Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 125
فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ١ۚ وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ١ؕ كَذٰلِكَ یَجْعَلُ اللّٰهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ
فَمَنْ
: پس جس
يُّرِدِ
: چاہتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
اَنْ يَّهدِيَهٗ
: کہ اسے ہدایت دے
يَشْرَحْ
: کھول دیتا ہے
صَدْرَهٗ
: اس کا سینہ
لِلْاِسْلَامِ
: اسلام کے لیے
وَمَنْ
: اور جس
يُّرِدْ
: چاہتا ہے
اَنْ
: کہ
يُّضِلَّهٗ
: اسے گمرہا کرے
يَجْعَلْ
: کردیتا ہے
صَدْرَهٗ
: اس کا سینہ
ضَيِّقًا
: تنگ
حَرَجًا
: بھینچا ہوا
كَاَنَّمَا
: گویا کہ
يَصَّعَّدُ
: زور سے چڑھتا ہے
فِي السَّمَآءِ
: آسمانوں میں۔ آسمان پر
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
يَجْعَلُ
: کردیتا ہے (ڈالے گا)
اللّٰهُ
: اللہ
الرِّجْسَ
: ناپاکی (عذاب)
عَلَي
: پر
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
لَا يُؤْمِنُوْنَ
: ایمان نہیں لاتے
اللہ جس کسی کو ہدایت دینا چاہتا ہے ‘ اس کا سینہ اسلام کیلئے کھول دیتا ہے اور جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے ‘ اس کے سینہ کو بالکل تنگ کردیتا ہے ‘ گویا اسے آسمان پر چڑھنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح اللہ ناپاکی مسلط کردیتا ہے ان لوگوں پر ‘ جو ایمان نہیں لاتے
تمہید متذکرہ بالا پوری صورتحال کو سامنے رکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مشرکین مکہ اور دیگر مشرکین نے اسلام قبول نہ کرنے کے بظاہر مختلف بہانے تراش رکھے تھے اور وہ اپنے انکار کے اصل سبب کو چھپانے کے لیے نئے سے نئے عذر اختراع کرتے رہتے تھے اور نئے نئے مطالبات رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کر کے لوگوں کو مطمئن رکھنے کی کوشش بھی کرتے اور اپنے انکار کے اصل سبب پر پردہ ڈالنے کی بھی سعی ناتمام کرتے۔ لیکن قرآن کریم نے ان کی اس حرکت کا پردہ بار بار چاک کیا اور گزشتہ آیت میں ‘ جیسا کہ اس کی تفصیل عرض کی گئی ‘ بتایا گیا کہ ان کے انکار کا اصل سبب ان کا استکبار ہے ‘ جس کی سزا ان کو دنیا میں بھی ملی اور آخرت میں وہ مزید اس کی سزا پائیں گے۔ لیکن مزید تدبر کی نگاہ سے دیکھا جائے تو قرآن کریم قدم قدم ہماری فکر کو غذا دیتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے اور توجہ دلا رہا ہے کہ استکبار اور تکبر کا پیدا ہونا اس کی بھی یقینا کوئی علت ہے۔ یہ بلا سبب پیدا نہیں ہوتی اور اگر یہ پیدا ہو بھی جائے تو آدمی اس میں اس حد تک اندھا نہیں ہوجاتا کہ وہ گردوپیش پھیلی ہوئی کھلی کھلی علامتوں کو دیکھنے کے باوجود ‘ اس سے کوئی سبق نہ لے سکے۔ اس کے سامنے دعوت اپنی حقانیت اور صداقت کی تابانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو ‘ لیکن وہ اس پر کوئی اثر نہ پیدا کرسکے۔ پھر اس دعوت کو پیش کرنے والا ‘ اپنی ذات میں بجائے خود ایک معجزانہ شخصیت رکھتا ہو ‘ لیکن یہ لوگ اس سے بھی متاثرہونے سے انکار کردیں۔ پھر دعوت پیش کرنے کا انداز اور دعوتی خطاب کے جاندار ‘ موثر اور خوبصورت اسالیب ‘ جو بجائے خود اپنے اندر نہایت جاذبیت اور اپیل رکھتے ہوں بھی اپنی تمام اثر آفرینی کے باوجود کام دکھانے سے عاجز نظر آئیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ استکبار اگرچہ انکار کی بظاہر علت ہے ‘ لیکن حقیقی علت نہیں ہے۔ حقیقی علت اس کے سوا کچھ اور ہے۔ لیکن اس کو شروع میں اس لیے ذکر نہیں کیا گیا کہ ظاہری علت کو نظر انداز کر کے کئی پردوں میں چھپی ہوئی علت کو بیان کرنا ‘ یہ اپنے سننے والوں اور اپنے مخاطب لوگوں کو امتحان میں ڈالنے سے کم نہیں اور کسی بھی صداقت کی دعوت چونکہ اپنے اندر ایک سادگی ‘ تسہیل اور وضاحت و صراحت رکھتی ہے ‘ جو دل و دماغ کو بدلنے کے لیے انتہائی ضروری ہے ‘ اس کے فطری اسلوب کے یہ بات خلاف ہے کہ آسانی سے سمجھ آنے والی علتوں کو نظر انداز کر کے ایک گہری اور دقیق علت کا ذکر کیا جائے۔ چناچہ پہلے اس علت کو بیان کیا گیا ‘ جو سمجھ میں آسکتی تھی اور جو یقینا ایک علت کے طور پر کارفرما بھی تھی اور اب اگلی آیت کریمہ میں اس حقیقی علت کو بیان کیا جا رہا ہے ‘ جس کی حیثیت علت العلل سے کم نہیں۔ لیکن یہ علت ابتداء میں پیدا نہیں ہوجاتی۔ اس کا شکار ہونے والا شخص ‘ رفتہ رفتہ اپنے کفر و انکار کی وجہ سے اس کی طرف بڑھتا ہے۔ کفر کے اس سفر میں بتدریج اس کے کفر کی علتیں سامنے آتی ہیں اور اس کی اصلاح کے لیے ایک داعی ان کی طرف توجہ بھی دلاتا ہے تاکہ خرابی کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے ابھی سے اس کا علاج کرلیا جائے۔ لیکن جب مریض بدپرہیزی سے باز نہیں آتا اور علاج کو قبول کرنے کی بجائے ‘ علاج اور معالج سے دشمنی پر اتر آتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ اس حقیقی علت کا شکار ہوجاتا ہے ‘ جو یہاں کارفرما فطری قوانین میں سے ایک اہم قانون کی حیثیت رکھتی ہے۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں اس کی وضاحت کے لیے ارشاد فرمایا گیا : فَمَنْ یُّرِدِ اللہ ُ اَنْ یَّھْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ ج وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ ط کَذٰلِکَ یَجْعَلُ اللہ ُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُونَ ۔ (الانعام : 125) ( اللہ جس کسی کو ہدایت دینا چاہتا ہے ‘ اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے ‘ اس کے سینہ کو بالکل تنگ کردیتا ہے ‘ گویا اسے آسمان پر چڑھنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح اللہ ناپاکی مسلط کردیتا ہے ان لوگوں پر ‘ جو ایمان نہیں لاتے ) اس آیت کریمہ کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک جملہ گہرے تدبر کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس لیے میں سب سے پہلے اس کے بعض الفاظ کے معانی کا ذکر کرتا ہوں۔ اس کے پہلے جملے میں ہدایت کا ذکر آیا ہے۔ میں گزشتہ کسی درس میں ہدایت کے مختلف معانی بیان کرچکا ہوں ‘ اب انھیں دہرانا نہیں چاہتا ‘ البتہ یاد دہانی کے لیے صرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ ہدایت کا ایک معنی ہے راستہ دکھانا ‘ رہنمائی کرنا ‘ بات کو آسان کردینا ‘ قبولیت کے لیے آمادگی پیدا کرنا اور دوسرا اس کا معنی ہے ‘ قلبی نور و بصیرت۔ یعنی طبیعت میں اس طرح کی کیفیت پیدا کردینا جس سے بات قبول کرنے میں کوئی دقت باقی نہ رہے۔ اس کے بعد ذکر آیا ہے شرح صدر کا۔ شرح صدر اصل میں اسی ہدایت کا ثمر اور اس کا نتیجہ ہے۔ البتہ ہدایت کے دونوں معنوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا چاہیے کہ شرح صدر کی کیفیت دونوں معنوں میں الگ الگ ہوگی ‘ جس کا آگے وضاحت میں ذکر آئے گا۔ ” حَرَجَ “ کا معنی ہوتا ہے ” جھاڑیوں سے بھری ہوئی تنگ جگہ “۔ یعنی ایک جگہ یا ایک راستہ جو پہلے ہی تنگ ہے ‘ اس کو جھاڑیاں اگ آنے کے باعث مزید تنگ کردیا گیا ہے۔ یہاں یہ لفظ ” ضَیِّقًا “ کی تاکید کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ یَصَّعَّدُ اس کا مصدر تصعد ہے۔ اس کا معنی ” بہ تکلف اور بہ مشقت کسی بلندی پر چڑھنا ہے “۔ یعنی آدمی کسی ایسی بلندی پر چڑھے جس میں اس کی سانس پھول جائے ‘ پھیپھڑے جواب دینے لگیں اور پسینہ پسینہ ہوجائے۔ ” السَمَآئِ “ یہ آسمان اور بادل پر بھی بولا جاتا ہے اور فضا پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، یہاں یہ فضا ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس آیت کریمہ میں ‘ ان کے انکار کی اصل علت کو بیان کیا گیا ہے۔ لیکن انکار کی کیفیت پیش نظر رہنی چاہیے۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ تمام مشرکین عرب ‘ شاید ایک طرح کی کیفیت میں مبتلا تھے۔ یعنی تمام کا حال یہ تھا کہ وہ کسی طرح بھی اسلام کا نام سننے کے روادار نہیں تھے۔ وہ اسلامی دعوت اور آنحضرت ﷺ کی ذات کو کسی طرح بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ یقینا عام مشرکین کا یہی طرز عمل تھا۔ لیکن اگر یہ بات کہی جائے تو یہ انسانی فطرت کی شاید صحیح ترجمانی ہو کہ انکار کرنے والوں میں انکار کی کیفیت یکساں نہیں ہوتی۔ اکثریت تو ایسے ہی لوگوں کی ہوتی ہے ‘ جن کا ابھی ذکر ہوا۔ لیکن ایک قابل ذکر تعداد ‘ ایسے لوگوں کی بھی ہوتی ہے ‘ جو اسلامی دعوت کو سنتے اور بعد میں اس پر غور بھی کرتے ہیں ‘ لیکن اس دعوت کی بعض باتیں ان کے فکری سانچے میں اترنے میں نہیں آتیں۔ انھوں نے اپنے ذہن اور دماغ کو جس طرح کے سانچے میں ڈھال لیا ہوتا ہے۔ اس میں صرف وہی بات داخل ہوسکتی ہے جو اس سانچے سے میل کھاتی ہو۔ رہی اس سے مختلف بات تو وہ کبھی اس میں داخل نہیں ہونے پاتی۔ اس لیے کہ وہ اپنے سانچے کو کبھی ٹوٹنے نہیں دیتے اور اپنی سوچ میں کسی تبدیلی کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے ‘ بلکہ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے دل و دماغ کے کواڑ اس طرح قوت سے بند کریں کہ بہار کا موسم آ کر گزر جائے ‘ لیکن اس کی کوئی خوشبو اور اس کی خوشگوار ہوا کا کوئی جھونکا کبھی ان کے کو اڑوں سے گزر نہ سکے۔ کفار کا فکری جمود اس صورت حال پر اگر آپ غور کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ مرض دو طرح کا ہے۔ ایک جامد انکار کا اور دوسرا فکری جمود کا۔ اگرچہ انجام دونوں کا ایک ہے کہ دونوں ہی اسلام کی دولت کو قبول کرنے سے محروم رہتے ہیں ‘ لیکن یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ اس نے اپنی بلاغت لسانی سے دونوں باتوں کی طرف اشارہ کردیا ہے اور اس کی طرف راہنمائی آیت کے دوسرے حصے سے ہو رہی ہے۔ اس میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے ‘ اس کے سینے کو تنگ کردیتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کفر اور شرک کی اس گندگی کو ‘ جو ایمان نہیں لاتے ‘ ان پر مسلط کردیتا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ محرومی کی دو سزائیں ہیں ‘ جو دو الگ الگ مجرموں کے لیے تجویز کی گئی ہیں ‘ جن میں سے پہلا مجرم وہ ہے ‘ جو اسلامی دعوت پر کان تو دھرتا ہے ‘ لیکن اس کا فکری جمود اس کے دل و دماغ تک اسے پہنچنے نہیں دیتا چونکہ وہ اپنے دماغ کا کوئی دریچہ اور اپنے دل کا کوئی دروازہ ‘ اس کے لیے کھولنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ یوں محسوس کرتا ہے کہ اس دعوت اسلامی کے نتیجے میں ‘ اسے ایک بلند چڑھائی چڑھنے کے لیے کہا جا رہا ہے ‘ جس کا تصور ہی اس کو پسینہ پسینہ کردینے کے لیے کافی ہے۔ وہ اس کے لیے سوچتا ضرور ہے ‘ لیکن اس کے دل و دماغ کی تنگی اس کے احساس میں مزید شدت پیدا کردیتی ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ یقینا یہ دعوت قابل توجہ تو ہے ‘ لیکن میرے دل و دماغ میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں اور میری زندگی کے سفر میں چونکہ مفادات کے بندھن بہت مضبوط ہیں اور یہ دعوت ایثار و قربانی کا تقاضہ کرتی ہے ‘ میں اسے کسی طور قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ میں اپنے دماغ اور نفس کے تقاضوں کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہوں اور یہاں مجھے اللہ کے احکام کے سامنے سپر انداز ہونے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس لیے وہ جیسے جیسے اپنی سوچ میں آگے بڑھتا جاتا ہے ‘ اس کے دل کی گھٹن میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ وہ جب اس دعوت اور اپنی زندگی میں کوئی مطابقت نہیں دیکھتا تو محسوس کرتا ہے کہ یہ ایک ایسا بوجھ ہے ‘ جو مجھ سے کبھی اٹھایا نہ جائے گا۔ اس لیے وہ عافیت اسی میں سمجھتا ہے کہ وہ راہ فرار اختیار کرے۔ دوسرا وہ شخص ہے ‘ جو سرے سے دعوت اسلامی اور دین اسلام کے نام سے بھی چڑتا ہے۔ اسے اس کی ہر بات بری محسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنے اعتقادات باطلہ میں اس حد تک راسخ ہے کہ اسلامی دعوت کی ایک ایک بات پر وہ لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ چناچہ اس کے اس رویے کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنے کفر و شرک کے ڈھیروں تلے دب کے رہ جاتا ہے اور اسلام کی صحت مند ہوا کا کوئی جھونکا کبھی اس کے قریب بھی نہیں بھٹک سکتا۔ اس طرح یہ دونوں گروہ اپنے اپنے احوال کے مطابق محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اب سوال صرف یہ ہے کہ پروردگار نے یہاں اس محرومی کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی ہے۔ اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے کہ قدرت نے ان کی گمراہی کا سامان تو خود کیا ہے تو اس میں آخر ان کا قصور کیا ہے لیکن اگر گزشتہ مختلف آیات کی تفسیر کے ضمن میں ہماری وضاحتیں ذہن میں رہیں تو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ ان وضاحتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آدمی کا دل ایک آئینہ کی مانند ہے جب آدمی گناہ کرتا ہے تو اس آئینہ پر ایک داغ پڑجاتا ہے اگر یہ شخص توبہ کے آنسوئوں سے اس داغ کو دھو دیتا ہے تو آئینے کی اصل شکل و صورت اور حیثیت بحال ہوجاتی ہے لیکن اگر یہ گناہ پر گناہ جاری رکھتا ہے تو داغ پہ داغ بڑھتے چلے