Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 153
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَعِيْنُوْا : تم مدد مانگو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلٰوةِ : اور نماز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اے ایمان والو، ثابت قدمی اور نماز سے مدد چاہو بیشک اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے
منصب امامت کی مشکلات اور ان کا علاج : اب اس آیت اور آگے کی چار آیات میں ان خطرات و مشکلات کے مقابلہ کی تدابیر بتائی جا رہی ہیں، جو اس منصب امامت کے بعد پیش آئیں گی یا پیش آسکتی ہیں۔ یہود کو مسلمانوں کے ساتھ جو عناد تھا وہ تو اچھی طرح اوپر واضح ہوچکا ہے مگر قبلہ کے اس اشتراک کی وجہ سے یہود اب تک اس تمام اختلاف و نزاع کے اندر اتفاق کی بھی ایک جھلک دیکھتے تھے۔ لیکن تحویل قبلہ کے بعد انہوں نے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ مسلمان اب ملت ابراہیم کے وارث کی حیثیت سے اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ ان سے بالکل ممیز ہو کر سامنے آگئے ہیں۔ اس چیز نے قدرتی طور پر مسلمانوں کے خلاف ان کے غیظ و غضب کو دو چند کردیا۔ اسی طرح قریش جو مسلمانوں کو مکہ سے نکال کر اس طمع خام میں مبتلا ہوگئے تھے کہ یہ دعوت ایک اجنبی ماحول میں آپ سے آپ دب جائے گی، اب یہ محسوس کرنے لگے کہ ان کی توقعات کے خلاف، مسلمان مدینہ میں ایک طاقت بنتے جا رہے ہیں اور ان کا عوے یہ ہے کہ ملت ابراہیم کے اصلی وارث اور خانہ کعبہ کے جائز متولی وہی ہیں۔ چناچہ انہوں نے اب اس گھر کو اپنا قبلہ بھی بنا لیا ہے، جس کا نتیجہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اب وہ اس پر قبضہ بھی کرنے کی کوشش کریں۔ اس احساس نے انہیں بھی چوکنا کیا اور وہ اس خطرے کے سدباب کی تدبیریں سوچنے لگے، جس کے نتیجہ میں تحویل قبلہ کے دو ہی مہینوں کے بعد انہوں نے اس جنگ کے اسباب پیدا کردیے جو تاریخ اسلام میں غزوہ بدر کے نام سے مشہور ہے۔ اس جنگ کے متعلق ہماری تحقیق، جیسا کہ ہم سورة انفال کی تفسیر میں پیش کریں گے، یہ ہے کہ یہ یہود مدینہ اور قریش مکہ کی باہمی سازش سے ہوئی تھی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان، جو اب ایک مستقل امت کی حیثیت سے ملت ابراہیمی اور قبلہ ابراہیمی کے دعوے دار بن کر اٹھ رہے ہیں، ان کا زور اٹھنے سے پہلے ہی توڑ دیا جائے۔ یہ حالات اگرچہ ابھی پس پردہ تھے لیکن اس خدائے علام الغیوب سے مخفی نہیں تھے جو کھلے اور چھپے سب سے باخبر ہے اس وجہ سے اس کی رحمت اور حکمت مقتضی ہوئی کہ وہ مسلمانوں کو آنے والے خطرات سے متنبہ بھی فرما دے اور ان خطرات کے مقابلہ میں جو چیز ان کے عزم و حوصلہ کو برقرار رکھ سکتی ہے، اس کی ہدایت بھی فرما دے۔ اس سلسلہ کی پہلی بات جو، آیت زیر بحث میں ارشاد ہوئی، یہ ہے کہ پیش آنے والی مشکلات میں صبر اور نماز سے مدد چاہو۔ صبر اور نماز کی لغوی تحقیق، ان کے باہمی تعلق اور اقامت دین کی جدو جہد میں ان کی عظمت و اہمیت پر تفصیلی گفتگو ہم اسی سورة کی آیت 45 کے تحت کرچکے ہیں۔ نیز فصل 32 میں بھی ان کے بعض اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی جا چکی ہے اس وجہ سے یہاں کسی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ بعض باتیں مخصوص اس مقام سے متعلق ہیں جن کی طرف اشارہ ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ مشکلات و مصائب میں جس نماز کا سہارا حاصل کرنے کا یہاں ذکر ہے اس سے مراد صرف پانچ وقتوں کی مقررہ نمازیں ہی نہیں ہیں بلکہ تہجد اور نفل نمازیں بھی ہیں۔ اس لیے کہ یہی نمازیں مومن کے اندر وہ روح اور زندگی پیدا کرتی ہیں جو راہ حق میں پیش آنے والی مشکلات پر فتح یاب ہوتی ہے، انہی کی مدد سے وہ مضبوط تعلق باللہ پیدا ہوتا ہے جو کسی سخت سے سخت آزمائش میں بھی شکست نہیں کھاتا، اور انہی سے وہ مقام قرب حاصل ہوتا ہے جو خدا کی اس معیت کا ضامن ہے جس کا اس آیت میں صابرین کے لیے وعدہ فرمایا گیا ہے۔ اس حقیقت کی پوری وضاحت مکی سورتوں میں آئے گی اس وجہ سے یہاں ہم صرف اشارہ پر اکتفا کرتے ہیں۔ دوسری یہ کہ نماز تمام عبادات میں ذکر اور شکر کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ نماز کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی شکر گزاری ہے۔ اس پہلو سے غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اوپر اس امت سے یہ عہد جو لیا گیا ہے فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ ، اس کے قیام میں نماز سب سے بہتر وسیلہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ تیسری یہ کہ نماز دعوت دین اور اقامت حق کی راہ میں عزیمت و استقامت کے حصول کے لیے مطلوب ہے۔ اس وجہ سے اس نماز کی اصلی برکت اس صورت میں ظاہر ہوتی ہے جب آدمی راہ حق میں باطل سے کشمکش کرتا ہوا اس کا اہتمام کرے۔ جو شخص سرے سے باطل کے مقابل میں کھڑے ہونے کا ارادہ ہی نہیں کرتا ظاہر ہے کہ اس کے لیے یہ ہتھیار کچھ غیر مفید ہی بن کر رہ جاتا ہے۔ چوتھی یہ کہ یہاں صبر اور نماز سے مدد حاصل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ " اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے " یہ نہیں فرمایا کہ اللہ نماز پڑھنے والوں اور صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس کی وجہ استاذ امام ؒ کے نزدیک یہ ہے کہ نماز میں خدا کی معیت کا حاصل ہونا اس قدر واضح چیز ہے کہ اس کے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی، واضح کرنے کی بات یہی تھی کہ جو لوگ راہ حق میں ثابت قدم رہتے ہیں اور اس ثابت قدمی کے حصول کے لیے نماز کو وسیلہ بناتے ہیں، الہ ان کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ پانچویں یہ کہ اللہ کی معیت جس کا یہاں ثابت قدموں کے لیے وعدہ کیا گیا ہے کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ موقع کلام گواہ ہے کہ یہاں ان دو لفظوں کے اندر بشارتوں کی ایک دنیا پوشیدہ ہے، تمام کائنات کا بادشاہ حقیقی اور تمام امر و اختیار کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے تو جب وہ کسی کی پشت پر ہے تو اس کو دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی کس طرح شکست دے سکتی ہے۔
Top