Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 125
فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ١ۚ وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ١ؕ كَذٰلِكَ یَجْعَلُ اللّٰهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ
فَمَنْ : پس جس يُّرِدِ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ يَّهدِيَهٗ : کہ اسے ہدایت دے يَشْرَحْ : کھول دیتا ہے صَدْرَهٗ : اس کا سینہ لِلْاِسْلَامِ : اسلام کے لیے وَمَنْ : اور جس يُّرِدْ : چاہتا ہے اَنْ : کہ يُّضِلَّهٗ : اسے گمرہا کرے يَجْعَلْ : کردیتا ہے صَدْرَهٗ : اس کا سینہ ضَيِّقًا : تنگ حَرَجًا : بھینچا ہوا كَاَنَّمَا : گویا کہ يَصَّعَّدُ : زور سے چڑھتا ہے فِي السَّمَآءِ : آسمانوں میں۔ آسمان پر كَذٰلِكَ : اسی طرح يَجْعَلُ : کردیتا ہے (ڈالے گا) اللّٰهُ : اللہ الرِّجْسَ : ناپاکی (عذاب) عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
پس وہ شخص کہ اللہ تعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ اس کو راہ راست دکھائے ، کھول دیتا ہے اس کے سینے کو اسلام کے لیے اور وہ شخص کہ اللہ تعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ اُص کو گمراہ ، کر دیکر دیتا ہے اس کے سینے کو تنگ ، بہت زیادہ تنگ گویا کہ وہ شخص چڑھتا ہے آسمان پر اس طریقے سے اللہ تعالیٰ کردیتا ہے گندگی ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے
گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے دو شخصوں کی مثال بیان فرمائی ایک وہ شخص جس کے پاس ایمان اور ہدایات کی روشنی ہے اور وہ اس روشنی کے ذریعے لوگوں میں چلتا پھرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی تعریف کی ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کے پاس ایمان ، قرآن اور ہدایت کی روشنی نہیں ہے وہ اندھیروں میں بھٹک رہا ہے ، ایسے لوگوں کی اللہ نے قباحت بیان فرمائی۔ اللہ نے ہر بستی اور شہر میں اکابر مجرمین کی موجودگی کا ذکر کیا ۔ اور فرمایا کہ ان میں سے اکثر و بیشتر سرمایہ دار اور صاحبت اقتدار لوگ ہوتے ہیں جو حق کی مخالفت پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں اللہ نے اپنے پیغمبر اور اس کی تبعین کو تسلی بھی دی ہے کہ اگر آج کے بڑے بڑے مجرم نیکی کے راستے کو روکنا چاہتے ہیں۔ تو ایسا تو پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ اللہ نے بعض متکبرین کا ذکر بھی کیا جو کہتے ہیں کہ جس طرح نبیوں پر فرشتہ ، کتاب اور وحی آتی ہے اسی طرح ہم پر بھی آنی چاہئے۔ انہوں نے غرور میں آکر بہت بڑی بات کی اور اپنے آپ کو وحی الٰہی کا اہل سمجھا ۔ ایسے لوگ اللہ کے دربار میں پہنچ کر سخت ذلت اور عذاب شدید میں مبتلا ہوں گے۔ وجہ ظاہر ہے کہ وہ اس دنیاں میں مکاریاں اور حیلا سازیاں کرتے تھے ۔ حق تعالیٰ کی توحید اور نبی برحق کی رسالت کے خلاف منصوبے بناتے تھے لہٰذا دونوں طرح کی سزا کے مستحق ہوں گے۔ مشرکین کی طرف سے نشانیاں طلب کرنے کا ذکر گذشتہ کئی دروس میں ہوچکا ہے ، وہ زبان سے کہتے تھے ” لئِن جا ءتھم ایۃ لیومن بھا “ اگر کوئی نشانی ہماری مرضی کے مطابق آئے گی تو ایمان لے آئیں گے مگر۔ اللہ نے فرمایا کہ اے اہل ایمان ! ان سے یہ توقع نہ رکھنا کہ نشانی دیکھ کر ضرورہی ایمان لے آئیں گے ان کی نیت خراب ہے۔ ان کو ہدایت نصیب ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ ہدایت اس شخص کو عطا کرتا ہے جو اس کا طلبگار ہو فمن یرد اللہ ان لھد یہ پھر جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے یشرح صدرہ للاسلام اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔ شرح صدر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے۔ اگر کسی شخص کے دل میں اسلام ، دین اور ایمان کا فہم پیدا ہوجائے اور وہ اسلام کو قبول کرلے تو یہ اللہ کا بہت بڑا حسان ہے ، مگر اس کا انحصار بھی انسان کی طلب پر ہی ہے۔ فرمایا ” والذین جاھدو افینا لنھد ینھم سبلنا “ (ونکبوت) جو لوگ ہماری طرف آنا چاہتے ہیں ، ہم ان کے سامنے ہدایت کے راستے کھول دیتے ہیں اور جو لوگ اس جذبہ سے خالی ہوتے ہیں انہیں ہدایت نصیب نہیں ہوتی اور وہ محروم ہی رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی صلاحیت اور عقل کو بروئے کار نہیں لاتے جسکی وجہ سے ان کے لیے ہدایت کا راستہ واضح نہیں ہوتا۔ دوسری جگہ یہ بھی موجود ہے ” انیبو الی ربکم واسلموالہ “ (النوم) اپنے رب کی طرف رجوع کرو۔ جو آدمی اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم کی بطل بھی کریگا۔ یقینا انکے راستہ واضح کردیا جائے گا۔ اس کے برخلاف جو شخص مغرور ہے۔ محاسبے کی فکر نہیں رکھتا ، اہل ایمان کو کمزور اور حقیر جانتا ہے ، دنیا کے جاہ و اقتدار کو پسند کرتا ہے ، ایسے لوگ ہدایت کے مستحق نہیں ہوتے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ جس شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ کھول دے اس کی علامات کیا ہیں فرمایا الانابۃ الی وارلخولد والتجافی عن دار الغرور والا ستعداد للموت قبل ورودالموت یہ تین نشانیاں بیان فرمائیں کہ جس شخص کو شرح صدر حاصل ہوجائے وہ آخرت کی طرف رُخ کرتا ہے ، ہر وقت متفکر رہتا ہے کہ اسے بارگاہِ رب العزت میں پیش ہونا ہے اور دوسری نشانی کہ وہ دھوکے کے گھر یعنی اس دنیا سے حتی الامکان کنارہ کش رہتا ہے۔ دنیا میں زیادہ منہمک نہیں ہوتا۔ حضور علیہ اسلام نے زہد کی بھی ایسی ہی تعریف فرمائی ہے۔ لایکون مما فی یدیک اوثق مما فی ید اللہ یعنی زہد اس چیز کا نام ہے کہ تمہیں اس چیز پر اعتماد ن ہو جو تمہارے ہاتھ میں ہے اس چیز پر زیادہ اعتماد ہو۔ جو اللہ کے پاس یقینا وہی پائدار ہے اس دنیا میں ہمارے پاس جو وسائل ہیں وہ تو عارضی ہیں۔ ان پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ کل نعیم لا محالۃ زائل وانت عن مقیلک عنقریب راحل دنیا کی تمام نعمتیں زائل ہوجائیں گی اور تمہیں عنقریب یہاں سے کوچ کر جانا ہے۔ ارالغرور یعنی اس دنیا کو دارالا امتحان بھی کہا جاتا ہے۔ جو شخص اس عارضی قیامگاہ کو مستقل سمجھ لے اور دارالخلود یعنی ہمیشگی کے گھر کو فراموش کر دے تو وہ ناکام ہوجائیگا۔ جس کا سینہ اسلام کے لیے کھل جاتا ہے ، وہ آخرت کے گھر کی طرف رجوع رکھتا ہے اور حتی المقدور اس دھوکے والے گر سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔ حضور علیہ اسلام دعا میں فرمایا کرتے تھے الھم لاتجعل الدنیا اکبر ہمنا ولا مبلغ علمنا اے اللہ ! صرف دنیا کو ہماری منزل مقصود نہ بنا دے اور نہ ہی ہمارے علم کو اس دنیا تک محدود کر دے بلکہ ہما را رُخ آخرت کی طرف پھیر دے۔ کافر اور مشرک کا منتہائے مقصود صرف دنیا ہوتا ہے جب کہ مومن دنیا اور آخرت دونوں کا طلب گار ہوتا ہے چناچہ یہ دعا خود قرآن پاک نے سکھلائی ہے ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃ “ (البقرہ) اے اللہ ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی بہتری عطا فرما۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) بیان القرآن میں فرماتے ہیں کہ حسنہ سے مراد محض دینا کیی خوش حالی نہیں کیونکہ یہ تو کفار و مشرکین اور ملحدوں کو بھی میسر ہے ، بلکہ حسنہ سے ایسی حالت مراد ہے جو اللہ کے نزدیک بہتر ہو ۔ ظاہر ہے کہ بہتر حالت وہی ہے جس میں نجات حاصل ہوجائے ، چناچہ ایک مومن اسی کا طالب ہوتا ہے۔ غرضیکہ مومن کے پیش نظر دو مقاصد ہوتے ہیں فرمایا ھم المعاش وھم المعاد یعنی دنیا میں اچھی گزران اور آخرت میں نجات ۔ دنیا کی زندگی میں اچھی معیشت ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ ہر شخص حیات طیبہ کا خواہشمند ہوتا ہے۔ اللہ کے نزدیک محنت کرنے والا مزدور اور کسان اچھی معیشت کا حامل ہوتا ہے حضور علیہ اسلام نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک اس غلام کی حالت بہت اچھی ہے۔ جو اپنے مجازی مالک کا حق بھی ادا کرتا ہے اور حقیقی مالک کے حقوق کی بھی پاسداری کرتا ہے۔ یعنی اپنے آقا کی خدمت میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا اور اللہ مالک الملک کی عبادت میں بھی منہمک رہتا ہے۔ ایسا غلام دہرے اجر کا مستحق ہوتا ہے ایک غریب مزدور کی حالت اس امیر کبیر کارخانے دار سے بد رحہا اچھی ہے۔ جسکی دولت عیاشی ، فحاشی اور رسومات باطلہ پر خرچ ہوتی ہے ۔ مقصد یہ کہ اچھی معیشت محض دنیوی آسودگی کا نام نہیں بلکہ اللہ کے ہاں پسندیدہ حالت مراد ہے۔ اور یہ کیفیت اسی وقت پید ہوگی ، جب انسان اپنے فرائض اور مخلوق خدا کے حقوق ادا کرے گا۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) کے نزدیک ارتفاقات معاشیہ کو صحیح طور پر انجام دینا ایک مومن کے لیے لازمی ہے۔ ایسا شخص جائز وسائل آمدنی اختیار کرتا ہے اور حرام راستوں سے بچتا ہے مصارف کے معاملہ میں بھی وہ حد اعتدال کو قائم رکھتا ہے نہ کنجوسی کرتا ہے اور نہ اسراف کا مرتکب ہوتا ہے ، نہ تو ناجائز ذرائع سے مال حاصل کرتا ہے اور نہ ہی محنت ، مزدوری ، تجارت یا صنعت سے کمایا ہوا مال بینڈ باجے ، آتش بازی اور ولیمے کی پرتکلف دعوتوں پر اڑاتا ہے وہ نہ تو پختہ قبریں بناتا ہے اور نہ ان پر چادریں چڑھاتا ہے ، نہ وہ عرس اور قوالی کراتا ہے اور نہ ختم دلواتا ہے۔ یہ سب اضاعت مال ہے جس سے اللہ اور رسول نے منع فرمایا ہے۔ حرام کی کمائی کو ترقی کا نام دینا دھوکے کا سامان ہے۔ رشوت ، سود ، بیمہ ، کھیل تماشے کی آمدنی ناجائز ذرائع میں سے ہے۔ گانے بجانے ، تصویر سازی اور بلیک مارکیٹنگ کی کمائی پر خوش نہیں ہونا چاہئے۔ یہ آخرت میں وبال جان بن جائے گی۔ اس کی بجائے جائز ذرائع سے کمائو اور جائز مصارف پر خرچ کرو کیہ اسی میں عافیت ہے اور اسی میں نجات ہے۔ بہر حال شرح صدر کی دوسری علامت یہ ہے کہ حتی الامکان دنیا سے دل نہ لگایا جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا کو باطل ہی ترک کردیا جائے۔ کیونکہ لا رھبنیۃ فی الاسلام اسلام میں ترک دنیا کا کوئی تصور نہیں تاہم دنیا سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کو عارضی قیام گہا ہی سمجھنا چاہئے اور تو ہمیشہ دارخلود یعنی ہمیشہ رہنے والے گھر کی طرف ہی ہونی چاہئے۔ اور شرح صدر کی تیسری علامت یہ ہے کہ ایسا شخص موت کے وار د ہونے سے پہلے اس کی تیاری میں لگا رہتا ہے۔ حضور علیہ اسلام کا ارشاد مبارک ہے۔ اکثر واذکر ھازم الازات یعنی لذتوں کو ختم کردینے والی چیز موت کا کثرت سے ذکر کیا کرو۔ اس سے دل میں صفائی پیدا ہوتی ہے۔ جو شخص قرآن پاک تلاوت کرتا ہے اور موت کو کثرت سے یاد کرتا ہے ۔ اس کے دل پر زنگ نہیں چڑھے گا۔ اور اگر قرآن پاک کی بجائے ناول ہی پڑھتے رہو گے ، گانے سنو گے تو دل پر زنگ چڑھ جائے گا۔ اور وہ سیاہ ہوجائے گا ، اس کے نتیجے میں موت بھول جائے گی انگریزی اور یورپی تمدن اسی منج پر آکر آخرت اور خدا تعالیٰ کو فراموش کر بیٹھا ہے۔ نہ خدا کا تصور اور نہ آکرت کی فکر۔ ان کے پیش نظر ایک ہی چیز ہے۔ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست بہرحال فرمایا کہ شرح صدر کی تیسری علامت یہ ہے کہ انسان موت سے پہلے موت کی تیار کرتا ہے۔ دل کی کشادگی کے ذکر کے بعد اللہ نے دل کی تنگی کے متعلق فرمای ہے ومن یرد ان یضلہ اور جس کو اللہ گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے یجعل صدرہ ضیقا حرجا اس کے سینے کو تنگ کردیتا ہے۔ تنگی والا حرج اس درخت کو کہتے ہیں جو بہت سے گھٹے درختوں کے جھنڈ کے اندر واقع ہو اور وہاں تک کوئی چیز آسانی سے نہ پہنچ سکے۔ سینے کی تنگی کا بھی یہی مطلب ہے کہ اس میں کوئی کارخیر ، ایمان یا ہدایت داخل نہیں ہو سکتی۔ اور اس کی مثال ایسی ہے کا نما یصعد فی اسلماء گویا وہ آسمان کی طرف چڑھنا چاہتا ہے۔ مگر چڑھ نہیں سکتا۔ اسی طرح تنگ دل میں نیکی کی کوئی بات داخل نہیں ہو سکتی۔ دل کا تنگ ہوجانا بلا وجہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے بھی اسباب ہوتے ہیں۔ قدرت نے سوبب اور مسبب یا علت اور معلول کا سلسلہ قائم کر رکھا ہے جو لوگ اپنے دل کا شیشہ صاف رکھتے ہیں ، اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ہدایت کے طلب گار ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ یقینا ان کے سامنے راہ راست کو واضح کر دیگا اس کے برخلاف جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہی نہیں کرتا ، جسے محاسبے کی فکر ہی نہیں ہے ، اللہ کے ہادیوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ دنیا سے محبت کرتا ہے اور جا پسند ہے ، ایسے لوگوں کے دلوں کو اللہ تعالیٰ تنگ کردیتا ہے اور پھر ہدایت کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق اللہ نے فرمایا ” صم البکم الذین لایقلون “ (انفال) ایسے لوگ اندھے اور بہرے ہوجاتے ہیں ، ان کے دل تنگ ہوجاتے ہیں۔ پھر نہ وہ عقل کو صحیح طور پر استعمال کرتے ہیں اور نہ انہیں راہ راست میسر آتا ہے فرمایا کذلک یجعل اللہ الرجس علی الذین لا یوء منون اسی طرح اللہ ڈال دیتا ہے گندگی ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے ۔ رجس کے مختلف معنی آتے ہیں ۔ گندگی کے علاوہ اس لفظ کا معنی عذاب بھی ہے۔ یہ معنی بھی صادق آتا ہے کہ جس شخص کا سینہ تنگ ہوجاتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کو عذاب میں مبتلا کردیتا ہے۔ رجس شیطان پر بھی بولاجاتا ہے۔ یعنی ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ شیطان کو مسلط کردیتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ شیطان تو بذات خود گندا ہے ، اس کی فکر گندی ہے اور گندگی ہی کی تعلیم دیتا ہے۔ اسی لیے حضور علیہ اسلام نے تعلیم دی ہے کہ بیت الخلا میں جاتے وقت یہ دعا پڑھ لیا کرو۔ اعوذ باللہ من الخبث الخبائث یعنی میں نر اور مادہ شیاطین سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ ایسا کہنے والا شیطان کے شر سے محفوظ رہتا ہے ، وگرنا حضور نے فرمایا کہ شیطان انسان کے اعضائے مستورہ کے ساتھ بیت الخلا میں کھیلتے رہتے ہیں۔ فرمایا وھذ صراط ربک مستقیماً ہے تیرے رب کا سیدھا راستہ جس پر اللہ کا آخری پیغمبر اور اس کے پیرو کار چل رہے ہیں اور جس کے اصول و ضوابط اللہ نے اس کتاب قرآن پاک میں نازل فرما دیئے ہیں۔ پھر جہاں ضرورت تھی ، اللہ کے نبی نے ان کی تشریح بھی بیان کردی ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا ھذا صراط علی مستقیم (الحجر) یہی میری طرف سیدھا راستہ ہے آگے فرمایا قد فصلنا الایت لقوم یذکورون ہم نے تفصیل کے ساتھ نشانیاں ، معجزات ، دلائل ، احکام اور اصول وغیرہ بیان کردیئے ہیں۔ یہ نشانیاں اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہیں۔ اس کی وحدانیت ، قدرت تامہ اور حکمت بالغہ کو واضح کرتی ہیں اور یہ اس قوم کے لیے ہیں جو نصیحت پکڑتے ہیں ۔ جو لوگ نصیحت کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے ان کے لیے کوئی دلیل اور نشانی مفید نہیں ہو سکتی۔ سورة غاشیہ میں ہے کہ ” فذکر انما آنت مذکر “ آپ لوگوں کو نصیحت کریں کیونکہ آپکا کام نصیحت کرنا ہی ہے۔ سورة اعلیٰ میں ہے ” سیذکرمن یخشیٰ “ نصیحت وہ آدمی پکڑتا ہے جس کے دل میں خوف ہو ، جس کے دل میں آخرت اور محاسبے کا خوف جاگزیں ہوگا۔ وہ اللہ کی بیان کردہ نشانیوں سے ضرور نصیحت پکڑے گا۔ سورة اعراف میں آتا ہے ” واذکر ربک فی نفسک “ اپنے دل میں رب کا ذکر کرو ” بالغدو والاصال “ یعنی صبح و شام “ ولا تکن من الغافلین “ اور غافلوں میں نہ ہوجانا۔ ورۃ یوسف میں ہے ” وکاین من آیۃ فی السموت الارض یمرون علیھا وھم عنھا معرضون “ زمین و آسمان میں اللہ کی قدرت کی کتنی ہی نشانیاں موجود ہیں۔ جن پر سے لوگ گزر جاتے ہیں مگر ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے بہر حال فرمایا کہ ہم نے نصیحت پکڑنے والوں کے لیے اپنی نشانیاں تفصیل کے ساتھ بیان کردی ہیں۔ صراط مستقیم کو واضح کردیا ہے۔ اب جو چاہے اس استے کو اختیار کر کے منزل مقصود تک پہنچ جائے اور جو چاہے اس سے اعراض کر کے گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکتا پھرے۔ فرمایا جو لوگ ہماری نشانیوں سے نصیحت پکڑ لیتے ہیں لھم دارا عندربھم ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ان کے رب کے پاس دارالسلام سے مرا جنت ہے۔ جیسے دعا کی جاتی ہے اے مولا کریم ! اد خلنا فی دارلسلام ہم سب کو سلامتی کے گھر میں داخل فرما۔ جنت سلامتی کا گھر اس لیے ہے کہ وہاں کوئی دکھ تکلیف نہ ہوگی۔ نہ کوئی بیمار ہوگا اور نہ پریشان ہوگا ہر طرف سے سلامتی کی آوازیں آئیں گی۔ سورة زمر میں ہے کہ جب فرشتے جنتیوں کو گروہ درگروہ جنت کی طرف لے جائیں گے تو ان کے لیے دروازے کھول دیئے جائیں گے تو ان سے کہا جائیگا ” وسلم علیکم طبتم فارخلوھا خلدین “ (الزمر) تم پر سلامتی ہو۔ تم بہت اچھے رہے اب اس میں ہمیشہ کے لیے داخل ہو جائو خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام آئے گا۔ ” سلام قف قولا من رب رحیم “ (یٰسین) مومن بھی ایک دوسرے کو سلام کریں گے اور فرشتے بھی اہل جنت کو سلام کردیں گے۔ اسی کے متعلق فرمایا کہ صراط مستقیم پر چلنے والوں کے لیے ان کے رب کے پاس سلامتی کا گھر ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ فرمایا وھو ولیھم اور وہی اللہ ان کا کارساز ہے جو لوگ اللہ کی رضا کے طالب ہیں۔ جن کا سینہ اللہ نے کھول دیا ہے۔ جو صراط مستقیم کے مسافر ہیں اور جو آخرت کے محاسب سے ڈرتے ہیں۔ اللہ ان کا کارساز اور نگہبان ہے۔ اور یہ انعام ان کو اس بدلے میں حاصل ہوگا بما کانوا یعملون جو کچھ وہ اس دنیا میں کرتے رہے۔ انہوں نے اس دنیا کی زندگی میں ایمان حاصل کیا اور نیک کام انجام دیئے ، اب اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوجائے گا ، ان کا کار ساز ہوگا اور اس طرح وہ کامیابی کی منزل تک پہنچ جائیں گے۔
Top