Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 152
فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠   ۧ
فَاذْكُرُوْنِيْٓ : سو یاد کرو مجھے اَذْكُرْكُمْ : میں یاد رکھوں گا تمہیں وَاشْكُرُوْا لِيْ : اور تم شکر کرو میرا وَلَا : اور نہ تَكْفُرُوْنِ : ناشکری کرو میری
پس اب میری یاد میں لگے رہو میں بھی تمہاری طرف سے غافل نہیں ہوں اور دیکھو میری نعمتوں کی قدر کرو ، ایسا نہ کرو کہ کفران نعمت میں مبتلا ہو جاؤ
امت ِمسلمہ کو ذکر الٰہی کی ہدایت اور اس کے ثمرات : 275: ذکر کرنے کے اصل معنی یاد کرنے کے ہیں جس کا تعلق قلب سے ہے ۔ زبان سے ذکر کرنے کو بھی ذکر اسلئے کہا جاتا ہے کہ زبان ترجمان قلب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ذکر زبانی وہی معتبر ہے جس کے ساتھ دل میں بھی اللہ کی یاد ہو ۔ مولانا رومی نے اسی کے متعلق فرمایا ہے۔ ؎ برزبان تسبیح در دل گا وخر ۔ ایں چنیں تسبیح کے دار واثر لیکن اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کوئی شخص زبان سے ذکر و تسبیح میں مشغول ہو مگر اس کا دل حاضر نہ ہو اور ذکر میں نہ لگے تو وہ بھی فائدے سے خالی نہیں کیونکہ اور کچھ بھی نہیں تو ایک عضو یعنی زبان تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مصروف ہے یہ مصروفیت ہے ہی ، ممکن ہے کہ اس کے لئے اصل ذکر کا سبب بن جائے ۔ ذکر ہر حالت میں اللہ کو یاد رکھنا ہے تاکہ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ 1ؕکے جواب میں جب بَلٰى کہا تھا وہ فراموش نہ ہونے پائے ۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُؕ004 کی حقیقت طاری ہو اور اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُؕ0028 سے حلاوت اندوز ہو۔ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ00162 لَا شَرِیْكَ لَهٗ 1ۚ وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ 00163 کا جذبہ پیدا ہوا اور اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ 00131 اس کے ہر رگ وطے میں جاری ساری ہو۔ جس طرح دنیا میں ہر قوم کے لئے مرکز ہونا ضروری ہے ۔ نجوم وکواکب کا تعلق سورج کے ساتھ ہے ۔ درخت کی مختلف شاخیں جڑ سے متعلق ہیں ایسے ہی نوع انسانی اپنے مرکز حقیقی سے وابستہ ہو کہ وہی سرچشمہ حیات ہے اور وہی ہماری ضروریات زندگی کو پورا کرنے والا ۔ جھکے تو اسی کے آگے۔ عاجزی و فروتنی ہو تو اسی کی خاطر اور مانگو تو اسی سے مانگو یقینا وہی دے گا۔ پھر ذکر کے بعد شکر ہے۔ شکر یہ ہے کہ جو کچھ اس نے دیا ہے اس کو صحیح موقع و محل پر صرف کرنا شکر ہے۔ ارشاد الٰہی ہے کہ : لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىِٕنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ 007 اگر اس کا بےجا خرچ کیا تو یہ کفر ہے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے کہا : هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ 1ۖ۫ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُ 1ؕ وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ 1ۚ وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌ كَرِیْمٌ 0040 (النمل 27 : 40) ” یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں اور جو شکر کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا رب بےنیاز اور بزرگی والا ہے۔ “ لوط (علیہ السلام) پر نعمتوں کے نزول کا سبب شکر قرار دیا فرمایا : نَجَّیْنٰهُمْ بِسَحَرٍۙ0034 نِّعْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا 1ؕ کَذٰلِكَ نَجْزِیْ مَنْ شَكَرَ 0035 ” ہم نے ان کو اخیر شب میں اپنے فضل سے بچا کر نکال لیا ہم شکر گزار کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی چیز کو صحیح موقع و محل پر صرف کرتے تھے اس لئے ہم نے ان کو عذاب سے نجات دی۔ معلوم ہوا کہ ذکر الٰہی کا ثمرہ عذاب سے نجات ہے اور یہی سب کامیابیوں میں سے بڑی کامیابی ہے۔
Top