طرح اللہ جل شانہ کا شکر ادا کرنے والا ہے جس نے زبان سے شکر ادا کیا اور اپنے سارے اعضاء سے شکر ادا نہیں کیا تو اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جس کے پاس چادر ہو اور وہ اس کے ایک کنارے کو پکڑے ہوئے ہو اور اس کو نہ پہنے تو یہ چادر اس کو گرمی سے، سردی سے، اولے سے اور بارش سے کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ (88) امام بیہقی نے الشعب میں علی بن مدینی (رح) سے روایت کیا کہ سفیان بن عینیہ (رح) سے پوچھا گیا کہ زہد کی حد کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ تو خوشحالی میں شکر کرنے والا اور مصیبت میں صبر کرنے والا ہو۔ جب وہ اسی طرح ہوگا تو وہ زاہد ہے۔ سفیان سے پوچھا گیا شکر کیا ہے ؟ فرمایا کہ تو بچ جا ان چیزوں سے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ (89) ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے عمر بن عبد العزیز (رح) سے روایت کیا کہ قید کرلو اللہ کی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ اور گناہ کو چھوڑ دیان اللہ کا شکر ہے۔ (90) ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے محمد بن لوط انصاری (رح) سے روایت کیا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ شکر گناہ کے چھوڑ دینے کا نام ہے۔ (91) ابن ابی الدنیا نے مخلد بن حسین (رح) سے روایت کیا کہ کہا جاتا ہے گناہ کو چھوڑ دینے کا نام شکر ہے۔ (92) امام بیہقی نے جنید (رح) سے روایت کیا کہ ایک دن سری (رح) نے پوچھا شکر کیا ہے ؟ میں نے کہا میرے نزدیک شکر یہ ہے کہ کسی نعمت سے گناہوں پر مدد حاصل نہ کی جائے۔ (93) ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے سفیان بن عینیہ (رح) سے روایت کیا کہ زہری (رح) سے پوچھا گیا زاہد کون ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ شخص جس کا حرام اس کے صبر پر غالب نہ آجائے اور حلال اس کو شکر (کرنے) سے نہ روک دے۔ (94) ابن ابی الدنیا نے عبد الرحمن بن زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ شکر حمد کے جسم اور اس کی اصل اور اس کی فرع سے ہوتا ہے پس چاہئے کہ وہ (انسان) دیکھے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی طرف (جو) اس کے بدن اس کے کانوں اس کی آنکھوں اس کے ہاتھوں اس کے پاؤں اور اس کے علاوہ (دوسرے اعضاء) میں ہیں۔ انسان کے بدن میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت نہ ہو (یہ) حق ہے بندے پر کہ وہ ان نعمتوں کو اللہ عزوجل کی اطاعت میں صرف کرے اور دوسری نعمتیں رزق میں ہیں اور انسان پر حق ہے کہ وہ رزق کی نعمتوں کو بھی اللہ کی اطاعت میں استعمال کرے۔ اور جس شخص نے ایسا کیا تو اس نے شکر کے جسم اس کی اصل اور اس کی فرع کو پکڑ لیا۔ صبر و شکر دونوں مرتبہ میں برابر ہیں (95) ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے عامر (رح) سے روایت کیا کہ شکر آدھا ایمان ہے اور صبر آدھا ایمان ہے اور یقین سارا ایمان ہے اور بیہقی نے فرمایا کہ ہم کو ابو عبد الرحمن السلمی (رح) نے بتایا کہ استاد ابو سہل محمد بن سلیمان صعلوکی (رح) سے شکر اور صبر کے بارے میں پوچھا گیا کہ شکر اور صبر میں کون افضل ہے ؟ انہوں نے فرمایا دونوں برابر ہیں شکر وظیفہ ہے خوشحالی کا اور صبر فریضہ ہے تکلیف کا۔ (96) ترمذی، ابن ماجہ اور بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ایسا کھانے والا جو شکر کرنے والا ہے اس کا اجر مثل اس روزہ دار کے ہے جو صبر کرنے والا ہے۔ (97) امام بیہقی نے حضرت ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص نہیں پہچانتا اللہ کی نعمتوں کو جو اس پر ہیں مگر اپنے کھانے اور پینے میں تو تھوڑا ہوگیا اس کا عمل اور حاضر ہوگیا اس کا عذاب۔ (98) بیہقی نے فضیل بن عیاض (رح) سے روایت کیا کہ تم پر شکر لازم ہے کیونکہ تھوڑے ایسے لوگ ہیں جن پر اللہ کی نعمت تھی پھر وہ اس سے زائل ہوگئی ہو پھر ان کی طرف لوٹ آئی ہو۔ (99) بیہقی نے عمارۃ بن حمزہ (رح) سے روایت کیا کہ جب تمہاری طرف نعمتوں کی اطراف پہنچیں تو ان کی انتہاء کو قلت شکر کے ذریعہ دور نہ کر۔ (100) بیہقی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے دین میں اپنے سے اوپر والے پر نظر کی اور دنیا میں اپنے سے نیچے والے پر نظر کی تو اللہ تعالیٰ صابر اور شاکر لکھ دیں گے اور جس شخص نے دین میں اپنے سے نیچے والے پر نظر کی اور دنیا میں اپنے سے اوپر والے پر نظر کی تو اللہ تعالیٰ اس کو صابر اور شاکر نہیں رکھیں گے۔ (101) ابن ابی الدنیا نے عمرو بن شعیب (رح) سے روایت کیا ہے کہ وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ودو خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں ہوں گی اللہ تعالیٰ اس کو صابر اور شاکر لکھ دیں گے اور جس میں یہ دونوں نہیں ہوں گی اللہ تعالیٰ اس کو صابر اور شاکر نہیں لکھیں گے جس نے دین میں اپنے سے اوپر والے پر نظر کی پھر اس کی اقتداء کی اور جس نے دنیا میں اپنے سے نیچے والے پر نظر کی اور (جب) اس نے دنیا میں اپنے سے اوپر والے پر نظر کی تو (دنیا کے) چھوٹ جانے پر افسوس کیا (اس وجہ سے) اللہ تعالیٰ اس کو شاکر اور صابر نہیں لکھیں گے۔ (102) امام سلم اور بیہقی نے صہیب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مؤمن کے ہر حال خیر ہے اگر اس کو خوشحالی پہنچتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے یہ اس کے لئے خیر ہے اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لئے خیر ہے۔ (103) نسائی اور بیہقی نے سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے فرمایا مؤمن پر تعجب ہوتا ہے اگر (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اس کو (نعمت) دی جاتی ہے اور وہ کہے الحمدللہ تو اس نے شکر ادا کیا اور اگر وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہوا اور الحمد للہ کہا تو اس نے صبر کیا (تو) مؤمن کو ہر حال میں اجر ملتا ہے یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی اجر ملتا ہے جو وہ اپنے منہ کی طرف اٹھاتا ہے۔ (104) امام بیہقی نے (اور اسے ضعیف کہا ہے) کہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص میں تین خصلتیں ہوں گی اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمت میں داخل فرما دیں گے اور اس کو اپنی محبت دکھائیں گے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں ہوگا وہ شخص جب کوئی نعمت ملے تو شکر کرے جب مقابل قادر ہو تو معاف کر دے اور جب غصہ ہو تو نرمی اختیار کرے۔ (105) امام حاکم اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس میں تین چیزیں ہوں گی اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمت کے سائے میں پناہ دے گا اور اس پر اپنی رحمت کا پردہ فرمائے گا اور اس کو اپنی محبت میں داخ (رح) کرے گا۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ ! وہ تین چیزیں کیا ہیں ؟ فرمایا وہ شخص جو کوئی نعمت ملے اور اس کا شکر ادا کرے اور جب قادر ہوا تو معاف کر دے اور جب غصہ ہوا تو نرم ہوجائے۔ (106) امام ابو داؤد، نسائی، ابن ابی الدنیا نے الشکر میں، الفریابی نے الذکر میں المعمر نے عمل الیوم والیلہ میں طبرانی نے الدعاء میں، ابن صابی، بیہقی اور المستغفری دونوں نے الدعوات میں عبد اللہ بن غنام ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے صبح کے وقت یوں کہا : اللہم ما اصبح لی من نعمۃ أوبأحد من خلقک فمنک وخذک لاشریک لک لک الحمد ولک الشکر ترجمہ : اے اللہ جو صبح کی میں نے تیری نعمت کے ساتھ یا تیری مخلوق میں سے کسی ایک کے ساتھ وہ تیری طرف سے ہے تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں تیرے لئے سب تعریقیں اور تیرے لئے شکر ہے۔ تو اس نے اپنے دن کا شکر ادا کردیا اور جس نے اسی طرح شام کو کہا تو اس کے اپنی رات کا شکر ادا کردیا۔ (107) ابن ابی الدنیا نے سری بن عبد اللہ (رح) سے روایت کیا کہ اور وہ طائف میں تھے لوگوں پر بارش ہوئی تو انہوں نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا اے لوگو ! اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرو اللہ تعالیٰ نے جو رزق کا سامان تم کو دیا ہے (یعنی بارش) مجھے یہ بات نبی اکرم ﷺ کی طرف سے پہنچی ہے آپ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ اپنے بندہ پر کسی نعمت کا انعام فرماتے ہیں اور وہ اس کی حمد کرتا ہے تو گویا اس نے (اس نعمت کا) شکر ادا کردیا۔ (108) ابن ابی الدنیا اور الخرائطی دونوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کسی مصیبت زدہ کو دیکھا (اور) یہ دعا کی : الحمدللہ الذی عافانی مما ابتلاک بہ وفضلنی علیک وعلی جمیع خلقہ تفصیلا ترجمہ : سب تعریفیں اس ذات کے لئے ہیں جس نے مجھ کو عافیت دی اس مصیبت سے جس میں تجھے مبتلا کیا اور مجھے فضیلت دی تجھ پر اور ساری مخلوق پر۔ تو اس نے نعمت کا شکر ادا کردیا۔ شکر ادا کرنے سے نعمت میں اضافہ (109) ابن ابی الدنیا نے حضرت کعب ؓ سے روایت کیا کہ اللہ کسی بندہ پر دنیا میں اپنی کسی نعمت کا انعام فرمائیں (اور) وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اس نعمت کی وجہ سے اللہ کے لئے عاجزی کرے تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس کا نفع اس کو عطا فرماتے ہیں اور اس کی وجہ سے آخرت میں درجات بلند فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جس بندہ پر انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ کے لئے عاجزی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ اس کے نفع کو دنیا میں روک دیتے ہیں اور اس کے لئے آگ کا طبق کھول دیتے ہیں پھر اس کو (اللہ تعالی) اگر چاہیں گے عذاب دیں گے یا اس سے درگزر فرمائیں گے۔ (110) ابن ابی الدنیا نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کوئی بندہ خالص پانی پیتا ہے اور وہ بغیر تکلیف کے اندر داخلہو جاتا ہے اور بغیر تکلیف کے جاری ہوجاتا ہے تو اس پر شکر کرنا واجب ہے۔ (111) ابو داؤد، ترمذی (انہوں نے اسے حسن کہا ہے) ابن ماجہ، ابن ابی الدنیا اور حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) نے ابو بکرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ کو کوئی ایسا کام پیش آجاتا جو آپ کو اچھا لگتا تو آپ اللہ جل شانہ کے لئے سجدہ میں گرجاتے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ (112) ابن ابی الدنیا نے عبد الرحمن بن عوف ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا میں نے جبرئیل (علیہ السلام) سے ملاقات کی اور انہوں نے مجھے خوشخبری دی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو فرماتے ہیں کہ جو شخص آپ پر درود بھیجے گا میں اس پر سلام بھیجوں گا تو (اس پر) میں نے شکر ادا کرتے ہوئے اللہ کے لئے سجدہ کیا۔ (113) ابن سعد ابن ابی شیبہ اور الخرائطی نے الشکر میں شداد بن اوس ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب لوگ سونے اور چاندی کا خزانہ کریں تو تم ان کلمات کی کثرت کرو۔ اللہم انی اسئلک الثبات فی الامر والعزیمۃ علی الرشد واسئلک شکر العظمۃ واسئلک حسن عبادتک وأسئلک فلما سلیما ولسانا صادقا وأسئلک من خیر ما تعلم وأعوذبک من شر ما تعلم واستغفرک لما تعلم انک انت علام الغیوب۔ ترجمہ : اے اللہ میں آپ سے حکم میں ثابت قدمی کا سوال کرتا ہوں اور ہدایت پر عزیمت کا سوال کرتا ہوں اور آپ سے آپ کی اچھی عبادات کا سوال کرتا ہوں اور آپ سے قلب سلیم اور سچی زبان کا سوال کرتا ہوں اور آپ سے اس چیز کی خیر کا سوال کرتا ہوں جس کو آپ جانتے ہیں اور میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں اس شرکا جس کو آپ جانتے ہیں اور میں آپ سے مغفرت طلب کرتا ہوں جس کے بارے میں آپ جانتے ہیں بلاشبہ آپ ہی غیبوں کو خوب جاننے والے ہیں۔ (115) الخرائطی نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لفظ آیت ” افضل الذکر لا الہ الا اللہ “ ہے اور افضل الشکر الحمدللہ ہے۔ (116) الخرائطی اور بیہقی نے الدعوات میں منصور بن صفیہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ ایک آدمی کے پاس سے گزرے اور وہ کہہ رہا تھا۔ الحمدللہ الذی ھدانی للاسلام وجعلنی من امۃ محمد ترجمہ : سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے اسلام کی ہدایت دی اور مجھے امت محمد میں سے بنا دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو نے بہت بڑا شکر ادا کیا۔ (117) الخرائطی نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ اے لوگو ! دو چیزوں کو یاد کرلو نعمت کا شکر اور ایمان کا اخلاص۔ (118) الخرائطی نے ابو عمر الشیبانی (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے طور کے دن عرض کیا اے میرے رب ! اگر میں نے نماز پڑھی وہ تیری طرف سے ہے (یعنی تیری توفیق میں سے ہے) اگر میں نے صدقہ کیا وہ تیری طرف سے ہے اگر میں نے تیرے پیغامات (لوگوں کو) پہنچائے وہ بھی تیری طرف سے ہے پس میں کس طرح آپ کا شکر ادا کروں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ اب تو نے میرا شکر ادا کیا۔ (119) ابن ابی الدنیا، الخرائثی اور بیہقی نے شعب الایمان میں عبد اللہ بن قرط ازدی ؓ سے جو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے ہیں روایت کیا نعمت قائم رہتی ہیں انعم علیہ (جس پر انعام کیا گیا) اور منعم (نعمت کرنے والے) کے شکر کے ساتھ۔ (120) الخرائطی نے جعفر بن محمد بن ابی حسین بن علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ جو تجھ پر انعام کرنے والا ہے اس کا شکر ادا کر اس لئے کہ جب تو شکر کرے گا تو نعمتیں ختم نہ ہوں گی اور نعمتیں باقی نہیں رہیں گی جب تو ناشکری کرے گا۔ اور شکر کرنا نعمت میں زیادتی کا سبب ہے اور غیر سے امان ہے۔ (121) الخرائطی نے خالد ربعی (رح) سے روایت کیا کہ کہا جاتا ہے کہ ایسے اعمال جو جلدی کے مستحق ہیں ان میں چند یہ ہیں۔ (جب) امانت میں خیانت کیا جائے۔ رحم (یعنی رشتہ داری) کو توڑا جائے اور احسان کی ناشکری کی جائے۔ (122) الخرائطی نے کعب احبار ؓ سے روایت کیا کہ بری بات تجدیف ہے ابو عبید نے کہا کہ الاصمعی (رح) نے فرمایا کہ تجدیف سے مراد نعمتوں کی ناشکری ہے اور اموی (رح) نے فرمایا وہ استقلال ہے (یعنی وہ نعمت) جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کیا ہے۔ اس کو اپنی محنت کا پھل سمجھنا۔
Top