جاتے ہیں حتیٰ کہ ایک وقت آتا ہے کہ یہ آئینہ داغ داغ ہو کر اپنی آب و تاب کھو دیتا ہے اور بالکل بےنور ہوجاتا ہے ‘ یہی وہ وقت ہے جب قبولیت حق سے اس کی محرومی کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔ اس کو مزید سمجھنے کے لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم اور اس کے دل و دماغ کی صلاحیتوں میں یہ قانون رکھا ہے کہ جب تک ان صلاحیتوں سے صحیح طریقے سے کام لیا جاتا رہے تو یہ صلاحیتیں زندہ رہتی ہیں لیکن جب ان کو ان کے اصل کام سے روک دیا جائے یا ان سے وہ کام لینا شروع کردیا جائے جس کام کے لیے ان کے خالق سے ان کو نہیں بنایا تو یہ صلاحیتیں دم توڑ جاتی ہیں مثلاً ہاتھ کو اللہ نے پکڑنے اور چھونے کے لیے پیدا کیا اس میں قوت لامسہ رکھی ہے۔ آدمی اس سے زندگی کے بہت سے کام لے سکتا ہے لیکن اگر آپ اس ہاتھ کو کسی چیز سے باندھ دیں اور اس کو عضو معطل بنا کے رکھ دیں تو ایک عرصہ گزرنے کے بعد آپ دیکھیں گے کہ ہاتھ مفلوج ہوگیا ہے ‘ یہی حال باقی اعضاء جسم اور ان کی صلاحیتوں کا ہے اور یہی کیفیت آدمی کے دل و دماغ کی بھی ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت اور دنیا اور زندگی کے حقائق کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے پیدا کیا۔ لیکن جب اسے شرک ‘ کفر اور ناشکری میں استعمال کیا جانے لگے تو آہستہ آہستہ وہ اپنی اصل خصوصیات سے محروم ہوجاتا ہے اس محرومی کا اصل سبب تو وہ شخص ہے جس نے اس کو اصل کام نہیں کرنے دیا اور اس کو معطل رکھ کر مفلوج کردیا لیکن یہ قوانین چونکہ اللہ کے بنائے ہوئے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف منسوب فرما کر یہ فرماتے ہیں کہ ہم نے ایسا کیا ہے۔ چناچہ یہاں بھی یہی فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے عہد الست کی صورت میں ہر آدمی کی فطرت میں اپنی معرفت اور قبولیت حق کا مادہ رکھا ہے اور پھر اس عہد الست کی یاددہانی کے لیے ہم نے اس پوری کائنات کو اپنی نشانیوں سے بھر دیا اور ان نشانیوں کو سمجھنے کے لیے ہم نے انسانوں کو جوہر عقل سے نوازا لیکن ہم نے اسی پر اکتفا نہیں کیا ہم نے ان کی آسانی کے لیے اپنے رسول بھیجے ‘ اپنی کتابیں اتاریں۔ پھر ہر رسول سے معجزات کا ظہور کیا تاکہ لوگوں کو یہ بات سمجھنے میں آسانی ہو کہ یہ لوگ دنیا میں اللہ کے نمائندے ہیں۔ پھر اللہ نے اپنے آخری رسول کو بھیجا تو اس پر جو کتاب اتاری اس کو بجائے خود معجزہ بنادیا کہ دنیا اس کی مثال لانے سے عاجز ہوگئی اور خود پیغمبر کی اپنی ذات ‘ اپنی جاذب نظر شخصیت ‘ اپنے مکارم اخلاق ‘ اپنے پاکیزہ طور اطوار اور غیر معمولی صلاحیتوں کے باعث خود ایک عظیم معجزہ ٹھہری یہ سب کچھ اس لیے کیا تاکہ لوگ اس پیغمبر کی دعوت کو قبول کرنے میں دشواری محسوس نہ کریں۔ لیکن معدودے چند لوگوں کے سوا جب ایک بڑی تعداد نے اس دعوت پر کان دھرنے سے انکار کردیا یا اپنے دل و دماغ کے دروازے اس پر بند کرلیے تو اللہ کا وہ فطری قانون حرکت میں آیا جس کا پہلے ذکر ہوچکا جس کے نتیجے میں وہ قبولیت حق سے اس طرح محروم کیے گئے کہ کچھ لوگ تو سینہ کی انتہائی گھٹن اور تنگی کا شکار ہوئے اور کچھ پر کفر اور شرک کی گندگی اس طرح مسلط کردی گئی کہ وہ اسی کے نیچے دب کے رہ گئے۔ لیکن جن لوگوں نے اس دعوت کی قبولیت کے لیے کوشش کی ‘ اسے سمجھنا چاہا ‘ اگرچہ اسے قبول کرنے میں ہزار دشواریاں تھیں اور جسم و جان کے ساتھ ساتھ گھر اور مال کی قربانیاں بھی تھیں ‘ لیکن انھوں نے پھر بھی ہمت دکھائی تو اللہ نے ان کے لیے اس راستے کو اس طرح آسان فرمایا کہ ان کو دو طرح کی ہدایت سے نوازا۔ کسی کے لیے تو قبولیت آسان کردی گئی اور وہ اسلام کی آغوش میں آگیا اور کسی کے لیے دل اور ضمیر کی بصیرت کا راستہ کھولا اور اس کے شک و شبہ کے ایک ایک کانٹے کو اس طرح چن دیا کہ اس کے دل و دماغ ہر طرح کے شک و شبہات سے نجات پا گئے اور ان کے دل کو ایسی کشاد ملی کہ عالم غیب کی مشکل سے مشکل باتیں عالم الٰہیات کے مشکل مراحل اور ان دیکھی حقیقتوں کا سفر ان کے لیے انتہائی آسان ہوگیا اور شاید یہی وہ چیز ہے جس کی طرف ہمیں ایک حدیث سے بھی راہنمائی ملتی ہے۔ حاکم نے مستدرک میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں بروایت حضرت عبد اللہ ابن مسعودنقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے شرح صدر یعنی سینہ اسلام کے لیے کھول دینے کی تفسیر دریافت کی آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مومن کے دل میں ایک روشنی ڈال دیتے ہیں جس سے اس کا دل حق بات کو دیکھنے سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے کھل جاتا ہے (یعنی حق بات کو آسانی سے قبول کرنے لگتا ہے اور خلاف حق سے نفرت اور وحشت ہونے لگتی ہے) ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کیا اس کی کوئی علامت بھی ہے جس سے وہ شخص پہچانا جائے کہ اس کو شرح صدر حاصل ہوگیا ہے فرمایا علامت یہ ہے کہ اس شخص کی ساری رغبت آخرت اور اس کی نعمتوں کی طرف ہوجاتی ہے۔ دنیا کی بےجا خواہشات اور فانی لذتوں سے گھبراتا ہے اور موت کے آنے سے پہلے موت کی تیاری کرنے لگتا ہے۔ صحابہ کرام کو جب ہم دیکھتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایک صحابی کو شرح صدر سے نوازا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خود قرآن کریم کہتا ہے کہ جب ان پر قرآن کریم کے احکام پڑھے جاتے ہیں تو ان کے دل کانپ جاتے اور جھک جاتے ہیں اور یہ بات ذہن میں رہے کہ قرآن پاک کے بعض احکام اس دور میں اپنے اندر شدید آزمائش بھی رکھتے تھے۔ مثلاً جب مسلمانوں کو راہ حق میں ایک سے ایک بڑی آزمائش درپیش تھی اور قرآن انھیں صبر کی تعلیم دے رہا تھا۔ مسلمان اکثریت کی مخالفت کے حصار کے باعث آئے دن مالی دشواریوں میں انتہاء درجہ پھنستے چلے جا رہے تھے لیکن قرآن کریم ان کو انفاق کا حکم دے رہا تھا اور پھر مدنی زندگی میں جہاد و قتال کا حکم اس مختصر سے گروہ کے لیے پوری دنیا سے لڑ جانے کے مترادف تھا۔ لیکن اس کے باوجود ہر اترنے والے حکم پر ان کے دلوں میں بجائے تنگی آنے کے انشراح میں اضافہ ہوتا تھا وہ ایک ایک حکم پر اللہ کا شکر بجا لاتے تھے اس صورت حال کو جب آدمی دیکھتا ہے تو ان کے طبعی اطمینان اور ہر حکم کی تعمیل کو شرح صدر کے سوا اور کسی نام سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا اور یہ اللہ کی وہ توفیق اور کرم ہے جو سراسر اسی کی عنایت سے نصیب ہوتا ہے اور اس کی بعض مثالیں تو خود دور صحابہ میں بھی حیران کن تھیں۔ حدیث کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عام الوفود میں جب پورے جزیرہ عرب سے اسلام قبول کرنے یا دین کا علم حاصل کرنے کے لیے وفد پر وفد آرہے تھے اور ملک کے کونے کونے سے لوگ مدینے کی طرف امڈے چلے آرہے تھے انہی وفود میں سے ایک وفد یمن سے بھی آیا جو چند افراد پر مشتمل تھا۔ آنحضرت کا معمول یہ تھا کہ جب کوئی وفد آتا تو آپ چند روز اسے ٹھہرنے کا حکم دیتے تاکہ وہ دین کی ضروری باتیں سیکھے اور مدینے کے اسلامی معاشرے میں رہ کر اسلامی معاشرتی زندگی سے پوری طرح آگاہی حاصل کرے۔ چناچہ یمن کے اس وفد کو بھی چند دن مدینے میں ٹھہرایا گیا اور دوسرے وفود کی طرح جب یہ لوگ روانہ ہونے لگے تو آنحضرت ﷺ نے ان کو تحائف اور ہدایا دینے کا حکم دیا۔ چناچہ جب سب لوگ اپنا اپنا تحفہ لے چکے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ تم میں سے کوئی شخص رہ تو نہیں گیا جس کو یہ تحفے نہ ملے ہوں۔ انھوں نے عرض کی کہ حضور ایک نوجوان ہے جس کو ہم پیچھے سامان کی حفاظت کے لیے چھوڑ آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور اسے بھی بھیجو۔ چناچہ وہ نوجوان آیا جس کی ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں اٹھتی جوانی تھی بالکل نوخیز اور الھڑ عمر آنحضرت سے آ کر ملا۔ حضور نے اس کو تحائف دینے کا حکم دیا اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا حضور میں اس مقصد کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا۔ آپ نے نہایت شفقت سے پوچھا کہ اچھا جوان تم بتائو تم کیا مقصد لے کر آئے ہو ؟ اس نے کہا حضور میری خواہش یہ ہے کہ آپ میرے لیے تین باتوں کی دعا فرما دیں۔ ایک یہ کہ اللہ مجھ پر اپنا رحم فرمائے اور دوسری یہ بات کہ اللہ مجھے بخش دے اور تیسری یہ بات کہ اللہ تعالیٰ میرے دل کو مستغنی کر دے۔ چناچہ حضور نے ہاتھ اٹھائے اور بارگاہ خداوندی میں عرض کی۔ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْہُ یا اللہ اس پر رحم فرما وَاغْفِرْلَہٗ اور اس کی مغفرت فرما وَاجْعَلْ غِنَاہُ فِی قَلْبِہِ اور اس کے دل کو مستغنی کر دے۔ چناچہ یہ وفد واپس چلا گیا۔ چند مہینوں کے بعد حضور حج پر تشریف لے گئے وہاں اسی وفد کے چند افراد آپ سے ملے لیکن وہ نوجوان ان میں نہیں تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اس نوجوان کی ادائیں اب تک یاد تھیں۔ چناچہ آپ نے اس نوجوان کے بارے میں پوچھا کہ اس کا کیا حال ہے ؟ انھوں نے کہا حضور اس کا آپ کیا پوچھتے ہیں اس جیسا کوئی نوجوان ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔ وہ دنیا میں رہ کر آخرت کا مسافر ہے ہر وقت اس پر آخرت کا احساس مسلط رہتا ہے۔ وہ دنیا کی نعمتوں سے مستفید ہوتا ہے لیکن ان سے جی نہیں لگاتا وہ اللہ کے احکام کی تعمیل میں شب و روز اس طرح کوشاں رہتا ہے کہ وہ ہر دن کو آخری دن سمجھتا ہے اور ہر رات کو آخری رات۔ آپ نے ان کی باتیں سن کر فرمایا : اِنِّی لَاَرْجُوْ اَنْ یَمُوْتَ جَمِیْعًا (میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ اسے دل جمعی کی موت دے گا ) انھوں نے پوچھا حضور کیا ہر آدمی دل جمعی کی موت نہیں مرتا آپ نے فرمایا دل جمعی ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی مرنے والا دنیا سے جاتا ہوا بھی دنیا ہی کی محبت میں چیختا ہوا جاتا ہے اسے آخری وقت بھی فکر اگلی دنیا کی نہیں بلکہ پیچھے کی ہوتی ہے کہ میری اولاد کا کیا بنے گا میں جو کام شروع کرچکا تھا وہ تکمیل پذیر کیسے ہوگا۔ میں نے اتنی دولت جمع کی اب اس کا کیا بنے گا یعنی دنیا کی ایک ایک بات اس کی فکر مندی کا سبب ہوگی اسے وہ یکسوئی اور دلجمعی نصیب نہیں ہوگی جو منزل کی طرف بڑھنے والوں کی نصیب ہوتی ہے۔ اپنا اپنا جائزہ اس آیت کریمہ کی اس پوری تفسیر کو سامنے رکھیں تو ہمارے لیے اس میں غور و فکر کا بہت سا سامان ہے کیونکہ اس میں بعض علامتیں ایسی بیان کردی گئی ہیں جو آدمی کو تفکر اور تدبر کی دعوت دیتی ہیں اور جس کی روشنی میں آدمی کو اپنا جائزہ لینا آسان ہوجاتا ہے۔ ہم اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں پڑھ چکے ہیں کہ اللہ جب کسی کے سینے کو کھولتا ہے تو اس کی علامت یہ ہے کہ اس کے دل میں ایک نور پیدا کرتا ہے جس سے اس کا دل حق بات کو دیکھنے سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے کھل جاتا ہے اور جب کسی کے بارے اللہ محرومی کا فیصلہ کرتا ہے تو حق کی قبولیت اور نیکی کی طرف میلان اس کے لیے ایک مشکل مسئلہ بن جاتا ہے یعنی جب وہ اللہ کا ذکر سنتا ہے تو اس کو وحشت ہونے لگتی ہے اور جب کفر و شرک کی باتیں سنتا ہے تو ان میں دل لگتا ہے اس علامت کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو اپنا احتساب اور اپنے اصل مقام کی پہچان آدمی کے لیے کس قدر آسان ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے دل و دماغ کا جائزہ لے کر اچھی طرح اندازہ کرسکتا ہے کہ میرے دماغی رجحانات اور قلبی میلانات کا رخ کس طرف ہے کیا مجھے نیکی اچھی لگتی ہے یا برائی ؟ کیا میں نیک لوگوں کی صحبت پسند کرتا ہوں یا برے لوگوں کی ؟ کیا قرآن کی تلاوت میں میرا دل لگتا ہے یا افسانے پڑھنے اور ڈرامے دیکھنے میں ؟ کیا اسلامی قوتوں اور مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں میرے اندر فکر مندی پیدا ہوتی ہے یا محض اپنی ذات اور اپنی ضروریات کے حوالے سے میں فکر مند ہوتا ہوں۔ کیا مسلمانوں کی اجتماعی حالت میرے غور و فکر اور میری فکر مندی کا موضوع ہے یا صرف اپنی اور اپنے متعلقات کی فکر ہی میری سوچ کا اصل میدان ہے ؟ اس سے بڑی آسانی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ میں اللہ کی عنایات کا مورد ہوں یا اللہ کی التفات مجھ سے ہٹ چکی ہے۔ لیکن یہ سوچ یہ احتساب اور یہ جائزے کی خواہش یہ بھی تو اللہ کی دین ہے یہ اسی دل میں پیدا ہوتی ہے جس پر اللہ کا کرم ہوتا ہے اور جس میں کبھی ان باتوں کا گزر نہیں ہوتا اسے سمجھ لینا چاہیے کہ میں اللہ کی رحمت سے بہت دور ہوں۔ اسلام کی قبولیت کے راستے میں جو چیز سب سے بڑی رکاوٹ تھی اور جو مشرکین مکہ کے اسلام نہ قبول کرنے کی اصل علت تھی اس کو منکشف کرنے اور مشرکین مکہ کی حالت نفسی کو پوری طرح کھول دینے کے بعد پھر ہمارے تدبر کو دعوت دی گئی ہے کہ غور کرو اسلام کی دعوت کو قبول کرنا کس قدر آسان اور سہل ہے البتہ یہ ضروری ہے کہ اس راستے کی مشکلات جو مشرکین نے خود پیدا کی ہیں اور جس کے نتیجے میں اللہ کا قانون حرکت میں آتا ہے اس کو وہ سمجھیں اور اس سے تائب ہو کر اسلام کی طرف بڑھیں اور پھر وہ دیکھیں گے کہ اس کو سمجھنے اور اس کو قبول کرنے میں کوئی دشواری نہیں۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں اسی بات کو بیان کیا جا رہا ہے۔
Top