Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 152
فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠   ۧ
فَاذْكُرُوْنِيْٓ : سو یاد کرو مجھے اَذْكُرْكُمْ : میں یاد رکھوں گا تمہیں وَاشْكُرُوْا لِيْ : اور تم شکر کرو میرا وَلَا : اور نہ تَكْفُرُوْنِ : ناشکری کرو میری
سو تم مجھ کو یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا، اور میرا شکر کرو، اور میری ناشکری نہ کرو۔
فَاذْ کُرُوْنِیٓ اَذْکُرْکُمْ کی تفسیر : مفسر بیضاوی لکھتے ہیں کہ فاذکرونی باطاعتی اذکرکم بالثواب یعنی تم مجھے فرمانبرداری کے ساتھ یاد کرو میں تمہیں ثواب دے کر یاد کروں گا، دل سے زبان سے اللہ کو یاد کرنا یہ بھی یاد ہے اور فرمانبرداری اور اطاعت میں لگنا یہ بھی یاد ہے۔ اللہ کے خوف سے گناہوں کو چھوڑ دینا یہ بھی یاد ہے محققین نے فرمایا ہے۔ کل مطیع اللہ فھو ذاکر۔ یعنی ہر وہ شخص جو اللہ کی فرمانبرداری میں مشغول ہو وہ ذاکر ہے۔ زبان سے یاد کرنے کی بھی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرے اور میری یاد میں اس کے ہونٹ حرکت کریں (صحیح بخاری عن ابی ہریرۃ) اور ایک حدیث میں یوں ہے کہ آنحضرت سرور عالم ﷺ نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے بندہ کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرے سو اگر اس نے مجھے تنہائی میں یاد کیا تو میں بھی اسے تنہا یاد کروں گا اور اگر وہ مجھے جماعت میں یاد کرے تو میں اسے ایسی جماعت میں یاد کرتا ہوں جو اس کی جماعت سے بہتر ہے۔ (یعنی عالم بالا کے درباری فرشتوں کے سامنے) ۔ (صحیح بخاری ایضاً عن ابی ہریرۃ) ذکر اللہ کے فضائل : احادیث شریفہ میں تسبیح تہلیل اور تکبیر میں مشغول ہونے کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں یوں کہوں کہ (سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر) تو یہ مجھے ان سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن چیزوں پر آفتاب طلوع ہو۔ (صحیح مسلم ص 425 ج 2) حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ سے سوال کیا گیا کہ کون سا کلام (ذکر کے لیے) سب سے زیادہ افضل ہے۔ آپ نے فرمایا جو اللہ نے اپنے فرشتہ کے لیے منتخب فرمایا یعنی (سُبْحَان اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ ) (رواہ مسلم ص 351 ج 2) حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے یوں (سُبْحَان اللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ ) اس کے لیے جنت میں ایک کھجور کا درخت لگا دیا جائے گا۔ (رواہ الترمذی فی ابواب الدعوات ) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں (قیامت کے دن) ترازو میں بھاری ہوں گے اور رحمن کو محبوب ہیں اور وہ یہ ہیں (سُبْحَان اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَان اللّٰہِ الْعَظِیْمِ ) (صحیح بخاری آخری حدیث) ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ اسلام کی باتیں تو بہت ہیں آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جس میں لگا رہوں آپ نے فرمایا (لاَ یَزَالُ لِسَانُکَ رَطَبًا مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ) یعنی تیری زبان ہر وقت اللہ کی یاد میں تر رہے۔ (رواہ الترمذی و حسنہ) حضرت ابو موسیٰ الاشعری ؓ نے بیان فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے چل رہا تھا اور دل میں (لاَ حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا باللّٰہِ ) پڑھ رہا تھا آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے عبداللہ بن قیس (یہ حضرت ابو موسیٰ اشعری کا نام ہے) کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتادوں ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ضرور ارشاد فرمائیں۔ آپ نے فرمایا وہ خزانہ (لاَ حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا باللّٰہِ ) ہے۔ (صحیح مسلم ص 346 ج 2) حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ کسی جگہ بیٹھ کر اللہ کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں ان کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور ان پر رحمت چھا جاتی ہے اور ان پر اطمینان کا نزول ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنے درباریوں میں یاد فرماتا ہے۔ (صحیح مسلم ص 345 ج 2) شکر کی فضیلت اور اہمیت : ذکر کا حکم فرمانے کے بعد شکر کا حکم فرمایا اور ارشاد فرمایا (وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَتَکْفُرُوْنِ ) (یعنی میرا شکر کرو اور میری ناشکری نہ کرو) ذکر کے ساتھ شکر ادا کرنا بھی لازم ہے۔ بندوں پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں جن کا شمار بھی بندوں کی قدرت سے باہر ہے۔ ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا واجب ہے۔ شکر میں یہ سب کچھ آجاتا ہے کہ نعمتوں کا اقرار کریں۔ قول اور فعل سے نعمتوں کا اظہار کریں۔ نعمتوں کی قدر دانی کریں۔ ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کریں اور نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت میں خرچ کریں۔ نعمتوں کا منکر ہونا ان کی ناقدری کرنا اور ان کو گناہوں میں خرچ کرنا ناشکری ہے۔ یہ کتنی بڑی حماقت ہے کہ نعمتیں اللہ تعالیٰ عنایت فرمائے اور ان نعمتوں کا استعمال اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اور نفس و شیطان کی فرمانبرداری میں ہو۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تو سبھی استعمال کرتے ہیں لیکن شکر گزار بندے کم ہیں جیسا کہ سورة سبا میں فرمایا۔ (وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ ) شکر بہت بڑی چیز ہے اس کی وجہ سے نعمتیں باقی بھی رہتی ہیں اور نعمتوں میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ اور ناشکری پر نعمتیں چھین لی جاتی ہیں۔ سورة ابراہیم (ع 2) میں فرمایا۔ (وَ اٰتٰکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ) (اور اللہ تعالیٰ نے تم کو ان سب چیزوں میں سے دیا جن کا تم نے سوال کیا اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو شمار نہ کرسکو گے۔ بلاشبہ انسان بڑا ظالم ہے (اور بڑا ناشکرا ہے۔ ) بندوں کا یہی کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں اس کی نعمتوں کو یاد کریں جب انہیں استعمال کریں تو اللہ کی حمد و ثنا میں مشغول ہوں۔ حدیث شریف کی کتابوں میں جو دعائیں وار دہوئی ہیں۔ ان میں نعمتوں پر بار بار اللہ کی حمد کا اعادہ کیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ الحمد راس الشکر ما شکر اللہ عبدٌ ولا یحمدہ (یعنی اللہ کی حمد کرنا اصل شکر ہے جو بندہ اللہ کی حمد بیان نہیں کرتا، اس نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا۔ ( رواہ البیہقی فی شعب الایمان کما فی المشکوٰۃ ص 201)
Top