Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 125
فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ١ۚ وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ١ؕ كَذٰلِكَ یَجْعَلُ اللّٰهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ
فَمَنْ : پس جس يُّرِدِ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ يَّهدِيَهٗ : کہ اسے ہدایت دے يَشْرَحْ : کھول دیتا ہے صَدْرَهٗ : اس کا سینہ لِلْاِسْلَامِ : اسلام کے لیے وَمَنْ : اور جس يُّرِدْ : چاہتا ہے اَنْ : کہ يُّضِلَّهٗ : اسے گمرہا کرے يَجْعَلْ : کردیتا ہے صَدْرَهٗ : اس کا سینہ ضَيِّقًا : تنگ حَرَجًا : بھینچا ہوا كَاَنَّمَا : گویا کہ يَصَّعَّدُ : زور سے چڑھتا ہے فِي السَّمَآءِ : آسمانوں میں۔ آسمان پر كَذٰلِكَ : اسی طرح يَجْعَلُ : کردیتا ہے (ڈالے گا) اللّٰهُ : اللہ الرِّجْسَ : ناپاکی (عذاب) عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
اللہ جس کسی کو ہدایت دینا چاہتا ہے ‘ اس کا سینہ اسلام کیلئے کھول دیتا ہے اور جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے ‘ اس کے سینہ کو بالکل تنگ کردیتا ہے ‘ گویا اسے آسمان پر چڑھنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح اللہ ناپاکی مسلط کردیتا ہے ان لوگوں پر ‘ جو ایمان نہیں لاتے
تمہید متذکرہ بالا پوری صورتحال کو سامنے رکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مشرکین مکہ اور دیگر مشرکین نے اسلام قبول نہ کرنے کے بظاہر مختلف بہانے تراش رکھے تھے اور وہ اپنے انکار کے اصل سبب کو چھپانے کے لیے نئے سے نئے عذر اختراع کرتے رہتے تھے اور نئے نئے مطالبات رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کر کے لوگوں کو مطمئن رکھنے کی کوشش بھی کرتے اور اپنے انکار کے اصل سبب پر پردہ ڈالنے کی بھی سعی ناتمام کرتے۔ لیکن قرآن کریم نے ان کی اس حرکت کا پردہ بار بار چاک کیا اور گزشتہ آیت میں ‘ جیسا کہ اس کی تفصیل عرض کی گئی ‘ بتایا گیا کہ ان کے انکار کا اصل سبب ان کا استکبار ہے ‘ جس کی سزا ان کو دنیا میں بھی ملی اور آخرت میں وہ مزید اس کی سزا پائیں گے۔ لیکن مزید تدبر کی نگاہ سے دیکھا جائے تو قرآن کریم قدم قدم ہماری فکر کو غذا دیتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے اور توجہ دلا رہا ہے کہ استکبار اور تکبر کا پیدا ہونا اس کی بھی یقینا کوئی علت ہے۔ یہ بلا سبب پیدا نہیں ہوتی اور اگر یہ پیدا ہو بھی جائے تو آدمی اس میں اس حد تک اندھا نہیں ہوجاتا کہ وہ گردوپیش پھیلی ہوئی کھلی کھلی علامتوں کو دیکھنے کے باوجود ‘ اس سے کوئی سبق نہ لے سکے۔ اس کے سامنے دعوت اپنی حقانیت اور صداقت کی تابانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو ‘ لیکن وہ اس پر کوئی اثر نہ پیدا کرسکے۔ پھر اس دعوت کو پیش کرنے والا ‘ اپنی ذات میں بجائے خود ایک معجزانہ شخصیت رکھتا ہو ‘ لیکن یہ لوگ اس سے بھی متاثرہونے سے انکار کردیں۔ پھر دعوت پیش کرنے کا انداز اور دعوتی خطاب کے جاندار ‘ موثر اور خوبصورت اسالیب ‘ جو بجائے خود اپنے اندر نہایت جاذبیت اور اپیل رکھتے ہوں بھی اپنی تمام اثر آفرینی کے باوجود کام دکھانے سے عاجز نظر آئیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ استکبار اگرچہ انکار کی بظاہر علت ہے ‘ لیکن حقیقی علت نہیں ہے۔ حقیقی علت اس کے سوا کچھ اور ہے۔ لیکن اس کو شروع میں اس لیے ذکر نہیں کیا گیا کہ ظاہری علت کو نظر انداز کر کے کئی پردوں میں چھپی ہوئی علت کو بیان کرنا ‘ یہ اپنے سننے والوں اور اپنے مخاطب لوگوں کو امتحان میں ڈالنے سے کم نہیں اور کسی بھی صداقت کی دعوت چونکہ اپنے اندر ایک سادگی ‘ تسہیل اور وضاحت و صراحت رکھتی ہے ‘ جو دل و دماغ کو بدلنے کے لیے انتہائی ضروری ہے ‘ اس کے فطری اسلوب کے یہ بات خلاف ہے کہ آسانی سے سمجھ آنے والی علتوں کو نظر انداز کر کے ایک گہری اور دقیق علت کا ذکر کیا جائے۔ چناچہ پہلے اس علت کو بیان کیا گیا ‘ جو سمجھ میں آسکتی تھی اور جو یقینا ایک علت کے طور پر کارفرما بھی تھی اور اب اگلی آیت کریمہ میں اس حقیقی علت کو بیان کیا جا رہا ہے ‘ جس کی حیثیت علت العلل سے کم نہیں۔ لیکن یہ علت ابتداء میں پیدا نہیں ہوجاتی۔ اس کا شکار ہونے والا شخص ‘ رفتہ رفتہ اپنے کفر و انکار کی وجہ سے اس کی طرف بڑھتا ہے۔ کفر کے اس سفر میں بتدریج اس کے کفر کی علتیں سامنے آتی ہیں اور اس کی اصلاح کے لیے ایک داعی ان کی طرف توجہ بھی دلاتا ہے تاکہ خرابی کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے ابھی سے اس کا علاج کرلیا جائے۔ لیکن جب مریض بدپرہیزی سے باز نہیں آتا اور علاج کو قبول کرنے کی بجائے ‘ علاج اور معالج سے دشمنی پر اتر آتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ اس حقیقی علت کا شکار ہوجاتا ہے ‘ جو یہاں کارفرما فطری قوانین میں سے ایک اہم قانون کی حیثیت رکھتی ہے۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں اس کی وضاحت کے لیے ارشاد فرمایا گیا : فَمَنْ یُّرِدِ اللہ ُ اَنْ یَّھْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ ج وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ ط کَذٰلِکَ یَجْعَلُ اللہ ُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُونَ ۔ (الانعام : 125) ( اللہ جس کسی کو ہدایت دینا چاہتا ہے ‘ اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے ‘ اس کے سینہ کو بالکل تنگ کردیتا ہے ‘ گویا اسے آسمان پر چڑھنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح اللہ ناپاکی مسلط کردیتا ہے ان لوگوں پر ‘ جو ایمان نہیں لاتے ) اس آیت کریمہ کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک جملہ گہرے تدبر کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس لیے میں سب سے پہلے اس کے بعض الفاظ کے معانی کا ذکر کرتا ہوں۔ اس کے پہلے جملے میں ہدایت کا ذکر آیا ہے۔ میں گزشتہ کسی درس میں ہدایت کے مختلف معانی بیان کرچکا ہوں ‘ اب انھیں دہرانا نہیں چاہتا ‘ البتہ یاد دہانی کے لیے صرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ ہدایت کا ایک معنی ہے راستہ دکھانا ‘ رہنمائی کرنا ‘ بات کو آسان کردینا ‘ قبولیت کے لیے آمادگی پیدا کرنا اور دوسرا اس کا معنی ہے ‘ قلبی نور و بصیرت۔ یعنی طبیعت میں اس طرح کی کیفیت پیدا کردینا جس سے بات قبول کرنے میں کوئی دقت باقی نہ رہے۔ اس کے بعد ذکر آیا ہے شرح صدر کا۔ شرح صدر اصل میں اسی ہدایت کا ثمر اور اس کا نتیجہ ہے۔ البتہ ہدایت کے دونوں معنوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا چاہیے کہ شرح صدر کی کیفیت دونوں معنوں میں الگ الگ ہوگی ‘ جس کا آگے وضاحت میں ذکر آئے گا۔ ” حَرَجَ “ کا معنی ہوتا ہے ” جھاڑیوں سے بھری ہوئی تنگ جگہ “۔ یعنی ایک جگہ یا ایک راستہ جو پہلے ہی تنگ ہے ‘ اس کو جھاڑیاں اگ آنے کے باعث مزید تنگ کردیا گیا ہے۔ یہاں یہ لفظ ” ضَیِّقًا “ کی تاکید کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ یَصَّعَّدُ اس کا مصدر تصعد ہے۔ اس کا معنی ” بہ تکلف اور بہ مشقت کسی بلندی پر چڑھنا ہے “۔ یعنی آدمی کسی ایسی بلندی پر چڑھے جس میں اس کی سانس پھول جائے ‘ پھیپھڑے جواب دینے لگیں اور پسینہ پسینہ ہوجائے۔ ” السَمَآئِ “ یہ آسمان اور بادل پر بھی بولا جاتا ہے اور فضا پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، یہاں یہ فضا ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس آیت کریمہ میں ‘ ان کے انکار کی اصل علت کو بیان کیا گیا ہے۔ لیکن انکار کی کیفیت پیش نظر رہنی چاہیے۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ تمام مشرکین عرب ‘ شاید ایک طرح کی کیفیت میں مبتلا تھے۔ یعنی تمام کا حال یہ تھا کہ وہ کسی طرح بھی اسلام کا نام سننے کے روادار نہیں تھے۔ وہ اسلامی دعوت اور آنحضرت ﷺ کی ذات کو کسی طرح بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ یقینا عام مشرکین کا یہی طرز عمل تھا۔ لیکن اگر یہ بات کہی جائے تو یہ انسانی فطرت کی شاید صحیح ترجمانی ہو کہ انکار کرنے والوں میں انکار کی کیفیت یکساں نہیں ہوتی۔ اکثریت تو ایسے ہی لوگوں کی ہوتی ہے ‘ جن کا ابھی ذکر ہوا۔ لیکن ایک قابل ذکر تعداد ‘ ایسے لوگوں کی بھی ہوتی ہے ‘ جو اسلامی دعوت کو سنتے اور بعد میں اس پر غور بھی کرتے ہیں ‘ لیکن اس دعوت کی بعض باتیں ان کے فکری سانچے میں اترنے میں نہیں آتیں۔ انھوں نے اپنے ذہن اور دماغ کو جس طرح کے سانچے میں ڈھال لیا ہوتا ہے۔ اس میں صرف وہی بات داخل ہوسکتی ہے جو اس سانچے سے میل کھاتی ہو۔ رہی اس سے مختلف بات تو وہ کبھی اس میں داخل نہیں ہونے پاتی۔ اس لیے کہ وہ اپنے سانچے کو کبھی ٹوٹنے نہیں دیتے اور اپنی سوچ میں کسی تبدیلی کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے ‘ بلکہ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے دل و دماغ کے کواڑ اس طرح قوت سے بند کریں کہ بہار کا موسم آ کر گزر جائے ‘ لیکن اس کی کوئی خوشبو اور اس کی خوشگوار ہوا کا کوئی جھونکا کبھی ان کے کو اڑوں سے گزر نہ سکے۔ کفار کا فکری جمود اس صورت حال پر اگر آپ غور کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ مرض دو طرح کا ہے۔ ایک جامد انکار کا اور دوسرا فکری جمود کا۔ اگرچہ انجام دونوں کا ایک ہے کہ دونوں ہی اسلام کی دولت کو قبول کرنے سے محروم رہتے ہیں ‘ لیکن یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ اس نے اپنی بلاغت لسانی سے دونوں باتوں کی طرف اشارہ کردیا ہے اور اس کی طرف راہنمائی آیت کے دوسرے حصے سے ہو رہی ہے۔ اس میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے ‘ اس کے سینے کو تنگ کردیتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کفر اور شرک کی اس گندگی کو ‘ جو ایمان نہیں لاتے ‘ ان پر مسلط کردیتا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ محرومی کی دو سزائیں ہیں ‘ جو دو الگ الگ مجرموں کے لیے تجویز کی گئی ہیں ‘ جن میں سے پہلا مجرم وہ ہے ‘ جو اسلامی دعوت پر کان تو دھرتا ہے ‘ لیکن اس کا فکری جمود اس کے دل و دماغ تک اسے پہنچنے نہیں دیتا چونکہ وہ اپنے دماغ کا کوئی دریچہ اور اپنے دل کا کوئی دروازہ ‘ اس کے لیے کھولنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ یوں محسوس کرتا ہے کہ اس دعوت اسلامی کے نتیجے میں ‘ اسے ایک بلند چڑھائی چڑھنے کے لیے کہا جا رہا ہے ‘ جس کا تصور ہی اس کو پسینہ پسینہ کردینے کے لیے کافی ہے۔ وہ اس کے لیے سوچتا ضرور ہے ‘ لیکن اس کے دل و دماغ کی تنگی اس کے احساس میں مزید شدت پیدا کردیتی ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ یقینا یہ دعوت قابل توجہ تو ہے ‘ لیکن میرے دل و دماغ میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں اور میری زندگی کے سفر میں چونکہ مفادات کے بندھن بہت مضبوط ہیں اور یہ دعوت ایثار و قربانی کا تقاضہ کرتی ہے ‘ میں اسے کسی طور قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ میں اپنے دماغ اور نفس کے تقاضوں کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہوں اور یہاں مجھے اللہ کے احکام کے سامنے سپر انداز ہونے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس لیے وہ جیسے جیسے اپنی سوچ میں آگے بڑھتا جاتا ہے ‘ اس کے دل کی گھٹن میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ وہ جب اس دعوت اور اپنی زندگی میں کوئی مطابقت نہیں دیکھتا تو محسوس کرتا ہے کہ یہ ایک ایسا بوجھ ہے ‘ جو مجھ سے کبھی اٹھایا نہ جائے گا۔ اس لیے وہ عافیت اسی میں سمجھتا ہے کہ وہ راہ فرار اختیار کرے۔ دوسرا وہ شخص ہے ‘ جو سرے سے دعوت اسلامی اور دین اسلام کے نام سے بھی چڑتا ہے۔ اسے اس کی ہر بات بری محسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنے اعتقادات باطلہ میں اس حد تک راسخ ہے کہ اسلامی دعوت کی ایک ایک بات پر وہ لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ چناچہ اس کے اس رویے کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنے کفر و شرک کے ڈھیروں تلے دب کے رہ جاتا ہے اور اسلام کی صحت مند ہوا کا کوئی جھونکا کبھی اس کے قریب بھی نہیں بھٹک سکتا۔ اس طرح یہ دونوں گروہ اپنے اپنے احوال کے مطابق محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اب سوال صرف یہ ہے کہ پروردگار نے یہاں اس محرومی کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی ہے۔ اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے کہ قدرت نے ان کی گمراہی کا سامان تو خود کیا ہے تو اس میں آخر ان کا قصور کیا ہے لیکن اگر گزشتہ مختلف آیات کی تفسیر کے ضمن میں ہماری وضاحتیں ذہن میں رہیں تو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ ان وضاحتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آدمی کا دل ایک آئینہ کی مانند ہے جب آدمی گناہ کرتا ہے تو اس آئینہ پر ایک داغ پڑجاتا ہے اگر یہ شخص توبہ کے آنسوئوں سے اس داغ کو دھو دیتا ہے تو آئینے کی اصل شکل و صورت اور حیثیت بحال ہوجاتی ہے لیکن اگر یہ گناہ پر گناہ جاری رکھتا ہے تو داغ پہ داغ بڑھتے چلے جاتے ہیں حتیٰ کہ ایک وقت آتا ہے کہ یہ آئینہ داغ داغ ہو کر اپنی آب و تاب کھو دیتا ہے اور بالکل بےنور ہوجاتا ہے ‘ یہی وہ وقت ہے جب قبولیت حق سے اس کی محرومی کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔ اس کو مزید سمجھنے کے لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم اور اس کے دل و دماغ کی صلاحیتوں میں یہ قانون رکھا ہے کہ جب تک ان صلاحیتوں سے صحیح طریقے سے کام لیا جاتا رہے تو یہ صلاحیتیں زندہ رہتی ہیں لیکن جب ان کو ان کے اصل کام سے روک دیا جائے یا ان سے وہ کام لینا شروع کردیا جائے جس کام کے لیے ان کے خالق سے ان کو نہیں بنایا تو یہ صلاحیتیں دم توڑ جاتی ہیں مثلاً ہاتھ کو اللہ نے پکڑنے اور چھونے کے لیے پیدا کیا اس میں قوت لامسہ رکھی ہے۔ آدمی اس سے زندگی کے بہت سے کام لے سکتا ہے لیکن اگر آپ اس ہاتھ کو کسی چیز سے باندھ دیں اور اس کو عضو معطل بنا کے رکھ دیں تو ایک عرصہ گزرنے کے بعد آپ دیکھیں گے کہ ہاتھ مفلوج ہوگیا ہے ‘ یہی حال باقی اعضاء جسم اور ان کی صلاحیتوں کا ہے اور یہی کیفیت آدمی کے دل و دماغ کی بھی ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت اور دنیا اور زندگی کے حقائق کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے پیدا کیا۔ لیکن جب اسے شرک ‘ کفر اور ناشکری میں استعمال کیا جانے لگے تو آہستہ آہستہ وہ اپنی اصل خصوصیات سے محروم ہوجاتا ہے اس محرومی کا اصل سبب تو وہ شخص ہے جس نے اس کو اصل کام نہیں کرنے دیا اور اس کو معطل رکھ کر مفلوج کردیا لیکن یہ قوانین چونکہ اللہ کے بنائے ہوئے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف منسوب فرما کر یہ فرماتے ہیں کہ ہم نے ایسا کیا ہے۔ چناچہ یہاں بھی یہی فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے عہد الست کی صورت میں ہر آدمی کی فطرت میں اپنی معرفت اور قبولیت حق کا مادہ رکھا ہے اور پھر اس عہد الست کی یاددہانی کے لیے ہم نے اس پوری کائنات کو اپنی نشانیوں سے بھر دیا اور ان نشانیوں کو سمجھنے کے لیے ہم نے انسانوں کو جوہر عقل سے نوازا لیکن ہم نے اسی پر اکتفا نہیں کیا ہم نے ان کی آسانی کے لیے اپنے رسول بھیجے ‘ اپنی کتابیں اتاریں۔ پھر ہر رسول سے معجزات کا ظہور کیا تاکہ لوگوں کو یہ بات سمجھنے میں آسانی ہو کہ یہ لوگ دنیا میں اللہ کے نمائندے ہیں۔ پھر اللہ نے اپنے آخری رسول کو بھیجا تو اس پر جو کتاب اتاری اس کو بجائے خود معجزہ بنادیا کہ دنیا اس کی مثال لانے سے عاجز ہوگئی اور خود پیغمبر کی اپنی ذات ‘ اپنی جاذب نظر شخصیت ‘ اپنے مکارم اخلاق ‘ اپنے پاکیزہ طور اطوار اور غیر معمولی صلاحیتوں کے باعث خود ایک عظیم معجزہ ٹھہری یہ سب کچھ اس لیے کیا تاکہ لوگ اس پیغمبر کی دعوت کو قبول کرنے میں دشواری محسوس نہ کریں۔ لیکن معدودے چند لوگوں کے سوا جب ایک بڑی تعداد نے اس دعوت پر کان دھرنے سے انکار کردیا یا اپنے دل و دماغ کے دروازے اس پر بند کرلیے تو اللہ کا وہ فطری قانون حرکت میں آیا جس کا پہلے ذکر ہوچکا جس کے نتیجے میں وہ قبولیت حق سے اس طرح محروم کیے گئے کہ کچھ لوگ تو سینہ کی انتہائی گھٹن اور تنگی کا شکار ہوئے اور کچھ پر کفر اور شرک کی گندگی اس طرح مسلط کردی گئی کہ وہ اسی کے نیچے دب کے رہ گئے۔ لیکن جن لوگوں نے اس دعوت کی قبولیت کے لیے کوشش کی ‘ اسے سمجھنا چاہا ‘ اگرچہ اسے قبول کرنے میں ہزار دشواریاں تھیں اور جسم و جان کے ساتھ ساتھ گھر اور مال کی قربانیاں بھی تھیں ‘ لیکن انھوں نے پھر بھی ہمت دکھائی تو اللہ نے ان کے لیے اس راستے کو اس طرح آسان فرمایا کہ ان کو دو طرح کی ہدایت سے نوازا۔ کسی کے لیے تو قبولیت آسان کردی گئی اور وہ اسلام کی آغوش میں آگیا اور کسی کے لیے دل اور ضمیر کی بصیرت کا راستہ کھولا اور اس کے شک و شبہ کے ایک ایک کانٹے کو اس طرح چن دیا کہ اس کے دل و دماغ ہر طرح کے شک و شبہات سے نجات پا گئے اور ان کے دل کو ایسی کشاد ملی کہ عالم غیب کی مشکل سے مشکل باتیں عالم الٰہیات کے مشکل مراحل اور ان دیکھی حقیقتوں کا سفر ان کے لیے انتہائی آسان ہوگیا اور شاید یہی وہ چیز ہے جس کی طرف ہمیں ایک حدیث سے بھی راہنمائی ملتی ہے۔ حاکم نے مستدرک میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں بروایت حضرت عبد اللہ ابن مسعودنقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے شرح صدر یعنی سینہ اسلام کے لیے کھول دینے کی تفسیر دریافت کی آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مومن کے دل میں ایک روشنی ڈال دیتے ہیں جس سے اس کا دل حق بات کو دیکھنے سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے کھل جاتا ہے (یعنی حق بات کو آسانی سے قبول کرنے لگتا ہے اور خلاف حق سے نفرت اور وحشت ہونے لگتی ہے) ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کیا اس کی کوئی علامت بھی ہے جس سے وہ شخص پہچانا جائے کہ اس کو شرح صدر حاصل ہوگیا ہے فرمایا علامت یہ ہے کہ اس شخص کی ساری رغبت آخرت اور اس کی نعمتوں کی طرف ہوجاتی ہے۔ دنیا کی بےجا خواہشات اور فانی لذتوں سے گھبراتا ہے اور موت کے آنے سے پہلے موت کی تیاری کرنے لگتا ہے۔ صحابہ کرام کو جب ہم دیکھتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایک صحابی کو شرح صدر سے نوازا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خود قرآن کریم کہتا ہے کہ جب ان پر قرآن کریم کے احکام پڑھے جاتے ہیں تو ان کے دل کانپ جاتے اور جھک جاتے ہیں اور یہ بات ذہن میں رہے کہ قرآن پاک کے بعض احکام اس دور میں اپنے اندر شدید آزمائش بھی رکھتے تھے۔ مثلاً جب مسلمانوں کو راہ حق میں ایک سے ایک بڑی آزمائش درپیش تھی اور قرآن انھیں صبر کی تعلیم دے رہا تھا۔ مسلمان اکثریت کی مخالفت کے حصار کے باعث آئے دن مالی دشواریوں میں انتہاء درجہ پھنستے چلے جا رہے تھے لیکن قرآن کریم ان کو انفاق کا حکم دے رہا تھا اور پھر مدنی زندگی میں جہاد و قتال کا حکم اس مختصر سے گروہ کے لیے پوری دنیا سے لڑ جانے کے مترادف تھا۔ لیکن اس کے باوجود ہر اترنے والے حکم پر ان کے دلوں میں بجائے تنگی آنے کے انشراح میں اضافہ ہوتا تھا وہ ایک ایک حکم پر اللہ کا شکر بجا لاتے تھے اس صورت حال کو جب آدمی دیکھتا ہے تو ان کے طبعی اطمینان اور ہر حکم کی تعمیل کو شرح صدر کے سوا اور کسی نام سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا اور یہ اللہ کی وہ توفیق اور کرم ہے جو سراسر اسی کی عنایت سے نصیب ہوتا ہے اور اس کی بعض مثالیں تو خود دور صحابہ میں بھی حیران کن تھیں۔ حدیث کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عام الوفود میں جب پورے جزیرہ عرب سے اسلام قبول کرنے یا دین کا علم حاصل کرنے کے لیے وفد پر وفد آرہے تھے اور ملک کے کونے کونے سے لوگ مدینے کی طرف امڈے چلے آرہے تھے انہی وفود میں سے ایک وفد یمن سے بھی آیا جو چند افراد پر مشتمل تھا۔ آنحضرت کا معمول یہ تھا کہ جب کوئی وفد آتا تو آپ چند روز اسے ٹھہرنے کا حکم دیتے تاکہ وہ دین کی ضروری باتیں سیکھے اور مدینے کے اسلامی معاشرے میں رہ کر اسلامی معاشرتی زندگی سے پوری طرح آگاہی حاصل کرے۔ چناچہ یمن کے اس وفد کو بھی چند دن مدینے میں ٹھہرایا گیا اور دوسرے وفود کی طرح جب یہ لوگ روانہ ہونے لگے تو آنحضرت ﷺ نے ان کو تحائف اور ہدایا دینے کا حکم دیا۔ چناچہ جب سب لوگ اپنا اپنا تحفہ لے چکے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ تم میں سے کوئی شخص رہ تو نہیں گیا جس کو یہ تحفے نہ ملے ہوں۔ انھوں نے عرض کی کہ حضور ایک نوجوان ہے جس کو ہم پیچھے سامان کی حفاظت کے لیے چھوڑ آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور اسے بھی بھیجو۔ چناچہ وہ نوجوان آیا جس کی ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں اٹھتی جوانی تھی بالکل نوخیز اور الھڑ عمر آنحضرت سے آ کر ملا۔ حضور نے اس کو تحائف دینے کا حکم دیا اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا حضور میں اس مقصد کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا۔ آپ نے نہایت شفقت سے پوچھا کہ اچھا جوان تم بتائو تم کیا مقصد لے کر آئے ہو ؟ اس نے کہا حضور میری خواہش یہ ہے کہ آپ میرے لیے تین باتوں کی دعا فرما دیں۔ ایک یہ کہ اللہ مجھ پر اپنا رحم فرمائے اور دوسری یہ بات کہ اللہ مجھے بخش دے اور تیسری یہ بات کہ اللہ تعالیٰ میرے دل کو مستغنی کر دے۔ چناچہ حضور نے ہاتھ اٹھائے اور بارگاہ خداوندی میں عرض کی۔ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْہُ یا اللہ اس پر رحم فرما وَاغْفِرْلَہٗ اور اس کی مغفرت فرما وَاجْعَلْ غِنَاہُ فِی قَلْبِہِ اور اس کے دل کو مستغنی کر دے۔ چناچہ یہ وفد واپس چلا گیا۔ چند مہینوں کے بعد حضور حج پر تشریف لے گئے وہاں اسی وفد کے چند افراد آپ سے ملے لیکن وہ نوجوان ان میں نہیں تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اس نوجوان کی ادائیں اب تک یاد تھیں۔ چناچہ آپ نے اس نوجوان کے بارے میں پوچھا کہ اس کا کیا حال ہے ؟ انھوں نے کہا حضور اس کا آپ کیا پوچھتے ہیں اس جیسا کوئی نوجوان ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔ وہ دنیا میں رہ کر آخرت کا مسافر ہے ہر وقت اس پر آخرت کا احساس مسلط رہتا ہے۔ وہ دنیا کی نعمتوں سے مستفید ہوتا ہے لیکن ان سے جی نہیں لگاتا وہ اللہ کے احکام کی تعمیل میں شب و روز اس طرح کوشاں رہتا ہے کہ وہ ہر دن کو آخری دن سمجھتا ہے اور ہر رات کو آخری رات۔ آپ نے ان کی باتیں سن کر فرمایا : اِنِّی لَاَرْجُوْ اَنْ یَمُوْتَ جَمِیْعًا (میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ اسے دل جمعی کی موت دے گا ) انھوں نے پوچھا حضور کیا ہر آدمی دل جمعی کی موت نہیں مرتا آپ نے فرمایا دل جمعی ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی مرنے والا دنیا سے جاتا ہوا بھی دنیا ہی کی محبت میں چیختا ہوا جاتا ہے اسے آخری وقت بھی فکر اگلی دنیا کی نہیں بلکہ پیچھے کی ہوتی ہے کہ میری اولاد کا کیا بنے گا میں جو کام شروع کرچکا تھا وہ تکمیل پذیر کیسے ہوگا۔ میں نے اتنی دولت جمع کی اب اس کا کیا بنے گا یعنی دنیا کی ایک ایک بات اس کی فکر مندی کا سبب ہوگی اسے وہ یکسوئی اور دلجمعی نصیب نہیں ہوگی جو منزل کی طرف بڑھنے والوں کی نصیب ہوتی ہے۔ اپنا اپنا جائزہ اس آیت کریمہ کی اس پوری تفسیر کو سامنے رکھیں تو ہمارے لیے اس میں غور و فکر کا بہت سا سامان ہے کیونکہ اس میں بعض علامتیں ایسی بیان کردی گئی ہیں جو آدمی کو تفکر اور تدبر کی دعوت دیتی ہیں اور جس کی روشنی میں آدمی کو اپنا جائزہ لینا آسان ہوجاتا ہے۔ ہم اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں پڑھ چکے ہیں کہ اللہ جب کسی کے سینے کو کھولتا ہے تو اس کی علامت یہ ہے کہ اس کے دل میں ایک نور پیدا کرتا ہے جس سے اس کا دل حق بات کو دیکھنے سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے کھل جاتا ہے اور جب کسی کے بارے اللہ محرومی کا فیصلہ کرتا ہے تو حق کی قبولیت اور نیکی کی طرف میلان اس کے لیے ایک مشکل مسئلہ بن جاتا ہے یعنی جب وہ اللہ کا ذکر سنتا ہے تو اس کو وحشت ہونے لگتی ہے اور جب کفر و شرک کی باتیں سنتا ہے تو ان میں دل لگتا ہے اس علامت کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو اپنا احتساب اور اپنے اصل مقام کی پہچان آدمی کے لیے کس قدر آسان ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے دل و دماغ کا جائزہ لے کر اچھی طرح اندازہ کرسکتا ہے کہ میرے دماغی رجحانات اور قلبی میلانات کا رخ کس طرف ہے کیا مجھے نیکی اچھی لگتی ہے یا برائی ؟ کیا میں نیک لوگوں کی صحبت پسند کرتا ہوں یا برے لوگوں کی ؟ کیا قرآن کی تلاوت میں میرا دل لگتا ہے یا افسانے پڑھنے اور ڈرامے دیکھنے میں ؟ کیا اسلامی قوتوں اور مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں میرے اندر فکر مندی پیدا ہوتی ہے یا محض اپنی ذات اور اپنی ضروریات کے حوالے سے میں فکر مند ہوتا ہوں۔ کیا مسلمانوں کی اجتماعی حالت میرے غور و فکر اور میری فکر مندی کا موضوع ہے یا صرف اپنی اور اپنے متعلقات کی فکر ہی میری سوچ کا اصل میدان ہے ؟ اس سے بڑی آسانی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ میں اللہ کی عنایات کا مورد ہوں یا اللہ کی التفات مجھ سے ہٹ چکی ہے۔ لیکن یہ سوچ یہ احتساب اور یہ جائزے کی خواہش یہ بھی تو اللہ کی دین ہے یہ اسی دل میں پیدا ہوتی ہے جس پر اللہ کا کرم ہوتا ہے اور جس میں کبھی ان باتوں کا گزر نہیں ہوتا اسے سمجھ لینا چاہیے کہ میں اللہ کی رحمت سے بہت دور ہوں۔ اسلام کی قبولیت کے راستے میں جو چیز سب سے بڑی رکاوٹ تھی اور جو مشرکین مکہ کے اسلام نہ قبول کرنے کی اصل علت تھی اس کو منکشف کرنے اور مشرکین مکہ کی حالت نفسی کو پوری طرح کھول دینے کے بعد پھر ہمارے تدبر کو دعوت دی گئی ہے کہ غور کرو اسلام کی دعوت کو قبول کرنا کس قدر آسان اور سہل ہے البتہ یہ ضروری ہے کہ اس راستے کی مشکلات جو مشرکین نے خود پیدا کی ہیں اور جس کے نتیجے میں اللہ کا قانون حرکت میں آتا ہے اس کو وہ سمجھیں اور اس سے تائب ہو کر اسلام کی طرف بڑھیں اور پھر وہ دیکھیں گے کہ اس کو سمجھنے اور اس کو قبول کرنے میں کوئی دشواری نہیں۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں اسی بات کو بیان کیا جا رہا ہے۔
Top