Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 152
فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠   ۧ
فَاذْكُرُوْنِيْٓ : سو یاد کرو مجھے اَذْكُرْكُمْ : میں یاد رکھوں گا تمہیں وَاشْكُرُوْا لِيْ : اور تم شکر کرو میرا وَلَا : اور نہ تَكْفُرُوْنِ : ناشکری کرو میری
سو تم ان نعمتوں پر مجھ کو یاد کرو میں تم کو یاد رکھوں گا اور میرے احسانات کا شکریہ ادا کرتے رہو اور میری نافرمانی نہ کیا کرو1
1 جس طرح ہم نے کعبہ کو قبلہ مقرر کرکے تم پر اپنی نعمت کی تعمیل فرمائی اسی طرح ہم نے تم لوگوں میں ایک عظیم المرتبت رسول بھیجا جو تم میں ہی سے ہے اور اسکی شان یہ ہے کہ وہ تم کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہی اور تم کو م شرکو کفر کی گندگی سے پاک کرتا ہے اور محاسن اخلاق کے ساتھ تمہیں سنوارتا ہے اور تم کو کتاب الٰہی کی تعلیم دیتا ہے اور اس کتاب الٰہی کے احکام کی حکمتیں اور ان کے رموز سکھاتا ہے اور فہم و دانش کی باتیں بتاتا ہے اور تم کو وہ وہ باتیں بتاتا ہے جن کی تم کو نہ تو خبر تھی اور جن کو نہ تم خود جان سکتے تھے لہٰذاتم مجھ کو یاد کرو میں بھی تم کو اپنی رحمت و مہربانی سے یاد رکھوں گا اور میرے احسانات کا شکر بجا لاتے رہو اور میری نافرمانی اور ناسپاسی نہ کرو۔ (تیسیر) کاف تشبیہہ میں بعض مفسرین نے اتمام نعمت کے سلسلے میں بجائے کعبہ کے آخرت کو اختیار فرمایا ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمانے کے ساتھ ربط دیا ہے۔ بعض نے فاذکرونی کے ساتھ اس کاکو ربط دیا ہے چونکہ اس قسم کی ترکیبوں میں وسعت ہے اس لئے جو ترکیب چاہیں اختیار کریں چونکہ کچھ احسانات اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا وغیرہ کے واقعات اوپر بیان ہوچکے ہیں اور آخر میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا تذکرہ فرمایا ہے تو مطلب یہ ہے کہ ابتداء میں بھی احسان کا ذکر اور آخر میں بھی احسان کا ذکر کرنے سے یہ بات معلوم ہوجائے کہ امت محمدیہ کی زندگی حضرت حق کے احسانات میں گھری ہوئی ہے اور تمام زندگی اور تمام حالات ظاہری و باطنی حضرت حق کے انعامات اور احسانات پر مشتمل ہیں باقی آیات و احکام تزکیہ کتاب حکمت وغیرہ کے الفاظ وہی ہیں جو پہلے پارے کے آخر میں گزر چکے ہیں۔ ہم نے تیسیر میں کافی تفصیل کردی ہے مالم تکونو اتعلمون کا مطلب صاف ہے کہ جو باتیں بدون وحی الٰہی کے نہ معلوم ہوسکیں ان کو کس کی مجال ہے کہ سوائے انبیاء کے معلوم کرسکے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے اپنے پیغمبر کی معرفت وہ باتیں ہم کو بتائیں جس سے دنیا کے تمام انسان یکسرنا آشنا تھے جو دعا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تعمیر کعبہ کے زمانے میں فرمائی تھی وہ لفظ بہ لفظ پوری ہوئی دونوں آیتوں کو بہ یک وقت سامنے رکھ کر پڑھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کا چربہ ہے ایک طرف خلیل (علیہ السلام) ہاتھ پھیلا پھیلا کر دعا کر رہے ہیں اور دوسری طرف قدرت کی خاموش قلم قبولیت دعا کا اعلان لکھ رہی ہے تم مجھ کو یاد کرو میں تم کو یاد رکھوں گا الفاظ مقابلہ کے لئے استعمال فرمائے ہیں باقی کہاں بندے کا ذکر اور کہاں ان کی یاد پھر لطف یہ ہے کہ انعامات الٰہی پر خدا کا ذکرکرنا یا ان نعمتوں کو یاد کرکے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری میں مشغول ہونے پر بھی صلہ اور جزا کا اعلان فرمایا کہ اگر تم میری نعمتوں پر شکریہ کے طورمیری اطاعت اور میرے محسن ہونے کا تذکرہ کرو گے تو اس ذکر پر بھی میں تم کو نوازوں گا اور میں بھی دنیوی مصائب و آلام کے موقع پر اور قبر کی وحشت اور میدان حشر کی گھبراہٹ میں تم کو فراموش نہیں کرونگا۔ آگے کے الفاظ میں شکر کی تاکید فرمائی ہے جو خود از زیادہ نعمت کا موجب ہے ۔ لئن شکرتم لازیدتکم یعنی جس قدر شکر کرتے جائو گے میں نعمتیں بڑھاتا جائوں گا۔ دوسرے جملہ میں ناسپاس اور ناشکری کو ممنوع قراردیا ہے اور یہ بھی مہربانی ہے کہ دوا کے ساتھ پرہیز کی بھی تاکید کی جارہی ہے اور ان چیزوں کے ممنوع ہونے کا اعلان کر رہے ہیں جو مضر ہیں کیونکہ کفران نعمت سلب نعمت کو اسی طرح مستلزم ہے جس طرح بد پرہیزی بربادیٔ صحت کو بلکہ موت کو مستلزم ہے۔ ولئن کفر تم ان عذابی لشدید سبحان اللہ ! کیا کلام ہے اور کس قدر رعائتیں ہیں کہ جن کا احاطہ ناممکن ہے۔ حدیث قدسی میں آتا ہے اے ابن آدم جب تو نے میرا ذکر کیا تو میرا شکر ادا کیا اور جب تو نے مجھ کو فراموش کردیا تو میرا کفر کیا۔ حضرت امام غزالی (رح) فرماتے ہیں ذکر کبھی زبان سے ہوتا ہے کبھی قلب سے اور کبھی جوارح سے زبان کا ذکر تو یہ ہے کہ انسان سبحان اللہ الحمد اللہ وغیرہ کہے قلب کا ذکر یہ ہے کہ دلائل قدرت پر غور وفکر کرے اور جوارح کا ذکر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں منہمک ہوجائے اور بندے کا کوئی عضو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرنے پائے۔ ایک اور حدیث قدسی میں ہے جسکو بخاری اور مسلم نے نقل کیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب بندہ میرا ذکر کرتا ہے اور اس کے دونوں ہونٹ حرکت کرتے ہیں تو میں اس کے پاس اور اس کے ساتھ ہی ہوتا ہوں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت میں مرفوعاً آیا ہے ذاکر کی مثال ایسی ہے جیسا زندہ شخص اور جو ذکر نہیں کرتا اس کی مثال ایسی ہے جیسے میت ذکر کی فضیلت میں بکثرت احادیث مروی ہیں جو کتب احادیث سے معلوم ہوسکتی ہیں۔ بعض علماء مفسرین نے بندے کے ذکر کی اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کی اس طرح تفصیل کی ہے کہ تم مجھ کو اطاعت کے ساتھ یاد کرو میں تم کو اپنی رحمت اور مغفرت کے ساتھ یاد کروں گا تم مجھ کو مجاہدے کے ساتھ یاد کرو میں تم کو مشاہدہ کے ساتھ یاد کروں گا تم مجھ کو دعا کے ساتھ یاد کرو میں تم کو اجابت کے ساتھ یاد کروں گا تم مجھ کو تذلل اور عاجزی کے ساتھ یاد کرو میں تم کو تفصل اور اپنی فضیلت کے ساتھ یاد کروں گا تم مجھ کو لوگوں کی جماعت میں یاد کرو میں تم کو فرشتوں کی جماعت میں یاد کروں گا تم مجھ کو آرام و عیش کی حالت میں یاد کرو میں تم کو مصیبت و بلا میں یاد رکھوں گا ۔ تم مجھ کو خوشحالی میں یاد کرو میں تم کو تنگی اور بیماری میں یاد کروں گا تم مجھ کو آسانی اور یسر میں یاد کرو میں تم کو سختی میں یاد کروں گا تم مجھ کو زندگی میں یاد کرو میں تم کو مرنے کے بعد یاد کروں گا تم مجھ کو دنیا میں یاد کرو میں تم کو آخرت میں یاد کرو گا تم مجھ کو صدق و اخلاص کے ساتھ یاد کرو میں تم کو خصوصیت اور اختصاص کے ساتھ یاد کروں گا تم مجھ کو عبودیت کے ساتھ یاد کرو میں تم کو ربوبیت کے ساتھ یاد کروں گا۔ (تسہیل)
Top